”لہیم!!“ عبدالمعید کی چیختی ہوئی آواز سن کر وہ باہر کی جانب بھاگا تھا۔ جہاں شجاع فرید گاڑی کا دروازہ کھولے باہر کھڑا تھا۔ اسے یہی لگا کہ شاید عبدالمعید نے اسے شجاع فرید کو واپس گاڑی میں بھیجنے کے لیے اسے بلایا تھا اور وہ اسے ڈپٹ کر واپس بیٹھنے کا کہنے ہی والا تھا جب اس نے شجاع فرید کی سفید شرٹ میں سوراخ ہوتے، اس سے بہتے خون سے شرٹ کو سرخ ہوتے اور پھر اسے لڑکھڑا کر گھٹنوں کے بل زمین پہ گرتے دیکھا تھا۔”شجاع۔۔۔!!“ وہ اس کی طرف بھاگتا ہوا چلایا تھا اور آج پہلی بار اس نے اس کا پورا نام نہیں لیا تھا۔ شجاع فرید پورے قد سے زمین بوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ وہ زمین پر گرتا، لہیم جاہ نے بھاگتے ہوئے ایک جست لگائی اور اسے اپنے ہاتھوں پہ لیا تھا۔ عبدالمعید نے بے ساختہ گھوم پھر کر چاروں طرف شوٹر کو تلاش کرنا چاہا تھا۔ ایسے میں اس کا دھیان ابھی تک سڑک کے سامنے بنی ایسی ہی دوسری کھنڈر عمارت کی طرف نہیں گیا تھا۔”شجاع! یہ۔۔۔“ گولی اس کے دل سے چند انچ کے مقام سے اس کے جسم کے آر پار ہوئی تھی۔ بھل بھل کرتے بہتے خون پہ ہاتھ رکھ کر اس نے خون روکنے کی کوشش کی تھی۔”معید! معید! دیکھو اسے۔۔۔“ وہ حواس باختہ ہو کر اسے آوازیں دینے لگا تھا جو خطرے کے پیشِ نظر ہر طرف نگاہ رکھے ہوئے تھا۔ ایک پتا بھی گرتا تو بھی چوکنا ہو جاتا۔”شجاع آنکھیں کھولو۔“ لہیم جاہ نے خون سے بھرے ہاتھوں سے اس کا چہرہ تھپتھپا کر اسے ہوش میں رہنے کی التجا کی تھی۔ پھر ایک بھی لمحے کی دیر کیے بنا اپنا کوٹ اتار اس کے زخم پر رکھا تھا۔”شجاع! اٹھ میرے یار!“ لہیم جاہ نے بے جان پڑتے اس کے وجود کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اسے پتا ہی نہ چلا کب آنکھوں سے آنسو بہتے ہوئے چہرے کو بھگونے لگے تھے۔”اللہ! شجاع نہیں! اب اور نہیں!“ تکلیف کی انتہا پہ پہنچ کر، جب ہر سو تاریکی چھائی ہوئی تھی۔ مایوسی کے بادلوں نے اسے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا۔ اسے شدت سے رب العالمین کی یاد آئی تھی۔ اس لمحے اگر شجاع فرید اپنے حواس میں ہوتا تو شاید اس کے منھ سے یہ سن کر خوشی سے ہی مر جاتا۔”میں نے لوکیشن بھیج دی ہے فواد! مجھے یہاں ایمبولینس چاہیے۔ ایک لمحے کی تاخیر نہ ہو۔“ وہ فون جیب میں رکھتا لہیم کی طرف آیا تھا۔”خود کو سنبھالو لہیم! میں نے ایمبولینس بلائی۔۔“”ایمبولینس کے آنے کا انتظار نہیں کر سکتے ہم معید۔۔! یہ مر جائے گا۔“ لہیم اس کی بات کاٹتا درد سے چلایا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گولی شجاع فرید کے جسم میں نہیں، خود اس کے وجود کے پرخچے اڑا گئی تھی۔ عین اسی وقت جیکسن ہانپتا بھاگتا ہوا آیا تھا۔”سر! وہاں وہ لڑکی۔۔۔“ اور شجاع فرید کو خون میں لت پت پڑے دیکھ کر ٹھٹھک کر رک گیا تھا۔ لوگن اس کے ہاتھ سے رسی چھڑاتا، شجاع فرید کے قریب ہوا اور رو دینے کے سے انداز میں غراتا ہوا اس کے گرد چکر کاٹنے لگا تھا۔”لڑکی؟“ عبدالمعید نے جیکسن کی طرف دیکھا جس نے ہاتھ سے اندر کی طرف اشارہ کیا تھا۔”ہمیں ابھی اسی وقت شجاع کو لے جانا ہو گا۔ ایمبولینس کے آنے تک بہت دیر ہو جائے گی۔“ لہیم جاہ نے جیسے کچھ سنا ہی نہیں تھا۔ وہیں کھڑے ہوئے، آن کی آن میں عبدالمعید نے فیصلہ کیا تھا۔”لہیم! تم لوگن کے ساتھ اندر جاؤ۔ اس لڑکی کو دیکھو۔“ اس نے لوگن کی رسی اس کے ہاتھ میں دی اور اس کا بازو پکڑ کر اسے کھڑا ہونے کو کہا تھا۔”میں شجاع کو چھوڑ کر۔۔۔“ وہ سچ مچ اپنے حواس میں نہیں تھا۔ تبھی تو اس لڑکی کے ذکر پہ بھی ٹس سے مس نہیں ہوا تھا ”ہمارے پاس وقت نہیں ہے لہیم! شجاع کو میں اور جیکسن تمھارے فارم ہاؤس پہ لے جائیں گے اور تم ایمبولینس میں تابعہ کو لے آنا۔“ عبدالمعید نے اب کی بار اس کا نام لیا تھا۔ لہیم جاہ کے دل کی دھڑکن ایک بار پھر تھم گئی تھی۔ ”دیر مت کرو لہیم! شجاع کا خون بہت بہ گیا ہے۔“ فرش پر بنے خون کے دریا پہ نظر ڈالتے ہوئے اس نے التجا کی تھی۔”اس کی سانس مدھم ہو رہی ہے۔ پلیز لہیم! خود کو سنبھالو!“ اب کی بار اس نے لہیم کا کندھا زور سے ہلایا تھا۔ اس نے آنکھیں اٹھا کر عبدالمعید کو دیکھا، حزن و ملال سے لبریز آنکھیں۔۔۔ جیسے کسی کی متاعِ عزیز لٹ گئی ہو۔”میں اور جیکسن شجاع کو لے کر جاتے ہیں۔“