پیروں میں جوتوں کی بجائے گھر کی عام چپل پہنے وہ بھاگتا ہوا گھر کے مرکزی دروازے سے باہر تو باآسانی نکل گیا مگر اب برف پر بھاگتے ہوئے دقت کا سامنا تھا۔وہ پھر بھی بھاگ رہا تھا کیونکہ رک نہیں سکتا تھا۔رات اندھیری تھی اور اگر وہ تھم جاتا تو یہ اندھیرا ان لوگوں کی زندگیوں پر سکوت بےکراں کی مانند ٹہر جاتا سو وہ پوری جان لگا کر دوڑ رہا تھا۔اس کی رفتار تیز تھی،نظام تنفس بھی تیز ہو رہا تھا۔
“تم پر بھروسہ ہے اور تمہاری باتوں سے دل کو مزید تسلی بھی ہوئی ہے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اس کا خیال بہت اچھے سے رکھو گے مگر میرا دل ڈوب رہا ہے۔بار بار یہی سوچ آ رہی ہے کہ اگر احمر بھی گیم کھیل رہا ہوا اور اس نے اپنی جان دے دی تو پیچھے ہم تو ہاتھ ملتے رہ جائیں گے۔جوان اولاد کو قبر میں اتارنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔”بھاگتے ہوئے ایک آواز سماعتوں سے ٹکرائی۔اس کے قدم بھاری ہونے لگے۔
“تم پر بھروسہ ہے۔۔۔۔”
“تم پر بھروسہ ہے۔۔۔۔
“میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم اس کا خیال اچھے سے رکھو گے مگر میرا دل ڈوب رہا ہے۔۔۔”آواز سنتے ہوئے اس کا دل ڈوبنے لگا۔
“جوان اولاد کو قبر میں اتارنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔۔۔”آوازوں نے اس کے قدموں کو مزید طاقت بخشی مگر وہ تیز رفتاری کے باعث گر پڑا چونکہ برف زیادہ تھی اس لیے اس چپل میں بھاگنا تو دور چلنا بھی مشکل تھا۔
“جوان اولاد کو قبر میں اتارنے کا حوصلہ نہیں ہے مجھ میں۔۔۔”آواز گونجی اور سِنان اٹھا۔پیروں میں پہنی ہوئی چپل پھینکی اور برف پر بھاگنے لگا۔اس کے پیر ہنوز جم نہ پا رہے تھے مگر اسے رکنا نہیں تھا،اسے احمر کے پاس پہنچنا تھا۔
“انکل میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کی امانت کو اپنے ساتھ لے کر جاؤں گا تو خیانت نہیں کروں گا بلکہ صحیح سلامت آپ کو واپس کروں گا۔میرے ہوتے ہوئے احمر کے ایک بال کو بھی کوئی نہیں کاٹ سکتا پھر جان لینا تو دور کی بات ہے۔”پاؤں سن ہو رہے تھے مگر اپنے ہی کہے الفاظ دل کو چھلنی کر رہے تھے۔
“مجھے ہر صورت اپنا وعدہ نبھانا ہے۔۔۔انکل کو ان کے جوان بیٹے کی لاش نہیں سونپنی بلکہ جیسے اسے لایا تھا ویسے صحیح سلامت واپس سونپنا ہے۔”وہ دل میں خود کو باور کرا رہا تھا۔دوڑ مشکل تھی مگر جیتنی تھی۔
“میں امانت میں خیانت نہیں کر سکتا۔میں منافق نہیں ہوں۔۔”تیز تیز دوڑتے بالآخر چوٹی نظروں میں آئی اور اس پر کھڑا وجود بھی دکھائی دیا جو کسی بھی لمحے گہری کھائی کی نذر ہونے والا تھا۔
***
دایاں پیر ہوا میں لہرایا مگر خوفزدہ ہو کر یکدم پیچھے کر لیا۔اس میں یوں چھلانگ لگانے کی ہمت نہیں ہوئی تھی۔کچھ لمحات پھر سے یونہی صرف کیے پھر ہمت کر آگے بڑھا کہ کودنا تو تھا ہی۔
