ملک حویلی میں قدم رکھتے اس کا پہلا سامنا شمع بیگم سے ہوا تھا- وہ گھات لگائے شکاری کی طرح شاید اسی کے انتظار میں ٹہل رہیں تھیں، اسے حویلی میں دیکھتے ہی وہ دندناتی ہوئی اس کے سر پر پہنچی تھیں- مرجینہ کو سر تا پیر حقارت سے گھورتے انہوں نے اگلی ہی پل بنا لحاظ کیے اسے پوری قوت سے تھپڑ دے مارا کہ وہ لڑکھڑاتی ہوئی زمین بوس ہوئی تھی – تھپڑ کی شدت اتنی شدید تھی کہ اس کا ذہن تک ماؤف ہو گیا تھا-
”بھابھی سائیں! چندا نے اس کی حالت پر ترس کھاتے انہیں روکنا چاہا-
”تم چپ کر کے کھڑی رہو-“ ان کی سخت گھوری پر چندا لب بھینچتی پیچھے ہو گئی-
”اٹھو! انہوں نے مرجینہ کا بازو دبوچتے کھڑا کیا تھا- وہ سنسناتے دماغ کے ساتھ ان کو دیکھے گئی-
” اس گھر میں اپنی جگہ بنانے کی کوشش بھی مت کرنا- یہ میرا گھر ہے- تمھاری حیثیت ایک نوکرانی کی ہے – بہزاد سائیں کے آس پاس بھی دکھائی دی تو تمھارے ٹکڑے ٹکڑے کر دوں گی-“ مرجینہ کا گال دبوچتے انہوں نے اسے بہزاد سے دور رہنے کی تلقین کی تھی- ان کی سخت پکڑ پر مرجینہ درد سے بلبلا اٹھی تھی-
”میں آپ کے غلیظ شوہر ہر تھوکنا بھی پسند نا کروں-“ مرجینہ نے نفرت سے کہتے ان کا ہاتھ جھٹکا تھا- اس کی ہمت پر جہاں شمع بیگم کر پارہ ہائی ہوا تھا وہیں چندا کے لبوں پر مبہم سی مسکراہٹ پھیلی تھی جسے وہ بروقت ہی لب کاٹتے چھپا گئی تھی- اندر آتے بہزاد ملک مرجینہ کے بات پر پیچ و تاب کھاتے مٹھیاں بھینچی تھی-
”یہ ڈرامے کسی اور کو دکھانا، میرے سامنے تو محض دکھاوا ہے تاکہ مجھے تمھارے ارادوں کی بھنک بھی نا پڑے اور تم میری جگہ پر قبضہ کر لو- مجھے اندازہ ہے مردوں کو لبھانے کا طریقہ تو تمھیں بخوبی آتا ہوگا۔ تمھاری ماں بھی تو یہی کرتی تھی- گندی عورت کی گندی بیٹی!“ حقارت سے کہتی وہ تمسخرانہ ہنسی ہنس دیں-
”ماں کو گالی مت دیں ورنہ!“ اپنی لہو رنگ آنکھیں ان کی آنکھوں میں گاڑھتے مرجینہ نے انگشتِ شہادت اٹھاتے انہیں باز رہنے کی تنبیہہ کی تھی-
وہ مرجینہ تھی سنی سنائی باتوں پر کان نا دھرنے والی ، اس نے ماں کے روپ میں بختاور کی جان نثار ممتا دیکھی تھی اس کے لیے ممتا کا رشتہ معتبر تھا- جس عورت نے اس کو جنا تھا وہ اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی تھی ، اور بغیر حقیقت جانے وہ نفرت نہیں کر سکتی تھی- ہاں البتہ یہ گالی باپ کے لیے دی گئی ہوتی تو اسے رتی برابر بھی فرق نا پڑتا کیونکہ باپ کا جو بھیانک و مکرہ چہرہ آج وہ دیکھ چکی تھی اسے اس رشتے سے ہی نفرت ہو گئی تھی-
” ورنہ کیا کر لو گی تم؟“ شمع بیگم اس کی جرات پر غرائیں-
”وہ کروں گی جو آپ سوچ بھی نہیں سکتی-“ اس کے چٹان کی سختی کو مات دیتے لہجے میں سب کچھ تباہ کر دینے کے اعلان انہیں ہکا بکا کر گیا تھا-
”تمھاری لمبی زبان اور یہ اکڑ تو میں توڑوں گی-“ ان کا دل کیا مرجینہ کا گلا دبا دیں- ونی میں آئی ایک معمولی لڑکی ان کے آگے تن کے کھڑی تھی-
”یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ کون کس کی اکڑ توڑے گا-“ وہ استہفامیہ مسکراتے شمع بیگم کے تن بدن میں آگ لگا گئی تھی- اس کی حاضر جوابی پر چندا بھی عش عش کر اٹھی تھی-
” وقت نہیں! تیری اوقات تو میں ابھی بتاتی ہوں- چندا۔۔اا-“ انہوں نے دانت پیستے مرجینہ کے بال جکڑ کر چندا کو پکارا تھا-
”جی بھابھی سائیں! چندا فوراً ہی آگے آئی تھی-
”اسے لے جا کر کام پر لگاؤ! اتنے کام کراؤ کہ اس کی روح پرواز کر جائے-“ نفرت سے کہتے انہوں نے بالوں کے بل مرجینہ کو دکھا دیا تھا- چندا نے بروقت تھام کر اسے گرنے سے بچایا تھا-
”چلو!“ چندا کے کھینچنے پر وہ انہیں گھورتے ہوئے چپ چاپ چندا کے ساتھ چلی گئی تھی-
🌼°°°°°°°°°°🌼