اٹھ جا ناہنجار کب تک یوں ہی بستر توڑتا رہے گا سورج کب کا سر پر نکل آیا ہے اور تیری نیندیں ہی پوری ہونے کا نام نہیں لے رہی الحان کو تادیر بستر میں گھسا دیکھ چچی نے غصے سے ہانک لگائی ”
جس کے نتیجے میں وہ اگلے ہی پل چارپائی پر اٹھ بیٹھا نیند کچی تھی تبھی آسانی سے جاگ ہوگئی۔
ورنہ روز کی طرح انہیں گلہ پھاڑ پھاڑ کر اور بھی باتیں کرنے کا موقع مل جاتا جو وہ فلحال افورڈ نہیں کر سکتا تھا۔
کیا ہوگیا ہے اماں کیوں بیچارے کو صبح ہی صبح عزت افزائی سے نوازنے پر تلی ہوئی ہیں۔۔؟؟ روز تو نوکری کے سلسلے میں خوار ہوکر رات گئے تک آتا ہے اور تم اس سے خوش ہونے کی بجاۓ الٹا اسے باتیں سنا رہی ہو۔۔!!
رانی کو ماں کی بات بھلی نہ لگی تبھی احتجاجاً بولتی انھیں غصے سے دوچار کر گئی۔
تو تو چپ ہی رہ آئی بڑی حمایتی اتنا سارا پیسہ لگوا کر ہاتھ کیا آیا چند کاغذ کے ٹکڑے۔۔؟؟ اس سے تو اچھا تھا تم لوگوں کو پڑھاتے ہی نہ آج منہ میں زبان آگئی تو والدین کو سہی اور غلط کا مطلب بتا رہے ہو “
انہوں نے بھتیجے کو چھوڑ کر بیٹی کی کلاس لے ڈالی الحان رانی کا ہونک بنا چہرہ دیکھتا ہنسی دبا گیا۔
جبکہ رانی اس کا دل کیا اپنا سر دیوار میں دے مارے جو اپنے پیر پر خود ہی کلہاڑی مار بیٹھی تھی۔
اماں جاکر ابا کو دیکھ یہ نہ ہو غلط دوائی کھا کر پھر سے اپنی طبیعت خراب کر بیٹھے روز ہسپتالوں کے چکر کاٹ کر ویسے ہی ادھ موۓ ہوۓ پڑے ہیں یہ نہ ہو مہنگی دواؤں کے عوض کھانے کے لالے پڑ جائیں۔۔!!
بر وقت ابا حضور کا نام کوندے کی طرح لپکا تو اماں ماتھے پر ہاتھ مارتی عجلت میں جلے دل سے بڑبڑاتی میاں کے کمرے کی جانب بڑھ گئی تھی کچھ دن پہلے کی بات تھی جب ابا کا بی پی لو ہوگیا تھا تو وہ بنا کچھ سوچے دوسری گولی نگل گئے تھے۔۔۔!!
جس کے نتیجے میں کچھ ہی دیر میں ان کی طبیعت بری طرح بگڑ گئی تھی۔
کیوں بلاوجہ میرے لیے چچی کا غصہ اپنے سر لیتی ہو مجھے اب ان کی جلی کٹی باتوں پر طیش نہیں آتا ہولے سے اس کے سر پر تھپڑ جڑتے وہ یاد دہانی کروانے لگا۔
یعنی اب بےشرم ہوگئے ہو تبھی تو دیکھو تمھیں اماں کی ڈانٹ سے کوئی سروکار نہیں ورنہ پہلے کیسے زرا زرا سی بات پر چہرہ سوجا لیتے تھے۔
اس نے کھلکھلاتے ہوۓ جتایا پر الحان کی گھورتی نظروں پر اس کے لبوں کی مسکراہٹ پل میں سمٹی۔
جاب کا سناؤ کوئی امید ہے۔۔؟؟
بستر لپیٹتے اچانک ہی اس کا لہجہ سنجیدہ ہوگیا۔
ہاں جگہ جگہ سی وی بھیج رکھی ہے اللّٰہ کرے جلد ہی مل جاۓ چچا کو چیک اپ کے لیے لے جانا ہے یاد دلانا میں شام کو آ کر لے جاؤں گا موبائل میں میسجز پڑھتا وہ مصروف سا بولا۔
تو نے وہ گھڑی لے لی اس دن دیکھا رہے تھے جو۔۔؟؟
رانی کو بھولی بھٹکی بات اچانک زہن کے پردوں پر لہرائی تو بےساختہ اس سے پوچھ بیٹھی۔
نہیں فلحال نہیں لی لے لوں گا کہاں بھاگی جارہی ہے ہنس کر بات کو ٹالتا وہ فریش ہونے واش روم کی جانب بڑھ گیا تھا رانی نے تلخی سے مسکراتے نیلے آسمان کو تکا ” ۔۔
ذمہ داری کا دوسرا نام “مرد” ہے بہت سی ضرورتوں اور ذمہ داریوں کے بوجھ تلے ان کے کئی خواب بس خواب ہی رہ جاتے ہیں۔۔!!
—