“یا اللہ مجھے معاف کر دینا۔سوری ماما،سوری پاپا،سوری آپی،سوری سِنان بھائی۔۔۔”ایک ہی سانس میں خالق و مخلوق سے معافی مانگ کر اس نے آنکھیں بند کیں اور اپنے ہاتھوں کو سیدھ میں کر اپنا اوپری دھڑ نیچے کو گرا دیا۔منہ کھلا مگر وزن سا محسوس ہوا۔اسے تو ہلکا ہو جانا چاہیے تھا مگر یہ کھنچاؤ سا کیوں محسوس ہو رہا تھا؟وہ سوچنے لگا مگر آنکھیں بند ہی رکھیں۔جب اوپر سے مزید کھنچاؤ کا احساس ہوا تو اس نے آنکھیں کھولیں اور نیچے نظر آتا منظر دیکھ چیخ اٹھا۔وہ لٹکا ہوا تھا اور نیچے کھائی دکھائی پڑ رہی تھی مگر وہ گرا کیوں نہیں؟یہ سوچ ذہن میں آئی پھر شرٹ پر کسی کی گرفت اور کھنچاؤ محسوس ہوا تو چہرہ پیچھے کی سمت موڑ کر دیکھا۔
“سِنان بھائی۔۔۔”بنا آواز کیے اس کے لبوں نے پکارا۔
“ہاں خر دماغ۔۔۔”سِنان نے اسے کھینچا اور اوپر اٹھا لیا۔وہ زیادہ وزنی بچہ نہیں تھا۔اس کے مقابلے سِنان ایک ہٹا کٹا پہلوان نما جوان تھا سو اس کیلیے احمر کو کھینچ کر اٹھانا کچھ مشکل نہ تھا۔
وہ اوپر آیا تو یقین نہ ہو سکا کہ موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لوٹ آیا ہے،وہ بھی صحیح سلامت۔چہرہ خوشی سے دمکنے لگا۔سِنان بھی مطمئن سا اسے دیکھے گیا۔گہری سانس خارج کر اللہ کا شکر ادا کیا کہ جس نے امانت کی حفاظت کرنے کی طاقت دی۔
اسی بیچ احمر کو اچانک کچھ یاد آیا اور وہ ڈر کر آگے بڑھنے لگا کہ سِنان نے اسے پیچھے سے پکڑ کر زور سے اپنی جانب کھینچا۔
“سِنان بھائی مجھے مرنے دیں پلیز۔۔۔پلیز مجھے مرنے دیں۔۔۔مجھے مت روکیں۔۔۔وہ لوگ میرے گھر والوں کو مار دیں گے۔۔۔”وہ اس کی گرفت میں جھٹپٹانے لگا اور کھائی کی سمت دوڑنے کیلیے مچلنے لگا۔
“خر دماغ اتنا مشکل سے بچا ہے پھر مرنا چاہتا ہے۔۔۔”وہ ذرا کرختگی سے گویا ہوا۔
“دونوں بہن بھائی ایک جیسا ہے۔۔۔”سِنان نے دل میں سوچا۔
“ہاں مرنا چاہتا ہوں تا کہ آپ سب لوگ بچ جائیں۔۔”وہ چلایا۔
“چپ۔۔۔”سِنان بھی چیخا اور رات کے سناٹے میں آواز گونجی کہ احمر سہم گیا۔وہ اب سیدھا چپ کھڑا تھا۔
“گیم بند ہو گیا ہے اب کوئی نہیں مرے گا،آئی سمجھ اور کوئی کسی کو نہیں مار سکتا سوائے اللہ کے۔بیوقوفوں جیسی حرکتیں کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے سب گھر والوں کا۔تمہیں کیا لگتا ہے تمہارے مرنے سے سب ٹھیک ہو جاتا؟”سِنان بول رہا تھا تبھی اچانک احمر اس کے سینے سے لگا اور سسکنے لگا۔
“تھینک یو سو مچ سِنان بھائی۔”وہ مدھم آواز میں شکر گزار ہوا۔
“کوئی بات نہیں میرے بچے۔۔۔”وہ بھی بات ادھوری چھوڑ اس کی پشت تھپکنے لگا۔
“آئی ایم سوری۔۔۔”معذرت کی گئی۔
“شکر ہے تم بچ گئے یہی کافی ہے اور کچھ نہیں چاہیے ہم میں سے کسی کو بھی۔”وہ پیار سے اسے پچکارنے لگا اور وہ اس کے ساتھ لگا کھڑا رہا۔
“چلو اب ہٹو بہت دیر ہو گئی ہے۔وہاں تمہاری بہن پریشان ہو گی۔گھر چلو جلدی۔”سِنان نے مصنوعی خفگی دکھا کر اسے دور ہٹایا اور پھر اس کے سر پر چپت لگائی کہ یہ اس وقت کی اہم ضرورت تھی۔
وہ کھسیانا ہو کر اس کے ساتھ چلنے لگا۔
“سِنان بھائی ایک بات پوچھوں؟”پیچھے چلتے ہوئے وہ ہچکچایا تو سِنان نے ایک تیز نگاہ اس کے سراپے پر ڈال،سر کے اشارے سے اجازت دی۔اسے اس پر غصہ آ رہا تھا جو کہ کچھ غلط بھی نہ تھا۔
احمر نے تھوک نگلا اور گویا ہوا۔
“آپ یہاں کس وقت آئے؟”
“جب تم چوٹی کے کنارے کھڑے پاؤں آگے پیچھے کر کے کھائی کی گہرائی ناپ رہے تھے۔”اس نے طنزیہ جواب دیا اور تیز قدم بڑھائے تو احمر بھی چپ چاپ تقلید کرنے لگا۔بنا کوئی بات کیے کہ اس میں خطرہ تھا۔
***