بختاور اگرچہ قیام کے گھر آتی جاتی رہتی تھی اور صاعقہ سے اس کی اچھی گپ شپ بھی ہو جاتی تھی۔ مگر پھر بھی ان دونوں میں اتنی بے تکلفی تو ہرگز نہیں ہوئی تھی کہ وہ ایک دوسرے سے اپنی ذاتی باتیں کرنے لگتیں۔ اور یہ بھی تو پہلی بار ہوا تھا کہ وہ قیام کے ساتھ اس کے گھر آئی تھی۔
”کیسی ہو بختاور؟ آج بڑے دنوں بعد چکر لگایا ہے۔“ صاعقہ اسے قیام کے ساتھ دیکھ کر حیران تو ہوئی مگر اس نے اپنے تاثرات سے اپنی حیرانی عیاں نہ ہونے دی تھی۔ بختاور نے بھی توجہ نہیں دی تھی البتہ قیام ضرور بھانپ گیا تھا۔
”آپ سے ملنے آ رہی تھی اور اتفاق سے میری بائیک خراب ہو گئی تھی تو میں اسے ورکشاپ پہ کھڑی کرکے بختاور کے ساتھ ہی آ گیا۔“ صاعقہ نے صرف مسکرا کر اسے دیکھا اور بختاور کو لیے ڈرائنگ روم تک آئی تھی۔ قیام ان دونوں کے پاس زیادہ دیر تک نہیں رکا تھا۔ جانے سے پہلے بھی وہ بختاور کو اشاروں میں صاعقہ سے بات کرنے کا کَہ کر گیا تھا۔
”آپ ان دنوں کچھ پریشان ہیں کیا؟“ کچھ دیر بعد آخر اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔
”میں اور پریشان؟ نہیں تو۔۔۔ تم سے کس نے کہا؟“ وہ چونکی، اس کی تردید کی اور یاد آنے پر بولی:
”کیا قیام نے ایسا کچھ کہا؟“ دھیان اسی کی طرف جانا تھا، اس کے علاوہ بھلا کون تھا جو بختاور سے اس کی بات کرتا۔
”جی! اسے آپ کی فکر رہتی ہے۔“ اس نے اثبات میں سر ہلاتے صاف گوئی سے اعتراف کیا تھا۔
”مجھے کوئی پریشانی نہیں اور تم اسے کَہ دینا کہ مجھے کسی کی ہمدردیاں نہیں چاہییں۔“ ماضی میں قیام کا اس سے روا رکھا رویہ، اسے بھولا تو نہیں تھا۔ اور وہ اگر بھول بھی جاتی تو بھی وہ جس مسئلے میں گھری تھی وہ ایسا نہیں تھا کہ اس سے یا قیام سے کچھ کہتی۔
”ایسا نہیں ہے آنٹی! وہ آپ سے ہمدردی نہیں کر رہا۔ اسے سچ میں آپ کی فکر ہے۔“ بختاور غیر ارادی طور پر ہی قیام کا کردار اس کے سامنے واضح کرنے لگی تھی۔
”نہیں بختاور! ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔“ اس نے صاف پہلو بچانے کی کوشش کی تھی۔
”آپ کو یاد ہو گا کہ جب میں پہلی بار یہاں آئی تھی تو اجنبی ہونے کے باوجود آپ نے نہ صرف میرے دل کی بات سنی بلکہ مجھے سمجھایا بھی تھا۔ میرا غم بھی بانٹا تھا۔“ بختاور اب اس سے بات کیے بنا رکنے یا پیچھے ہٹنے والی نہیں تھی۔
”تو اسی طرح آج آپ اپنے دل کی بات بلاجھجک مجھ سے کَہ دیں۔“ صاعقہ میز کی چکنی سطح پر ہاتھ پھیرتی خاموش سی بیٹھی بس اسے سن رہی تھی۔
”ہمارا دل بے شک بہت مضبوط ہوتا ہے، ہم بھلے خود کو بہت بہادر سمجھتے ہیں مگر یہ فکر اور پریشانی بڑے سے بڑے پہاڑ کو بھی ریزہ ریزہ کرنے کی خاصیت رکھتی ہے تو ہم انسان کیا چیز ہیں؟“ وہ اپنے سامنے رکھی چائے اور کھانے کے لوازمات کو یک سر نظر انداز کیے، اس سے محوِ کلام تھی۔
”میں آپ سے عمر میں چھوٹی ضرور ہوں لیکن میں اتنی مضبوط ہوں کہ آپ کا درد بانٹ سکتی ہوں۔ آپ کی تکلیف کو توجہ سے سن کر اسے آدھا کر سکتی ہوں۔“ صاعقہ نے اسے دیکھا، اپنائیت و محبت بھری وہ ایک نظر اعتبار سے بھرپور تھی۔
”میں نے کہیں پڑھا تھا کہ خوشی اور غم کا عجیب سا کلیہ ہوتا ہے۔ خوشیاں بانٹنے سے بڑھتی اور غم کم ہوتے ہیں۔ آج آپ مجھ سے اپنا غم بانٹ لیں پھر کل ہم خوشیاں بھی دوبالا کریں گے۔“ کَہ کر اس نے اپنا ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ دوستی کا ہاتھ، جسے تھامنے میں صاعقہ نے دیر نہیں لگائی تھی۔ قیام جو فون کال پر اس کی ساری باتیں سن رہا تھا، اس کی گفت گو سن کر حیران ہو رہا تھا۔
”تم اتنی سمجھ دار بھی ہو سکتی ہو، مجھے یقین نہیں آتا۔“ میسج لکھ کر اسے بھیجا تھا۔ دل میں بختاور کے لیے پنپتے جذبات میں مزید اضافہ ہوا تھا۔
جب سے ملی تُو،
دل کو یقیں ہے
تیرے لیے ہی میں ہوں بنا
لُوٹا ہے دل کو تیری ادا نے
یہ کیسا مجھ پہ جادو کیا
میری دعا میں، میری صدا میں۔۔۔
ہوتا ہے نام تیرا
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