شجاع فرید کو ہوش آ گیا تھا تاہم اس کی حالت ابھی بھی ٹھیک نہیں تھی۔ ڈاکٹرز اب بھی کچھ خاص پر امید نہیں تھے اور یہی چیز لہیم جاہ کے حوصلے پست کر رہی تھی۔ دوسری طرف تابعہ کی طویل بے ہوشی سے الگ جان اٹکی ہوئی تھی۔”اسے ہوش کیوں نہیں آ رہا ڈاکٹر؟“ وہ ایک نظر اسے دیکھ کر آیا اور پھر سے ڈاکٹر کے سر ہوا تھا۔ کل دوپہر سے آج شام ہونے کو آئی تھی۔ نہ اسے ہوش آیا تھا نہ وہ وہاں سے کہیں گیا ہی تھا۔ عبدالمعید کو اس نے ہی دفتر جانے کا کہا تھا اور خود ادھر ہی ٹھہرا ہوا تھا۔ اس کے لیے تو وقت کی سوئیاں وہیں اس مقام پر آ کر ٹھہر سی گئی تھیں۔”میں نے آپ کو بتایا تھا سر کہ بہت طاقت ور ڈرگز کافی زیادہ مقدار میں انھیں۔۔۔“”میں یہ سب باتیں کل سے سن سن کر تنگ آ چکا ہوں ڈاکٹر!“ اس نے ہاتھ اٹھا کر تلخ لہجے میں کہتے ڈاکٹر کی بات کاٹی تھی۔”ڈرگز کی آڑ میں کہیں آپ اپنی نااہلی پہ پردہ تو نہیں ڈال رہے؟“ ڈاکٹر کا منھ یہ سن کر کھلا کا کھلا رہ گیا تھا۔ وہ بے چارا کچھ کہنے کی حالت میں بھی نہیں رہا تھا۔”اگر دو گھنٹے کے اندر اندر اسے ہوش نہ آیا تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہو گا۔“ اس نے انگلی اٹھا کر اسے تنبیہ کی تھی۔ ڈاکٹر کو اور کچھ نہ سوجھا تو گھبرا کر جھٹ سے سر ہلایا تھا۔”میں اپنی پوری کوشش کر رہا ہوں سر! باقی جو اللہ کی مرضی۔۔۔“ اس جملے نے پھر سے آگ بھڑکا دی تھی۔”میں کَہ رہا ہوں کہ۔۔۔“ نزدیک تھا کہ وہ آگے بڑھ کر اس ڈاکٹر کو کچھ کر دیتا، عبدالمعید عین وقت پر وہاں پہنچا اور اس کا بازو تھام کر بولا تھا:”کیا ہو گیا ہے تمھیں لہیم؟ ہوش کدھر ہیں تمھارے؟“ ڈاکٹر کی رکی ہوئی سانس بحال ہوئی تھی۔ عبدالمعید اسے ہاتھ کے اشارے سے بیٹھنے کا کہتے لہیم کو لیے وہاں سے نکلا تھا۔ اور جب تک ساؤنڈ پروف کمرے میں نہیں آ گیا اس نے لہیم کا بازو نہیں چھوڑا تھا۔”کیا ہو کیا رہا ہے تمھارے ساتھ؟ کرنا کیا چاہتے ہو؟“ دروازہ بند کرتے، اس کا بازو چھوڑ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتے پوچھا تھا۔”میں اسے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“ آنکھوں میں خون اتر آیا تھا۔ عبدالمعید نے ایک ہاتھ سے اس کا بازو پکڑا اور دوسرا اس کے سینے پر رکھ کر اسے شانت کرنے کی کوشش کی تھی۔”اس نے سوچا بھی کیسے کہ وہ لہیم جاہ کی عزیز ترین چیزوں کو نقصان پہنچائے گا اور لہیم جاہ خاموشی سے سب برداشت کرتا رہے گا؟“ وہ بپھرے ہوئے شیر کی طرح دھاڑا تھا۔ پہلے شہاب کا مرنا اور اب اندر بیڈ پر لیٹی، ہوش و حواس سے بے گانہ وہ لڑکی۔۔۔”کیا ہے وہ لڑکی لہیم؟ کیا حیثیت ہے اس کی تمھارے نزدیک؟“ عبدالمعید آج یہ سب کھل کر سامنے لانا چاہتا تھا۔”محبت کرتے ہو اس سے؟“ اس کی بات پر وہ اسے دیکھ کر رہ گیا۔ عبدالمعید نے اسے چھوڑا تو وہ قدرے پرسکون ہو کر پیچھے ہوا اور اس کی بات سننے لگا تھا۔”نہیں! یہ محبت وحبت سب دماغ کے خلل ہیں۔ ہاں لیکن مجھے وہ عزیز ہے۔ اس سے بات کرنا اس کے ساتھ چند لمحے گزارنا مجھے اچھا لگتا تھا۔“ وہ بیتے لمحوں کو یاد کرتا کہیں اور ہی جانے لگا تھا لیکن عبدالمعید کی تلخ آواز اسے حال میں کھینچ لائی تھی۔”کیسی عزیز ہے کتنی عزیز ہے؟ جیسے تمھیں شہاب عزیز تھا؟ یا جیسے تم لوگن کو عزیز سمجھتے ہو؟ یا جیسے تمھارے گھر میں رکھے شو پیسز، یا تمھاری الماریوں میں سجی تمھاری کتابیں، جنھیں عزیز رکھتے ہو؟“ وہ آج اس کا کسی قسم کا لحاظ کرنے کے موڈ میں نہیں لگ رہا تھا۔”کیا مطلب ہے تمھارا؟“ ابرو اٹھا کر، تیکھے لہجے میں استفسار کیا تھا۔”تم بچے نہیں ہو لہیم! جو میرا مطلب نہ سمجھو! محبت تمھیں کسی سے نہیں ہے ہاں مگر تمھیں عزیز تو اپنی ہر چیز ہے، تمھارا کتا لوگن، تمھارے گھوڑے اور تمھارے وفادار نوکر؛ ہاں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کتے اور گھوڑے انسانی جذبات سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور نوکروں سے دل کی باتیں نہیں کی جا سکتیں تو انھیں سب عزیز چیزوں کی فہرست میں تم نے اس لڑکی کو بھی لاکھڑا کیا؛ کہ اس سے بات کر سکتے ہو۔ وہ جذبات سمجھ سکتی تھی۔“ عبدالمعید نے اپنے غصے پر قابو پانے کی بھی کوشش نہیں کی تھی جیسے وہ ہر بار اس کی تنہائی کے پیشِ نظر کر لیتا تھا۔”تمھاری اس ساری بکواس کا مطلب کیا ہے عبدالمعید!“ لہیم نے اسے گھورا تھا۔اس بکواس کا مطلب یہی ہے کہ مجھ پر اس لڑکی کے مقام کا تعین واضح کرو کہ وہ تمھاری زندگی میں لوگن یا شہاب کے ساتھ کس درجے پر آتی ہے؟“