جیسے ہی فرحت بیگم بچوں سمیت ہاسپٹل پہنچی ماہ رُخ کو دوڑتا ہوا خود کے قریب آتے دیکھا بکھرے بال اُجڑا حلیہ کچھ سیکنڈ کے لئیے فرحت بیگم کا دل دہل گیا جب ماہ رُخ اُن کے گلے آ لگی اور ہچکیوں سے رونے لگی اُسکے پیچھے ہی سبین بھی قریب آ چکی تھی سبین نے ماہ رُخ کو فرحت بیگم سے الگ کیا ماہ رُخ سنبھالو خود دیکھو آنٹی اور بہن بھائی پریشان ہو رہے ہیں سبین نے اُس کا دھیان باقی بہن بھائیوں کی طرف دلایا تو ماہ رُخ نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی۔
آنٹی پریشان نہیں ہوں انکل ٹھیک ہیں سبین نے معاملے کی نزاکت دیکھتے ہوئے فرحت بیگم کو تسلی دینے کی کوشش کری تو پھر ماہ رُخ اِس طرح رو کیوں رہی ہے بیٹا مجھے سچ بتاؤ ماہ رُخ تو کبھی اِس طرح نہیں روتی اِس کے ابا کہاں ہیں اُنہیں الگ خدشات ستا رہے تھیں رمشاء فرح اور اسد بھی بہن کو اِس طرح روتے دیکھ کر پریشان ہو گئیں تھیں اور وہ بھی روہانسا ہونے لگیں کہ سبین نے کہا چلو سب میرے ساتھ آنٹی آئیں آپ بھی چلو انکل کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں تو آپ سب کو تھوڑی تسلی ہوجائیگی وہ اِن سب کو آئی سی یو کے پاس لے گئی اور سب سے پہلے فرحت بیگم کو اندر لے گئی شوہر کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر اُنہیں تھوڑی تسلی ہوئی جب اُنہیں مختلف مشینوں میں جکڑا بے ہوش دیکھا تو وہ تسلی ہوا ہونے لگی۔
اِنہیں کیا ہوا ہے ڈاکٹر سبین اِنکی یہ حالت کیسے ہوئی سبین کو جیسے ہی لگا کہ اب وہ رونے والی ہیں تو وہ اُنہیں آئی سی یو سے باہر لے آئی آئی سی یو سے باہر آتے ہی فرحت بیگم کی نظر اپنے بچوں پر گئی ماہ رُخ سے لپٹا اسد رمشاء اور فرح ہراساں چہرے کے ساتھ کھڑی اپنی ماں کو دیکھ رہی تھی اُنہوں نے کبھی اپنی بڑی بیٹی کو اِس ٹوٹی بکھری حالت میں نہیں دیکھا تھا اُنہوں نے حوصلہ کیا اپنے بچوں کے لیئے اور پھر سبین کو سوالیہ نظروں سے دیکھ کر جاننا چاہا کہ اُنکے شوہر کو کیا ہوا ہے وہ اِس حالت میں کیسے پہنچے