انسان کی فطرت ہے جو وہ آنکھوں دیکھتا ہے اسی پر بھروسہ کرتا ہے خواہ وہ سچ ہو یا جھوٹ مگر آنکھوں دیکھا جھٹلایا نہیں جا سکتا۔
“زندگی اتنی مشکل کیوں ہوتی ہے؟ کیوں یہ اتنے دکھ دیتی ہے؟ کبھی کبھی تو کچھ لوگ اس زندگی کی مشکلوں اور الجھنوں کے ہاتھوں تنگ آ کر خودکشی ہی کر لیتے ہیں…..مگر کچھ مجھ جیسے بہادر بھی ہوتے ہیں جو ہر قسمی حالات کا سامنا دلیری سے کرتے ہیں، ان کی زندگی آخری سانس بھر رہی ہوتی ہے مگر وہ جینے کی کوشش جاری رکھتے ہیں کیونکہ انہیں اللّٰہ پر یقین ہوتا ہے کہ ایک دن سب ٹھیک ہو جائے گا۔ان کی زندگی کی ہر مشکل آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گی۔” قلم تھامے ہاتھ کی حرکت تھم گئی تھی اس نے ہونٹوں کو وا کر کے بوجھل سی سانس بھری اور سر میز کی سطح پر ٹکا کر آنکھیں موند لیں۔
“مجھے نہیں معلوم کہ میری زندگی کی سچائی کیا ہے،وہ جو میرے خیالات اور خوابوں میں دکھائی دیتی ہے یا پھر وہ جو حقیقت میں ظاہری نگاہوں سے دیکھائی دیتی ہے؟” اس کا دماغ سوچوں میں جکڑا منتشر ہوئے جا رہا تھا۔اس کی زندگی کی الجھی ڈور میں سے کوئی ایک بھی دھاگہ ہاتھ نہ آتا اور وہ بےچین ہو جایا کرتی۔
دیکھا جائے تو لجین کے پاس خوش رہنے کے لیے ایک بھی وجہ نہ تھی۔وہ جی تو نہیں رہی تھی مگر مرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔اس کے خیالوں اور خوابوں میں ایک شخص کی پرچھائی تھی جسے اس نے ڈھونڈنا تھا،اپنے بیتے کل کو کھوجنا تھا۔وہ اس شخص کے متعلق جاننا چاہتی تھی جو اس کے دل میں تو زندہ تھا مگر دماغ میں اس کا عکس واضح دکھائی نہ دیتا…..وہ سب کچھ کھو کر بھی اس احساس کو نہیں کھو پائی تھی کہ کوئی اس کی زندگی کا خاص حصہ ہے جس کے بنا وہ ادھوری تھی؟
“آخر وہ کون تھا لجین! جس کا عکس تمہیں ہر مرد میں دکھائی دیتا ہے؟” اس دن جب اسے پاگل پن کا دورہ پڑا تو فوراً ڈاکٹر عالیہ کو بلایا گیا۔
“نہیں معلوم، یہ ہی تو پتہ کرنا ہے۔” پسماندہ سا لہجہ،زخمی مسکراہٹ دیکھ کر ڈاکٹر عالیہ نے بوجھل سی سانس بھری۔
“تمہیں جب وہ دکھائی دیتا ہے تو تم اتنی ہائپر کیوں ہو جایا کرتی ہو؟” اس کی ہر ایک موومنٹ کو بغور دیکھتے ہوئے انہوں نے مزید پوچھا۔
“مجھے یاد نہیں،ک کیا کرتی ہوں میں؟” وہ وحشت زدہ سی آنکھیں پھیلائے انہیں دیکھنے لگی۔ڈاکٹر عالیہ نے بوجھل سانس بھری۔
“تم بہت ڈر جاتی ہو….جیسے کسی نوعمر بچے کی ماں اسے دکھائی نہ دے تو وہ رونے لگتا ہے،یا پھر جب ماں بچے کو ساتھ بازار نہ لے کر جائے تو وہ تڑپ اٹھتا ہے۔” ان کے سمجھانے کے انداز پر لجین زخمی سا مسکائی۔
“اتنی محبت مجھے کیوں ہو گی کسی سے،اور اگر ہوتی بھی تو کیا وہ آج میرے ساتھ نہ ہوتا؟” نجانے وہ خود سے سوال کر رہی تھی یا ڈاکٹر سے۔
“تمہیں خود کو سنبھالنا ہو گا،اور اپنی میڈیسن وقت پر لو۔دیکھو لجین حقیقت اور خواب دونوں میں فرق کرنا سیکھو،اور گھبراؤ نہیں سب جلد ٹھیک ہو جائے گا۔” ڈاکٹر عالیہ نے اسے پھر سے خیالات میں کھوتے پا کر تیزی سے کہا تو وہ محض سر اثبات میں ہلا کر رہ گئی تھی۔
“ڈاکٹر!” مردہ سی آواز پر ڈاکٹر عالیہ نے جاتے جاتے پلٹ کر اس کی جانب دیکھا۔لجین نم آنکھوں سے اس کی جانب ہی متوجہ تھی۔
“م میں پاگل نہیں ہوں نا؟” ایک امید تھی اس کے بوجھل لہجے میں۔
“نہیں بلکل بھی نہیں۔” عالیہ مسکراہٹ لیے گویا ہوئی تھی۔وہ لاجواب سی لب بھینچ گئی تھی۔
Al Hub by Tayyaba Choudhary Episode 1

