Uncategorized

Dil O Janam Fida E Tu by Aniqa Ana Episode 47 Online Reading


”جی ہاں! لیکن آپ اسے کیسے جانتے ہیں؟“ پہلے کی باتوں اور اب کے اس سوالیہ جملے میں کہیں کوئی ربط نہیں تھا۔ یا تو وہ شخص خود پاگل تھا یا اسے پاگل کر دینا چاہتا تھا۔
”وہ میری کزن ہے؟“
”کزن مطلب؟ آپ اس کے ماموں بیٹے ہیں؟“ اس نے فوراً پوچھا اور اس کے ہاں کہنے پر اب وہ دھیان دے رہی تھی کہ شہرین کے ماموں شبیر حقانی اور یہ واصب حقانی۔۔۔ اسے پہلے خیال کیوں نہیں آیا؟ خیال آتا بھی کیسے؟ شہرین اپنے ننھیال کا بالکل بھی ذکر نہیں کرتی تھی۔ اس نے تو آج تک یہی نہیں بتایا تھا کہ وہ وہاں سے آئی کیوں تھی؟
”تو آپ اسی سے بات کیوں نہیں کرتے؟ مجھے درمیان میں ایلچی بنانے کی ضرورت نہیں ہے۔“ اسے غصہ آیا تھا کہ وہ بلاوجہ ہی اسے پریشان کیوں کر رہا ہے؟
”کیا بنانے کی ضرورت نہیں ہے؟“ واصب کو ایلچی لفظ میں سمجھ نہیں آیا تھا۔
”قاصد، پیام بر یا پیغام رساں۔۔۔“ اس نے چڑ کر مترادفات کی لغت اسے سنائی تھی۔ واصب کا جان دار قہقہہ بے ساختہ تھا۔
”وہ ہم سے یعنی دادو اور مجھ سے ناراض ہو کر آئی تھی تو اپنا نمبر اس نے بدل لیا تھا اور نیا نمبر ہمارے پاس ہے ہی نہیں۔“ وہ بڑی مہارت سے جھوٹ بولنے لگا۔
”ناراض ہو کر؟ لیکن کیوں؟“ مطیبہ کو یقین نہیں آیا تھا۔ وہ شہرین کی عادت سے واقف تھی۔ وہ اتنی ناسمجھ نہیں تھی کہ بڑوں سے ناراض ہو کر گھر چھوڑ آتی۔
”دراصل ان کے گھر اور ہمارے گھر کے ماحول میں بہت فرق ہے۔“ واصب نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ مطیبہ بیچ میں بولی تھی۔
”ہاں ہاں بالکل! ہم مڈل کلاس لوگ ہیں اور آپ امیر لوگ ہیں فرق تو واقعی بہت ہے۔“ واصب کو محسوس ہوا کہ وہ برا منا گئی ہے۔
”ایسی بات نہیں ہے۔ بس دادو اور میں اسے سمجھاتے رہتے تھے کہ خود میں تبدیلی لانی چاہیے۔ ماحول کے مطابق خود کو ڈھال لینا چاہیے اور بس۔۔۔ وہ ان سب باتوں سے تنگ آ کر یا اکتا کر گھر سے چلی گئی۔“ جھوٹ کے اگر پاؤں ہوتے تو اس وقت ان کی تیز رفتاری پہ میراتھن دوڑ کا پہلا انعام واصب حقانی کو اس سرعت سے جھوٹ بولنے پر ملنا چاہیے تھا۔
”تو آپ اس کا نمبر۔۔۔“
”میں نے کوشش کی تھی کہ اس سے براہ راست رابطہ کروں مگر وہ ڈیڈی کو شکایت لگانے کی دھمکی دیتی ہے۔“ مطیبہ کو اس کی اس بات پر بھی یقین نہیں آیا تھا لیکن جرح کرکے بات کو طول دینے کے حق میں بھی نہیں تھی۔ یہ سوال بھی عبث تھا کہ اس نے اس کا نمبر کہاں سے لیا؟ اسکول میں نوکری اور منتظم ہونے کے باعث اس کا نمبر پبلک ہی تھا۔ اسکول میں آ کر کسی سے بھی بآسانی لیا جا سکتا تھا۔ سوال یہ تھا کہ وہ اس سے کیا چاہتا تھا؟ ناراض شہرین کو منانا کون سا مشکل تھا؟ وہ گھر آ جاتا اپنی پوزیشن واضح کرتا اور اسے منا لیتا، بات ختم۔۔۔ یہ سب تو وہ سوچ رہی تھی اور واصب حقانی خود کیا سوچ رہا تھا تھا یا کیا چاہتا تھا اس تک اس کی رسائی ممکن نہیں تھی۔
”آپ آخر مجھ سے چاہتے کیا ہیں؟“ آخر تنگ آ کر اس نے پوچھ ہی لیا تھا۔
”میں تم سے تمھیں ہی چاہتا ہوں۔“ اس نے مطیبہ کی سماعتوں پر بم پھوڑا تھا۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭


Faryal Khan

About Author

Leave a comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

You may also like

Uncategorized

Howto Determine Gallbladder Disease

17 Symptoms of Gallbladder Disease Ordering an composition is speedy and straightforward. Thus, you’ll get an essay which is totally
Uncategorized

Yar Yaroon sy nah Hon Juda By Zainaib Khan

  Yar yaroon sy nah hn juda by Zainaib khan season 2 Episode(1_19)   . is a Classic, Urdu, Romantic,