کون سی سوچوں کے تانے بانے بن رہی ہیں بیگم خیر تو ہے اتنی دیر ہوگئی دیکھ رہا ہوں خاموش سی ہیں ورنہ آپ کی زبان مبارک تو ہر وقت جوہر دیکھاتی رہتی ہے کمال صاحب بیگم کو مسلسل خاموش دیکھ مسکراہٹ ضبط کرتے شرارتً بولے ” ۔
میں یہاں اتنی ٹینشن میں ہوں اور آپ کو مزاق سوج رہا ہے مسز کمال شوہر نامدار کے ٹونٹ کرنے پر خفا ہوتیں ناراضگی سے بولیں۔
آپ مجھے کچھ بتائیں گی تو مجھے بھی علم ہوگا نہ نجومی تھوڑی ہوں جو یونہی بات کا ادراک ہوجاۓ انھیں بازوں سے تھام کر اپنے مقابل کرتے وہ مستفر ہوۓ کہ آیا وہ کن سوچوں میں محو تھیں ” ۔
زوئلہ کے بارے میں سوچ رہی ہوں نجانے اس نے اپنے مستقبل کے بارے میں کیا سوچ کر رکھا ہے ہر گزرتے دن کے ساتھ ایک نئی پریشانی دل کو لاحق ہوجاتی ہے “
جتنا بھی سمجھا لو اس کی بس ایک ہی رٹ ہے جب وقت آۓ گا تب دیکھا جاۓ گا پر میری ان بوڑھی ہڈیوں میں اب جان نہیں بچی مرنے سے پہلے یہ آخری خواہش پوری کرنا چاہتی ہوں آپ بات کریے نہ۔۔!
ماں تھی۔ اولاد کا بھلا ہی چاہتی تھی جبھی بولتے ہوۓ بےاختیار ان کا لہجہ غمگین ہوگیا تھا آنسوں بھی پلکوں کی باڑ کو پھلانگ کر بہ نکلے تھے ” ۔
ششش۔۔!!
روئیں تو نہ ٹھیک ہے میں بات کروں گا وہ اپنی قسم توڑتے انہیں اپنے حصار میں لیے چپ کروانے لگے جنہوں نے یہ سوچ رکھا تھا کہ وہ آج رو کر روائ چناب بہا کر ہی دم لیں گی ” ۔
اب اگر آپ نے اپنے آنسو نہ پونچھے تو مجھ سے کسی قسم کی امید مت رکھیے گا کمال صاحب زچ ہوکر آخر میں انھیں وارننگ دے گئے جو کافی کارِگر ثابت ہوئی تھی” ۔
وہ رونا بھول کر ان کے کندھے پر سر ٹکا گئیں تھیں۔
خاندان میں کوئی ڈھنگ کا رشتہ ملے تو نہ اوپر سے زوئلہ کی عمر جو ہر بار آڑے آ جاتی ہے کمال صاحب ایک تصّوراتی نظر خاندان کے لڑکوں پر ڈالتے گویا ہوۓ۔
میں کیا کہ رہی تھی کے پر۔۔۔ پروان اور زوئلہ۔۔۔!!
وہ کہتے کہتے اپنی بات ادھوری چھوڑ گئیں۔
کیا۔۔۔؟؟ بلکل نہیں ایسا نہیں ہوسکتا وہ سوچ کر ہی دہل گئے آپ جانتی ہیں نہ زوئلہ کو وہ ایسا کبھی نہیں مانے گی اوپر سے پروان جسے اس نے اپنے بچے کی طرح پال پوس کر بڑا کیا ہے کم از کم اس رشتے کا ہی پاس رکھ لیتی ان کی غیر متوقع بات پر وہ برہم ہوۓ۔
پروان زوئلہ کا سگا بیٹا تو نہیں ہے نہ اس نے صرف اس کی پرورش کی ہے اور نہ ہی یہ بات گناہ کے زمرے میں آتی ہے آپ سوچ کر تو دیکھیں وہی مرغی کی ایک ٹانگ۔
اور کمال صاحب ان کے پاس جیسے الفاظ کا زخیرہ ختم ہوگیا تھا وہ اس کے آگے کچھ سوچ ہی نہ سکے۔
زوئلہ نے کبھی اس طرح سے نہیں سوچا ہوگا اور وہ اس رشتے پر رضامند بھی نہ ہو تب۔۔۔؟؟
اب کی بار وہ دھیمے لہجے میں بیگم کی بات کی نفی کر رہے تھے کہ شاید وہ پیچھے ہٹ جائیں۔
اس بات میں مجھے تو کوئی قباحت نہیں محسوس ہو رہی اور رہی بات زوئلہ کی تو وہ ایک نہ ایک دن اس رشتے کی نوعیت کو سمجھ ہی لے گی ان کا تحکمانہ لہجہ کمال صاحب کو خاموش کروا گیا ” ۔
وہ ناچاہتے ہوۓ بھی اس بات پر سوچنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
In Lamhon Ke Daman Mein by Romaisa Baloch Episode 2
