
گاؤں کے بیچ لوگوں کا ہجوم جمع تھا اور اسی ہجوم کے درمیان وہ آدمی کروفر سے براجمان تھا۔۔
“کیا فیصلہ چاہتے ہیں آپ ؟”
سناٹے کو چیرتی سر پنچ کی آواز پر اس آدمی نے ایک نظر اپنے سترہ سالہ بیٹے کو دیکھا۔۔
“ہمیں خون بہا میں انیس یزدانی کی سب سے چھوٹی بیٹی نور فاطمہ چاہیے” فیصلہ تھا کہ چابک جو سیدھا سامنے بیٹھے مرد کے دل میں لگا تھا۔۔
“سہیل شاہ۔۔۔ ” ایک جھٹکے سے وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر چیخے۔
“خبردار جو میری پوتی کا نام اپنی زبان سے لیا”
“میں نے صرف نام نہیں لیا میں نے فیصلہ سنایا ہے” ان کے لہجے میں غرور تھا۔
“وہ ابھی محض ساتھ سال کی ہے ” ان کے لہجے میں اب بے بسی ہی بے بسی تھی۔
“ہم نے تو اپنا بیٹا کھویا ہے اب کے قربانی دینے کی باری تمہاری”
وہ اپنے فیصلے سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹے تھے ۔۔۔
“انیس یزدانی سہیل شاہ نے آپ کی پوتی کو خون بہا میں مانگا ہے اور یہی ان کا آخری فیصلہ ہے”
“ایک بار پھر سوچ لو سہیل شاہ۔۔ وہ معصوم بچی ہے”
“میرا بیٹا بھی معصوم تھا صابر یزدانی۔۔ جسے تمہارے بیٹے نے مار دیا اب اسکی بیٹی میرے پوتے کے نکاح میں آئے گی” وہ رحم نہیں کرنے والے تھے اتنا طے تھا۔۔
تھوڑی دیر بعد نکاح کی کاروائی عمل میں لائی گئی۔۔
سات سالہ نور کا نکاح سترہ سالہ جازب شاہ سے ہوگیا تھا۔۔
نکاح ہوتے ہی صابر یزدانی نے کسی کو اشارہ کیا تھا۔۔
اس روتی بلکتی بچی کو اندر اسکی ماں سے ملنے بھیجا گیا تھا باہر مردان خانے میں جمع مرد اس بچی کو ساتھ لے جانے کے لئے کھڑے تھے یہ جانے بغیر اس بچی تک رسائی اب ناممکن ہونے والی ہے۔
“وہ لڑکی کہاں ہے؟” صابر یزدانی کے سامنے کھڑا وہ خود پر ضبط کے پہرے بٹھائے ہوئے تھا۔۔
“ہم نہیں جانتے ہمیں کچھ نہیں پتا نا اسکی ماں یہاں ہے نا وہ”
“یہ ادکاری میرے سامنے مت کرنا یزدانی صاحب۔۔۔ میں وہ ہوں جو اسے زمین کی تہوں سے نکال لاؤں گا ” اسکی آنکھوں میں خون تھا اپنے باپ کا خون۔۔۔
“جازب ۔۔ میں نہیں جانتا “
“نہیں جانتے نا تو اب یاد رکھنا وہ خون بہا ہوئی لڑکی ہے۔۔ وہ میری ملکیت ہے۔۔ بتاؤ مجھے کہاں ہے وہ” وہ ایک ایک لفظ چبا کر کہہ رہا تھا۔۔
“وہ حویلی میں نہیں ہے میں سچ کہہ رہا ہوں”
“سچ؟ ایک بات یاد رکھنا اسکا پیچھا اتنی آسانی سے نہیں چھوڑوں گا میں ڈھونڈ کر رہوں گا اسے چاہے پھر اسکے لئے مجھے اپنی پوری زندگی ہی کیوں نا لگانی پڑے۔۔۔” ایک ایک لفظ چبا کر کہتا وہ لمبے ڈاگ بھرتا وہاں سے نکلتا چلا گیا۔۔۔
اور اسکے جاتے ہی صابر یزدانی نے سر ہاتھوں میں گرایا تھا۔۔
ایک ہی بیٹا تھا ان کا جس کی جان بچانے کے لئے وہ کچھ بھی کرسکتے تھے مگر اپنی اکلوتی پوتی کی قربانی انہیں ہر گز منظور نہیں تھی۔۔
آج انہوں نے اپنے بیٹے اور ہوتی دونوں کو بچا لیا تھا ۔۔ مگر کیا واقعی وہ اپنی پوتی کو بچا سکے تھے؟