سیاہ رات قطرہ قطرہ بیت رہی تھی۔تاریخ چوبیس نومبر دو ہزار سولہ،چار ساڑھے چار کا وقت تھا۔ایک گھر کی بلند و بالا عمارت کی چھت پر کوئی شخص کھڑا ہوا تھا۔وہ ہاتھ کھولے کھڑا تھا۔ہوائیں اس کے وجود سے ٹکرا رہی تھیں۔اس کے چہرے پر کسی قسم کا خوف دیکھنے سے بھی نہیں مل رہا تھا۔وہ بہادری کا مظاہرہ کرتے ہوئے چھت کے بالکل کنارے پر کھڑا ہو گیا۔اس نے ایک نظر نیچے ڈال کر اونچائی ناپی پھر دوبارہ سر اٹھا لیا۔اس کے چہرے پر فتح کی چمک تھی۔یوں جیسے اس نے کوئی بہت بڑا میدان مارا ہو۔
کچھ دیر اس نے یونہی کھڑے رہ کر خود کو مزید مضبوط کیا پھر چند الفاظ اس کے منہ سے ادا ہوئے۔
“مما پاپا آئی لو یو اینڈ سوری مگر مجھے یہ گیم جیتنا ہے۔”اتنا کہہ کر اس نے یونہی ہاتھ پھیلائے ہوئے،اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑا اور خود کو ہواؤں کے سپرد کر دیا۔اس کا وجود تیزی سے نیچے کی سمت سفر کرتا زمین سے ٹکرا گیا۔وہ منہ کے بل اوندھا گرا اور سر سے رستا سرخ گاڑھا مائع لان کی ہری گھاس کو رنگنے لگا۔
ایک باب بند ہوا تھا۔خود کو مضبوط سمجھنے والے ایک کمزور شخص نے اپنے ہاتھوں اپنی جان لے کر اللہ کی رحمت سے کنارہ کر لیا تھا۔
***