”کیسی ہیں نانو؟“ شہرین نے ڈرتے ڈرتے فون ملا ہی لیا تھا۔”نانو۔۔۔؟ کون شہرین!!“ پہلے مرحلے میں پہچان کا مرحلہ حل ہوا تو دوسرے میں شناخت ہوئی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ تہمینہ حقانی شام کے وقت اگر گھر پہ موجود رہتیں تو اپنے کمرے میں ہی ہوا کرتی تھیں۔ اس لیے فون بھی انھوں نے خود ہی اُٹھایا تھا۔”کہاں تھی تم شہرین۔۔؟ کدھر چلی گئی تھی؟ گھر چھوڑ کر جانے سے پہلے مجھے ایک بار بتانا بھی ضروری نہیں سمجھا۔“ انھوں نے سلام کا جواب دینا بھی ضروری نہ سمجھا تھا۔”حالات ہی ایسے ہو گئے تھے نانو کہ۔۔۔“ وہ پہلے دن سے ہی ان کے غصے سے خائف رہتی تھی۔ اب بھی جو وہ غصے میں بولیں تو لاکھ ضبط کے باوجود بولتے ہوئے آواز کانپ گئی تھی۔”کیا ہوا تھا حالات کو شہرین کہ تمھیں گھر ہی سے جانا پڑ گیا تھا؟“ وہ کچھ سننا نہیں چاہتی تھیں۔ ”بلکہ خود تو گئی ہی گئی، اپنے ساتھ زینت کو بھی راہ لگا گئی۔“ انھوں نے باتوں ہی میں زینت کا تذکرہ چھیڑا تو جیسے اس کے خیالوں کو زبان مل گئی تھی۔”زینت کو کیا ہوا نانو؟“ وہ بے چین ہو کر پوچھ بیٹھی اور یہ پوچھنا مزید غضب ڈھا گیا تھا۔”لو کر لو بات! نانی کی فکر نہیں ہے کہ وہ تمھارے جانے کے بعد کس پریشانی سے گزری ہو گی۔ ایک ملازمہ کا بہت خیال ستا رہا ہے۔“ وہ طیش کے عالم میں بولتی چلی گئیں اور اس کے پورے خاندان کو بیچ میں رگید دیا تھا۔”قصور تمھارا نہیں ہے۔ تمھاری اس مڈل کلاس سوچ کا ہے جو پیدائش سے لے کر موت تک تم لوگوں کے دماغ سے چپکی رہتی ہے۔ نجانے شہر بانو نے تم لوگوں کے ساتھ کیسے گزارا کیا ہو گا؟؟“ انھوں نے یہ سب کہا تو اسے اپنی ماں یاد آئی تھی۔ وہ اپنے شوہر کے چھوٹے سے گھر کے آنگن میں، تائی امی اور بڑی امی کے ساتھ ایسے شیر و شکر ہوئی تھیں جیسے انھیں کا حصہ ہوں۔ وہی سوچ وہی رنگ ڈھنگ اور وہی رہن سہن جو اس گھر کی باقی عورتوں کا تھا۔ ”کاش ان گزرے سالوں میں آپ نے اپنی بیٹی کی خبر گیری کی ہوتی، ان کی زندگی میں ان سے ملتی رہتیں تو آپ کو پتا چلتا کہ وہ بھی میرے جیسی مڈل کلاس سوچ رکھتی تھیں بلکہ میں تو ان کا ہی عکس ہوں، شکل و صورت میں بھی اور عادات و اطوار میں بھی۔۔۔“ اب کی بار اس سے چپ نہ رہا گیا تھا تاہم وہ بالکل چپ سی ہوئی تھیں۔”جب آپ نے امی کو ان کی زندگی میں میکے کا مان نہیں دیا تو ان کی اولاد کو ننھیال سے جوڑے کیوں رکھنا چاہتی ہیں نانو! جب اس کا خیال نہیں رکھ سکتیں۔۔؟؟“ اس کی یہ بات تازیانے کی طرح انھیں لگی تھی۔”میں نے اسے میکے کا مان کیوں نہیں دیا یہ تمھیں اپنی ماں سے وقت رہتے پوچھ لینا چاہیے تھا۔“ انھوں نے درشتی سے کہا تھا۔”مجھ سے غلطی ہوئی کہ اس سے اس کی زندگی میں دوبارہ نہیں ملی ورنہ پوچھتی؛ کہ اس نے یہ تربیت کی ہے اپنی اولاد کی کہ نوکروں کے لیے نانی کے منھ کو آ رہی ہے؟؟؟“ اس کا جی چاہا شرم سے ڈوب جائے کہ اس کی جنت مکانی ماں کی تربیت پہ حرف آ رہا تھا۔”اور تمھارے باپ سے بھی پوچھتی کہ۔۔۔“ اس نے فوراً ان کی بات کاٹی تھی۔”مجھے معاف کر دیں نانو!“ مزید سننے کا اس میں یارا نہیں تھا۔”میں آپ سے بدتمیزی نہیں کرنا چاہتی تھی۔“ اس نے معافی مانگی تو ان کا غصے کا گراف کچھ نیچے آیا تھا اور اس کی اٹکی سانس بھی بحال ہوئی تھی۔”