” آپ یہ تو واضح کریں کہ آخر آپ کرنا کیا چاہتے ہیں؟ “واصب پندرہ منٹ سے ایک نجی اسکول کے باہر گاڑی کھڑی کیے بیٹھا تھا۔ انجن بند تھا اور وہ تسلی سے موبائل پہ خبریں دیکھنے میں مگن، گویا اس سے بڑھ کر ضروری کوئی کام ہی نہیں تھا۔ اس کی خاموشی سے اکتا کر قیام نے پوچھا تھا۔” کیا تم انتظار کا مزہ نہیں لینا چاہتے؟ “اس نے ذرا کی ذرا سکرین سے نگاہیں اٹھا کر اسے دیکھا اور دوبارہ سکرین کی طرف متوجہ ہوا تھا۔” نہیں! مجھے انتظار پسند نہیں ہے۔“” ایسا ہے تو بختاور کا انتظار کیوں کر کر سکو گے؟ “اس کے سوال پر کچھ لمحوں کے لیے وہ بول نہیں پایا تھا۔” وہ معاملہ الگ ہے۔ “کچھ دیر کی خاموشی کے بعد اس نے کہا تو واصب اس کی بات کر ہنس دیا تھا۔” ہر معاملہ ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے قیام! یوں سمجھو یہ تمھارے ضبط کا امتحان ہو رہا ہے۔ محبت کی راہ پر چلنا ہے تو صبر اور انتطار کے گھونٹ تو پینے ہی پڑیں گے۔“ وہ ایک مدبر دانش ور کی طرح اسے سمجھاتے ہوئے بولا تھا۔ تبھی اس نے سکول کے مرکزی دروازے سے کچھ خواتین کو نکلتے دیکھا تو فوراً سیدھا ہوا اور سر پہ رکھی پی کیپ درست کی، ایسے کہ اس کا چہرہ آدھا چھپ گیا تھا ایسا ہی حکم اس نے قیام کو بھی دیا تھا۔” اب یہ سب ضروری ہے کیا؟ “وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوا تاہم سر پہ رکھی پی کیپ بھی درست کی تھی۔” کسی جاسوسی فلم کے جاسوس جیسے خیالات آ رہے ہیں۔ “واصب کا دھیان اس کی باتوں کے بجائے باہر سڑک پہ تھا جہاں اس نے مطیبہ اور شہرین کو ایک رکشے پہ بیٹھا دیکھ کر گاڑی شروع کی تھی۔” یہ ہم کیا ان دونوں لڑکیوں کا پیچھا کرنے والے ہیں؟ “اس نے واصب کو گاڑی رکشے کے پیچھے لگاتے دیکھ کر بدک کر پوچھا تھا۔” ہاں! “اسٹیئرنگ وہیل پہ مضبوطی سے ہاتھ جمائے اس نے محض ہاں میں جواب دیا تھا۔” لیکن کیوں؟ اور میں نے یہ سب کرنے کے لیے آپ کا ساتھ دینے کی ہامی نہیں بھری تھی۔“ جواب میں واصب نے اسے فہمائشی نظروں سے دیکھا اور پھر سے اس کی بے وقوفی پر ہنس کر بولا:” تم نے ہر حال میں میرا ساتھ دینے کا وعدہ کیا تھا۔ محبتوں کا حصول اتنا آسان ہوتا تو میں تمھارے ساتھ یہاں نہ ہوتا۔“ اس کی بات پر وہ چونک کر سیدھا ہوا۔” یعنی آپ بھی اسی محبت کے شکار ہیں؟ “کچھ دور کھڑے رکشے پر بیٹھی دونوں لڑکیوں کو دل چسپی سے دیکھ کر بولا تھا۔” شکار نہیں شکاری ہوں۔۔۔ “وہ زیرِ لب بڑبڑایا تھا۔” ان میں سے کون سی والی ہے؟ “دونوں میں سے ایک لڑکی سیاہ چادر جب کہ دوسری سفید چادر اوڑھے ہوئے تھی۔ دونوں ہی کے چہرے نقاب سے ڈھکے ہوئے تھے اور دونوں ہی ایک دوسرے سے ان جان بنی دائیں بائیں دیکھتیں محو سفر تھیں۔” دونوں ہی سمجھو۔۔۔ “وہ پھر بڑبڑایا تھا۔ اب کی بار قیام نے قدرے ناگواری سے اسے دیکھ کر کہا تھا:” کہیں سے بھی نہیں لگتا کہ آپ بختاور کے بھائی ہیں۔ “واصب کے ماتھے پہ شکن آئی تھی۔ ”بختاور جتنی سادہ اور بے وقوف ہے آپ اتنے ہی پیچیدہ اور شاطر ہیں۔“ وہ جتنا اپنی تعریف سننے کا خوگر تھا قیام ہارون اتنا ہی اس کی ذات کی خامیاں اجاگر کر رہا تھا۔” مجھے ایسا کیوں لگ رہا ہے کہ تمھیں میری مدد نہیں چاہیے؟ “” آپ بھول رہے ہیں کہ مجھے آپ کی مدد نہیں بلکہ آپ کو میری مدد درکار ہے۔ “قیام نے اس کی تصحیح کرنا ضروری سمجھا تھا۔” میں اپنے کام تمھاری مدد کے بغیر بھی کر سکتا ہوں مگر تم میرے بغیر بختاور کو حاصل نہیں کر سکتے۔ “وہ اپنی ازلی کمینگی پر اترا تھا۔” تم یہ مت بھولو کہ اگر میں بگڑا تو تمھاری محبت آپ اپنی موت مر جائے گی۔ “تکبر اور نخوت سے کہتا وہ خود بھی یہ بھول رہا تھا کہ اس کے گمان سے پرے ایک ذات ایسی ہے جو اسے ہی مارنے پر قادر ہے۔ انسان بھی کتنا نادان ہے۔ اپنی رعونت میں مطلق العنان بنا پھرتا ہے۔ رب تعالیٰ کی مخلوق کو تکلیف دینے میں مزہ محسوس کرتا ہے اور اس بات سے بے پروا کہ جس رب نے اس کی رسی دراز کی ہوئی ہے وہ ایک جھٹکے سے رسی کھینچ بھی سکتا ہے۔ واصب کا حال بھی کچھ ایسا ہی تھا۔ رکشے میں بیٹھی ان دو لڑکیوں کا پیچھا کرتا، اس نے سوچ رکھا تھا جو اسے کرنا تھا لیکن قیام کو اس نے اپنے ارادوں کی بھنک بھی نہیں پڑنے دی تھی۔(کیا میں بختاور کو حاصل کرنا چاہتا ہوں؟) جب کہ دوسری طرف اس کی بات نے قیام کو دوسری ہی نہج پہ سوچنے پر مجبور کیا تھا۔محبت کا کسی کے دل میں اک ارمان پیدا کرخدایا اس سے ملنے کا کوئی سامان پیدا کررموز عاشقی تو ساتویں منزل ہے درماں کیابھی تو ابجد معنی سے تو پہچان پیدا کر(عبد المجید خواجہ شیدا)(حاصل کرنا۔۔ کیا وہ میری ضد بن چکی ہے؟) وہ ایک نئے انداز سے سوچنے بیٹھا تھا۔” کیا ہوا؟ “واصب نے گاڑی ایک گلی میں موڑتے ہوئے اسے خاموش پا کر سوال کیا تھا۔” آپ یہ سب کس کے لیے کر رہے ہیں؟ “اس کا اشارہ ان دو لڑکیوں کی طرف تھا۔” وہ اس لڑکی کا گھر ہے۔ “گلی کے نکڑ پہ گاڑی کھڑی کرکے اس نے قیام کو وہ گھر دکھایا جہاں وہ داخل ہو رہی تھیں۔” وہ دونوں ہی اس گھر میں گئی ہیں۔ آپ کس کی بات کر رہے ہیں؟“ قیام اس کے بلا وجہ کے پھیلائے گئے تجسس سے زچ ہوا تھا۔” وہ میں تمھیں بعد میں بتاؤں گا۔ “واصب کو اس کے غصے و جھنجھلاہٹ کی بالکل پروا نہ تھی۔” بس کچھ دن ان پہ نظر رکھنی ہے۔ “اس نے لہجے کو حتی المقدور سرسری ہی رکھا تاکہ اسے شبہ نہ ہو۔ وہ کچھ کہے بغیر گاڑی سے اترا اور اردگرد دیکھتا ہوا چند قدم دور دکان کی طرف گیا تھا۔” کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ ڈاکٹر افتخار کیانی کا کلینک کس گلی میں ہے؟ “دکان دار نے چند لمحے اسے دیکھا کچھ سوچا پھر بولا:” اس محلے میں آس پاس تو اس نام کا کوئی ڈاکٹر نہیں ہے۔ آپ شاید غلطی سے اس گلی میں آ گئے ہیں۔ آپ اس سے اگلی، پیٹرول پمپ والی گلی، میں پتا کریں۔“ وہ سر ہلا کر ”جی اچھا“ کہتا واپس آیا تھا۔” تمھیں ایسے باہر جانے کی کیا ضرورت تھی؟ “واصب نے غصے سے اسے دیکھا تھا۔” میں دیکھنے گیا تھا کہ سی سی ٹی وی کیمرے کہاں کہاں لگے ہیں؟ “” اب مجھے لوگوں سے پٹ کر خبروں کی زینت بننے کا شوق نہیں ہے۔ مبادا میں ان پہ نظر رکھوں اور وہ مجھے پہچان کر پٹوا دیں۔ نہ بھئی! یہ مجھے منظور نہیں ہے۔“ اس نے ہاتھ اٹھا کر جان بوجھ کر قدرے شوخ لہجے میں کہا تو واصب دل ہی دل میں اس سے مدد لینے کے اپنے فیصلے کو کوسنے کا سوچنے لگ تھا۔” میں جانتا ہوں کہ ان پہ نظر رکھنی ہے اور نظر میں بھی نہیں آنا ہے۔ “اب چہرے پہ بلا کی سنجیدگی تھی۔” میں جانتا تھا کہ تم بہت جلدی سمجھ جاؤ گے۔ “واصب نے تعریف کرکے اسے مزید رام کرنے کی کوشش کی تھی۔” میں باقی سب بھی بہت جلدی سمجھ جاؤں گا۔ مجھے بس یہاں یونی ورسٹی کے سامنے اتار دیں۔“ یونی ورسٹی کا گیٹ نظر آیا تو کہتے ساتھ ہی وہ گاڑی سے اترا تھا۔ واصب کتنی ہی دیر وہیں ٹھہر کر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرتا رہا کہ آیا اس نے قیام ہارون کو اپنے ساتھ ملا کر کوئی غلطی تو نہیں کی؟” واصب حقانی کچھ بھی کر سکتا ہوں مگر غلطی نہیں کر سکتا۔ “اس کے الفاظ میں خود کے لیے داد و تفاخر کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ پر یہ کون جانتا تھا کہ ڈھیل جتنی بھی دی جائے آخر ایک نہ ایک دن رسی کھینچ ہی لی جاتی ہے اور ڈھیل جتنی زیادہ ہو گی شکنجہ اتنا ہی سخت ہو گا۔ اتنا سخت کہ تب نہ کوئی راہ فرار ملے گی نہ چھٹکارے کی کوئی صورت نظر آئے گی۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
اس کی آنکھ کھلی تو اس نے خود کو لوہے کی کرسی سے بندھا پایا تھا۔ دونوں پاؤں کرسی کی ٹانگوں کے ساتھ نائلون کی باریک ڈوری نما رسی سے مضبوطی سے بندھے ہوئے تھے۔ دونوں ہاتھ پشت پہ تھے اور انھیں اسی قسم کے رسی سے اس طرح باندھا گیا تھا کہ جیسے ہی وہ ہاتھوں کو کھولنے کی غرض سے جھٹکا دیتا تو گردن کے گرد سے گزرتی وہ رسی گردن کی رگوں میں چبھ کر گلا دبانے لگتی تھی۔ دو چار بار پیروں کو جھٹکنے اور ہاتھوں کو کھولنے کی کوشش میں ناکام ہونے اور گردن میں اٹھتی ٹیسوں کے باعث اس نے ایک گہری سانس خارج کی اور اردگرد کس جائزہ لینا شروع کیا تھا۔ کمرے کا حدود اربعہ کچھ زیادہ بڑا نہیں تھا۔ شمالی دیوار کی جانب، وسط میں اس کی کرسی تھی۔ چاروں طرف خالی دیواریں بس ایک دروازہ اور عین اوپر ایک چھوٹا سا مربع نما روشن دان تھا۔ جس کے ٹوٹے شیشے سے آتی ہوا اور خاموشی اس بات کی غماز تھی کہ رات ابھی باقی تھی۔” تو کیا تم میں ابھی اور بھی اسرار ایسے ہیں جو مجھ پر آشکار نہیں ہوئے تھے۔ “کمرے کا جائزہ لینے کے بعد اس نے سوچا تھا۔کیا وہاں کوئی دل و جاں کا طلب گار نہیںجا کے ہم کوچۂ قاتل میں پکار آتے ہیںخود کبھی موج و تلاطم سے نہ نکلے باہرپار جو سارے زمانے کو اتار آتے ہیں(علی سردار جعفری)” یا کہیں میں نے تمھیں سمجھنے میں غلطی کر دی؟ “لاشعوری طور پر ایک بار پھر خود کو آزاد کروانے کی کوشش میں ہاتھوں کو ہلایا اور خود ہی آہ بھر کر رہ گیا تھا۔” حد سے زیادہ خود اعتمادی نقصان کا سبب بنتی ہے۔ “زمان کریم کی آواز آس پاس ہی سنائی دی تھی۔” دشمن کو کبھی بھی کم زور نہیں سمجھنا چاہیے۔ “وہ اس پریشان کن صورت حال میں بھی ہنس دیا تھا۔” خود اعتمادی کہیے یا خود اذیتی۔۔۔ زندگی یہی کچھ ہے۔ “اس نے سر پیچھے کو گرایا لیکن گردن میں بندھی رسی نے فوراً ہی سیدھا کرنے پر مجبور کیا تھا۔” خود کو چھڑانے کی ساری کوششیں ناکام رہ جائیں گی ضربان کرمانی! “ لہیم جاہ کی بھاری اور سنجیدہ آواز سناٹے کا سینہ چیر گئی تھی۔ وہ مسکرایا تھا۔ سر یا نظریں گھما کر ادھر ادھر دیکھنے کی سعی نہیں کی تھی۔ آواز کے ماخذ کو تلاش کرنا چاہا تھا۔ وہ یقیناً سامنے لگے کیمرے سے اسے دیکھتا کہیں دوسری جگہ سے گویا ہوا تھا۔” مجھے گھبرایا ہوا، ڈرا سہما ہوا یا گڑگڑا کر رحم کی بھیک مانگتا ہوا دیکھنے کی تمھاری حسرت، حسرت ہی رہے گی لہیم جاہ! “” بالکل ایسے ہی جیسے تم مجھے شکست خوردہ اور منتشر وجود لیے بکھرا ہوا دیکھنے کی چاہ میں یہاں تک چلے آئے تھے؟ “اس کی پر سوچ آواز گونجی تھی۔” تمنا تو تمھاری بھی حسرت میں بدل گئی۔ “؎ عمر اتنی تو عطا کر میرے فن کو خالقمیرا دشمن میرے مرنے کی خبر کو ترسے(محسن نقوی)” میں تو اپنی ساری کشتیاں جلا کر تمھارے پاس آیا ہوں اور آنے سے پہلے تمھاری بھی لنکا جلا کر خاکستر کر آیا تھا۔ “ضربان کرمانی کا لہجہ فتح کی سرشاری سے معمور اور اپنے عمل پہ شاد مانی کا احساس لیے ہوئے تھا۔” لنکا جلانے کی کوشش میں تم نے میری دنیا بنا دی۔ “لہیم جاہ کی بات نے اسے چونکنے پر مجبور کیا تھا۔” میں تمھیں ڈھونڈ کر تمھارا شکر ادا کرنا ہی چاہتا تھا کہ تم خود بہ نفس نفیس چلے آئے۔ “اس کے چہرے پر ناقابلِ فہم سے تاثرات ابھرے تھے۔ ” نہ کہیں دھواں اٹھا تھا نہ کہیں آگ لگی تھی۔ “ زمان کریم نے کہا تھا۔” ایسا کیوں کر ممکن تھا؟ “اس نے سوچا تھا۔” نہیں! یہ سب لہیم جاہ کی ایک چال ہے۔ وہ خود کو مضبوط ظاہر کر کے صرف مجھے کم زور ثابت کرنا چاہتا ہے۔“ ذہن میں در آنے والے ممکنہ خیال نے اسے پھر سے پر اعتماد کیا تھا۔” تم جانتے ہو ضربان کرمانی! تم میں اور تمھاری بہن میں کیا چیز مشترک ہے؟“ لہیم جاہ کی آواز نے پھر خاموشی کی دبیز تہ کو چیرا تھا۔ جب کہ وہ راجعہ کرمانی کے ذکر پہ خلا میں گھور کر رہ گیا تھا۔” تم دونوں ہی ہر چیز کے نتائج خود سے اخذ کرکے خود ہی سزا و جزا کے منصف بن جاتے ہو۔ تمھاری بہن نے بھی محبت کو انتہا سمجھا اور خود کو سزا دے دی اور تم نے بھی نفرت کو انتہا سمجھ کر میری آڑ میں خود کو سزا دی۔“ وہ اس کی ن باتوں سے کوئی بھی معنی اخذ کرنے سے قاصر تھا۔” منصف بھی تم، عدالت بھی تمھاری، فیصلہ بھی تمھارا لیکن۔۔۔ “ ” لیکن۔۔۔؟؟ “اس کی ادھوری بات نے ذہن الجھایا تھا۔ ” لیکن نتائج تمھاری مرضی کے مطابق نہیں آئے۔ “ لہیم جاہ نے کہا تو وہ سوچنے پر مجبور ہوا:” کیا شجاع فرید بچ گیا؟ کیا وہ لڑکی ٹھیک ہے؟“” شجاع فرید بھی بچ گیا اور وہ لڑکی بھی زندہ ہے۔ “اس نے دروازہ کھلنے کی آواز سنی تھی۔” جسے خدا رکھے، اسے کون چکھے “لہیم جاہ اپنے مخصوص سیاہ لباس میں کروفر سے چلتا اندر داخل ہوا اور اس کے سامنے آ کھڑا ہوا تھا۔” یہ میرے کان کیا سن رہے ہیں؟ “ضربان کرمانی عین اسی لمحے حیران ہونے کی اداکاری کرتا خود لہیم جاہ کو بھی اچنبھے میں مبتلا کر گیا تھا۔” خدا کو نہ ماننے والا خود خدا کا نام لے رہا ہے۔ “اس کے جملے کی کاٹ لہیم جاہ کو بڑی اندر تک کاٹ گئی تھی۔” کیا وہ جانے ان جانے میں واقعی خدا کا نام لے بیٹھا تھا؟ “اس کے وجود میں ہل چل مچی تھی۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭
رات آدھی سے زیادہ بیت چکی تھی اور نیند تھی کہ اس سے یوں روٹھی تھی جیسے کسی غریب سے خوش حالی۔۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر لیمپ بند کیا کہ شاید اندھیرے میں نیند آ جائے۔ روشنی گل ہوتے ہی کمرے کی سیاہی مزید عیاں ہوئی تھی۔ وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ بیٹھی تھی۔ اسی ہڑبڑی میں اس کے پاؤں کے زخم دکھے تھے۔” سی۔۔ “کی سی آواز اس کے حلق سے نکلی اور کمرے کی کشادہ فضا کی تنہائیوں میں کہیں کھو سی گئی تھی۔” آپ نے ایسا سوچ بھی کیسے لیا بابا جان؟ “پاؤں کے زخم کو سہلا کر قدرے سکون میسر آیا تو دوبارہ لیمپ کا بٹن دبایا تھا۔ لیمپ کی روشنی زیادہ نہیں تھی تاہم ملگجی سی وہ روشنی اندھیرا کم کرنے میں کافی حد تک معاون ثابت ہوئی تھی۔ اسے یاد آیا کہ کیسے اس کی تکلیف میں بابا جان اس کا خیال رکھا کرتے تھے۔ جب کبھی وہ بیمار پڑتی تو وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر اس کے کمرے کا چکر لگایا کرتے تھے اور اس وقت جب کہ اسے سب سے زیادہ ان کی ضرورت تھی تو وہی اس سے کنارہ کش ہو گئے تھے۔” میری ساری زندگی کھلی کتاب کی مانند آپ کے سامنے رہی بابا جان اور آپ نے ایک ہی لمحے میں مجھے خود سے الگ کر دیا۔ “عماد کی باتیں اور بابا جان کا رویہ سوچنے بیٹھی تو رہ رہ کر سارے غم نئے سرے سے اجاگر ہوئے تھے۔ آنکھیں پھر ساون بھادوں کی طرح برسی تھیں۔عمر رفتہ کی کہانی کیا ہےایک تہمت ہے جوانی کیا ہےرات روتے ہوئے گزرے گی ضرورورنہ یہ دل پہ گرانی کیا ہےدشمن زیست پہ جاں دیتا ہوںاور جینے کی نشانی کیا ہے(احسان دانش)رات کے گہرے سکوت میں اس کی سسکیاں دور تک گونج اٹھی تھیں لیکن وہاں کوئی نہیں تھا جو اس کی پکار سنتا۔” میں نے تو تکلیف اور بےبسی کے اس عالم میں بھی اللہ کے بعد آپ کو ہی یاد کیا تھا۔ مجھے لگا تھا کہ آپ کسی نہ کسی طرح مجھے بچا لیں گے۔ مجھے یہ نہیں پتا تھا کہ آپ تو مجھے جیتے جی مار دیں گے۔“ چہرہ دونوں ہاتھوں میں چھپائے وہ بلک اٹھی تھی۔ اسی اثنا میں چہرے پہ موجود زخم کو انگلیوں کی پوروں سے محسوس کرتے اسے احساس ہوا کہ باپ کی جدائی کے زخم کے ساتھ اب یہ زخم بھی ساری عمر ساتھ رہنا تھا۔ وہ وقت یاد آیا تو ان لمحوں کی اذیت بھی پوری جزئیات کے ساتھ یاد آئی تھی۔ اسے صرف وہ یاد تھا کہ کیسے سیاہ پوش نے اس کے پاؤں اور بازو جلائے تھے کیسے کیسے اسے زخم دیے تھے۔ اذیتوں کے مفہوم کئی اور بھی تھے لیکن ہوش و خرد کی دنیا سے بےگانہ ہوتے جو آخری بات اس کے ذہن میں تھی وہ چہرے پر چاقو سے دیا یہ زخم ہی تھا۔ اس کے بعد کی کوئی یاد اس کے حافظے میں محفوظ نہیں تھی۔ نہ اب تک اسے کسی نے بتایا ہی تھا کہ وہ کب کیسے اور کن حالات میں لہیم جاہ تک پہنچی تھی۔” لہیم جاہ۔۔ “ہونٹوں نے اس کا نام لیا تھا۔” میرے باپ نے مجھے خود سے الگ کر دیا اور آپ نے اپنا لیا۔ کیا کہوں میں اسے؟ ہمدردی، ترس؟ یا کیا؟“ شک کے سانپ پھن پھیلانے لگے تھے۔” مجھے انھیں اذیت دینے کے لیے اغوا کیا گیا تھا تو کیا انھوں نے مجھے اسی پچھتاوے کو مٹانے کے لیے مجھ سے شادی۔۔۔ “ایک تو تنہائی، اس پہ رات کے مہیب سائے اور گہری خاموشی، ایسے میں شک کے سانپ نے اسے پوری طرح ڈسا تھا۔” کیا پتا یہ آخری دن ہو کہ تم روشن دن اور کھلے آسمان کا نظارہ کر رہی ہو۔ “اسے لہیم جاہ کی کہی بات بڑے غلط وقت پر اور غلط تناظر کے ساتھ یاد آئی تھی۔” نن۔۔ نہیں! ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟“ اپنے شک کو جھٹلانے کی ہلکی سی کوشش کی تھی۔” مجھے یہاں نہیں رہنا۔ میں اپنے گھر جاؤں گی۔ کچھ بھی ہو بابا جان مان جائیں گے۔ وہ مجھ سے اتنے بھی خفا نہیں ہوں گے۔ میں نے کچھ بھی نہیں کیا تھا۔“ چہرے کو صاف کرتے، اس نے سرہانے کی طرف ہاتھ مارتے موبائل تلاش کرنے کی کوشش کی جو لہیم جاہ اسے پکڑا کر گیا تھا۔ فون پاس ہی تھا۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے تیزی سے روابط کھولے تو وہاں صرف دو نمبر محفوظ تھے۔ پہلا “My Husband” کے نام سے لہیم جاہ کا ، نام کے ساتھ دل کی ایموجی بھی تھی اور دوسرا عماد کا تھا۔ اس نے ایک پل کے توقف کے بعد عماد کا نمبر ملایا تھا۔ گھنٹی بجتی رہی، بجتی ہی رہی لیکن وہ شاید گہری نیند میں تھا یا اس کا فون خاموش موڈ پہ تھا کہ اس نے تین چار مرتبہ کال کرنے کے بعد بھی فون نہیں اٹھایا تھا۔” عماد! مجھے یہاں نہیں رہنا ہے۔ میں ایسے کسی شخص کے ساتھ کیسے رہ سکتی ہوں جو مجھ پر ترس کھا کر یا اپنے گناہ کا کفارہ سمجھ کر مجھے اپنائے؟ مجھے واپس گھر آنا ہے۔ عماد! کل مجھے گھر لینے آ جاؤ پلیز۔۔“ اس نے پیغام بھیجا تھا اور ایک موہوم سی امید کے تحت کہ شاید وہ فون اٹھا لے دوبارہ فون کیا تھا اور پھر مایوس ہو کر فون ایک طرف رکھا تھا۔ آخر تھک ہار کر پلنگ کے تخت سے ٹیک لگا کر بیٹھ رہی تھی۔ وہ اپنے حواس میں ہوتی یا سوچنے سمجھنے کی کیفیت بحال ہوتی تو اپنے اردگرد کا ماحول دیکھ کر سمجھ جاتی کہ ترس کھا کر کی جانے والی دلہن اتنی من چاہی نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اسے اپنی تنہائی کا رفیق بنا لے اور شخص بھی کیسا؟ لہیم جاہ جیسا، جس کے لیے اس کی تنہائی اور یہ کمرہ بہت معنی رکھتا تھا، لیکن بات تو ساری یہی تھی کہ وہ اس وقت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کھو بیٹھی تھی۔بات کوئی امید کی مجھ سے نہیں کہی گئیسو مرے خواب بھی گئے سو میری نیند بھی گئیدل کا تھا ایک مدعا جس نے تباہ کر دیادل میں تھی ایک ہی تو بات وہ جو فقط سہی گئی(جون ایلیا)” کیا پتا اب وہ جاگ گیا ہو؟ “یہ سوچ کر اس نے پھر عماد کا نمبر ملایا جواب پھر ندارد۔۔۔ وہ ایک بار پھر فون سکرین پہ اس کا نام دیکھتے مایوس ہوئی تھی وہیں باہر میز پر رکھا لہیم جاہ کا فون وائبریٹ ہو کر بند ہوا تھا۔٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭

