شہرین نے ساری تیاری مکمل کرنے کے بعد، سب سے آخر میں کانوں میں جھمکے ڈالے تھے اور آئینے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنا ناقدانہ جائزہ لیا تھا۔ مطیبہ بھی اس کے پیچھے کھڑی اپنی تیاری کے آخری مراحل میں تھی اور دونوں ہونٹوں کے بیچ ٹشو پیپر رکھے لپ اسٹک کو پکا کر رہی تھی۔؎ نازکی اس کے لب کی کیا کہیے پنکھڑی اک گلاب کی سی ہے(میر تقی میر)شہرین نے بے ساختہ ہی شعر پڑھتے ہوئے اسے چھیڑا تھا۔”ہاں ہاں! مجھے معلوم ہے کہ میر تقی میر نے یہ شعر میرے ہی لیے کہا تھا۔“ اس نے شوخی سے کہتے اپنا حق سمجھ کر وہ تعریف قبول کی تھی۔”تم بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔“ شہرین نے رخ موڑ کر اسے دیکھا اور آگے کو ہو کر اس کے بالوں کی ایک چھوٹی سی لٹ کو کھینچ کر چہرے پر لائی تھی۔”لگ رہی ہوں سے کیا مراد ہے؟ میں ہوں ہی خوب صورت۔۔۔ تمھیں شاید اپنی خوب صورتی پہ شبہ ہو، الحمداللہ! مجھے بالکل نہیں ہے۔“ شہرین کھلکھلا کر ہنس دی تھی۔ ”نہیں! شبہ تو مجھے بھی کوئی نہیں ہے البتہ تمھارے لیے دعوے سے کَہ سکتی ہوں کہ آج یقیناً کسی کے دل پہ قیامت گزرے گی۔“ سینڈل کا اسٹریپ باندھتی مطیبہ کے ہاتھ اس بات پر پل بھر کو ساکت ہوئے تھے۔”مطیبہ! تم تصویر میں غضب ڈھا رہی ہو تو میں سوچتا ہوں کہ جب سرخ رنگ میں تم سراپا حقیقت بنی میرے سامنے آ جاؤ گی تو میرے دل پر کیا کیا نہ قیامت گزرے گی؟“ اس یار ہرجائی کی یاد بڑے برے وقت پر آئی تھی۔ بھولی بسری ایک یاد اچانک سے آئی اور دل کی دنیا زیر و زبر کر گئی تھی۔ اس نے پلکیں جھپک جھپک کر آنکھوں میں آئی نمی کو منظرِ عام پر آنے سے روکا تھا۔؎ وہی پھر مجھے یاد آنے لگے ہیں جنہیں بھولنے میں زمانے لگے ہیں (خمار بارہ بنکوی)اس نے ایک ساعت لگا کر ہر قسم کے خیال کو ذہن سے جھٹکا اور اسکول جانے کے لیے چادر اوڑھی تھی۔ شہرین بھی تیار کھڑی تھی۔اسکول پہنچ کر وہ دونوں پرنسپل کی تفویض کی ہوئی ڈیوٹی پر پہنچی تھیں۔ شہرین کی ڈیوٹی اسٹیج پر تھی۔ پردہ سرکتا تو ہال کا منظر اس کی نگاہوں کے سامنے تھا۔ ہال لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ مطیبہ منتظم تھی تو اس کے نام کی پکار ہر جگہ تھی۔ کبھی وہ ہال میں ہوتی تو کبھی اسکول کے اندر، جہاں کھانے کا انتظام تھا۔ شہرین اسے اندر سے باہر اور باہر سے اندر گھن چکر بنے دیکھ کر اس کے لیے فکرمند ہو رہی تھی۔ پچھلے پندرہ بیس دنوں سے وہ ایسے ہی مصروف تھی۔ اسے نہ اپنی صحت کا خیال رہتا تھا نہ تھکن کا احساس ہوتا تھا۔ فنکشن بڑے اچھے طریقے سے اپنے اختتام کی طرف رواں دواں تھا۔ اس کے اندازے کے مطابق یہی کوئی ایک ڈیڑھ گھنٹے کا پروگرام باقی رہ گیا تھا۔ ابھی کلاس ششم کے طلبا کوئی ٹیبلو پیش کر رہے تھے۔ پردہ پیچھے ہوا تھا اور وہ سٹیج پر بچے کو اس کی جگہ پر کھڑا کرنے کے بعد جوں ہی سیدھی ہوئی اور نظر غیر ارادی طور پر سامنے اٹھی تو اس کی سانس وہیں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ گئی تھی۔ دو سے تین بار پلکیں جھپک کر خود کو یقین دلایا تھا کہ اس نے جو دیکھا وہی سچ ہے۔ ”آہ۔۔! وہ سچ ہی تھا اس کا وہم نہیں۔۔۔“ خوف کی ایک سرد لہر سرسراتی ہوئی اس کی ریڑھ کی ہڈی میں دوڑی تھی۔”شہرین! کیا ہو گیا ہے تمھیں؟ کب سے آوازیں دے رہی ہوں۔“ اس کی ساتھی ٹیچر نے اس کا بازو پکڑ کر زور سے ہلایا تھا۔”کیا ہوا فاطمہ؟“ وہ بری طرح چونکی تھی۔”تمھیں ہی کچھ ہوا ہے۔ سٹیج سے اترو، میڈم تمھیں گھور رہی ہیں۔“ وہ خود کو سنبھالتی سرعت سے سٹیج سے اتری تھی۔ خوف سے ٹانگیں لرز رہی تھیں۔ چہرہ زرد ہو گیا تھا۔”یار! تمھارے ہاتھ بالکل ٹھنڈے پڑ رہے ہیں۔ تم یہاں بیٹھو! میں مطیبہ کو بلاتی ہوں۔“ وہ اسے کندھے سے پکڑ کر کرسی پر بٹھاتے ہوئے بولی اور ساتھ ہی مطیبہ کا نمبر ملایا تھا۔”تم نے کیا ہال میں کوئی بھوت دیکھ لیا تھا؟“ مطیبہ فوراً ہی آئی تھی۔ وہ کچھ نہیں بولی تھی۔”شہرین! کیا ہوا؟ سب ٹھیک تو ہے؟“ وہ تشویش میں مبتلا ہوئی تھی۔”کیا تم میری ڈیوٹی تبدیل کرکے مجھے اندر بچوں کے پاس بھیج سکتی ہو؟“ شہرین نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے کہا تھا۔ اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ اگر اس نے جلدی ہی خود کو نہ سنبھالا تو سب کو مطمئن کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔”وہ تو میں ابھی کر دوں گی لیکن تمھیں ہوا کیا ہے؟“ مطیبہ اس کا چہرہ دیکھ کر واقعی پریشان ہو گئی تھی۔”وہ شاید صبح ناشتہ نہیں کیا تھا تو۔۔۔“