اف ہو میں اپنا فون تو کمرے میں ہی چھوڑ آئی آپ چلیے میں لےکر آتی ہوں زوئلہ کو بول کر وہ عجلت میں اندر کی طرف بڑھی تھی جبکہ زوئلہ نے اس کی لاپرواہی پر نفی میں سر ہلایا ” ۔
یہ اس کےلیے کوئی نئی بات تھوڑی تھی ہمیشہ جلدی میں وہ کچھ نہ کچھ گھر پر چھوڑ کر بعد میں اس چیز کےلیے رونا ڈال دیتی تھی۔
چلو گاڑی سٹارٹ کرو نیلو بھی آتی ہی ہوگی زوئلہ کی بات پر پروان کا حرکت کرتا ہوا ہاتھ ایک پل کو تھما اس نے ناگواری سے اس کا سر سے پیر تک معینہ کیا “۔
ایسے شادی میں جاۓ گی آپ۔۔۔۔؟؟
پروان کی بات پر زوئلہ کے چلتے ہوۓ قدم بےساختہ تھمے اس نے پلٹ کر حیرانگی سے پروان کی طرف دیکھا۔
اس ڈریس میں کیا برائی ہے۔۔؟؟
زوئلہ نے ناک سکوڑتے تعجب کا اظہار کیا۔
آپ کی سہیلی کی شادی ہے محترمہ آپ کی نہیں جو یوں ہیوی سا تیار ہوکر جارہی ہیں اس کا اشارہ اس کی ڈریسنگ پر تھا جو گہرے لال رنگ کے انگرکھے اور چوڑی دار پجامے میں بالوں میں لمبا سا گھنگھروؤں والا پراندہ ڈالے بڑے بڑے جھمکے پہنے ہیوی میک اپ میں بہت خوبصورت لگ رہی تھی مبادہ اس پر لال رنگ کی لالی لبوں اور گالوں پر پھیلا رکھی تھی۔
پروان کو کہاں گوارا تھا جو اس کی شہزادی کو کوئی ایرا غیرا نظر اٹھا کر بھی اس روپ میں دیکھے۔
ڈریس کا کلر مدھم ہو اور میک اپ بھی لائٹ کر کے آئیے گا خاص کر ” لیپسٹک ” اس کے منموہنے چہرے کو محبت بھری نظروں میں رکھے اس نے ایک اور حکم نامہ جاری کیا ” ۔
میں نہیں جارہی چینج کرنے شرافت سے گاڑی میں بیٹھو اس کی بات پر بنا کان دھرے وہ ہٹ دھرمی سے بول کر گاڑی کی طرف بڑھی تھی۔
مگر اتنی ہی تیزی سے وہ اسے بازوں سے پکڑتا اس کی پشت کو کار سے لگا گیا ساتھ ہی دائیں بائیں ہاتھ رکھ کر اس کی ساری راہیں مسترد کرتا اس کے چہرے پر جھک آیا تھا ” ۔
اگر نہیں چاہتی کہ میں آپ کے ساتھ زبردستی کروں تو فوراً سے پہلے چینج کر کے آئیے ورنہ میں آپ لوگوں کو لے کر نہیں جارہا اور آپ یہ بات بہت اچھے سے جانتی ہیں کے ایک بار جو میں بول دوں اسے دوبارہ دہرانا پسند نہیں کرتا “
قدرے مضبوط لب و لہجے میں باور کراتا وہ وارننگ دے گیا تو زوئلہ نے چہرے پر پڑتی اس کی نرم گرم سی سانسوں کو خود پر محسوس کرتے دیکھ سختی سے آنکھیں میچ لیں ” ۔
دوسرا اس کے پرفیوم کی سٹرونگ سمیل زوئلہ کے حواسوں پر بری طرح چھانے لگی وہ دل کی بدلتی ہوئی کیفیت سے گھبرا کر یک دم حصار توڑ گئی۔
ٹھیک ہے دانت پر دانت رگڑتے وہ مرتے کیا نہ کرتے کے مصدق جلے دل سے ہامی بھرتی اندر کی جانب بڑھ گئی تھی مما بابا تو پہلے ہی چلے گئے تھے باقی بچا تھا پروان جبھی وہ ناچاہتے ہوۓ بھی ہامی بھر گئی۔
ورنہ اس سر پھرے شخص کا کوئی بھروسا نہیں تھا وہ سچ میں اسے گھر پر اکیلا چھوڑ کر چلا جاتا۔
آپی کہاں گئیں۔۔۔؟؟
نیلما نے اسے وہاں نہ پاکر پروان سے پوچھا جس پر وہ کندھے اچکاتے لا علمی کا اظہار کر گیا۔
ڈریس کیوں چینج کیا اتنی تو پیاری لگ رہی تھیں اس کے واپس آنے پر تجسس کے مارے اس سے رہا نہ گیا۔
چپ کر کے بیٹھو زوئلہ کی غصے سے بھری آواز پر جہاں پروان کو مسکراہٹ ضبط کرنی پڑی وہیں اسے زوئلہ کے دماغی توازن پر تھوڑا شک ہوا ناچاہتے ہوۓ بھی وہ اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ قائم کرگئی ” ۔
منہ کیوں بنا ہوا ہے کب سے دیکھ رہی ہوں ڈھنگ سے کسی سے بات بھی نہ کررہی کیا ہوگیا ہے۔۔؟؟
مسز کمال جو کب سے زوئلہ کے بگڑے تاثرات کو دیکھ رہی تھیں آخرکار چپ کو توڑتی ہوئی بولی۔
کچھ نہیں مما بس سر میں درد ہورہا ہے بس اب گھر چلیں کافی دیر ہوگئی ہے اس نے کہتے ساتھ پاس کھڑی نیلما کو اشارے سے اپنے پاس بلایا جس کا واپسی کا سن کر موڈ اوف ہوگیا تھا۔
کیا اتنی جلدی ابھی تو آۓ تھے وہ بول کر افسردہ ہوئی ابھی مزہ آرہا تھا اور یہاں واپسی کی پلاننگ بھی بنائی جارہی تھی۔
تو ٹھیک ہے پھر تم یہی رک جاؤ ہم لوگ جارہے ہیں اس نے بگڑ کر کہا اور پھر بنا کسی کی سنے گاڑی کی طرف بڑھ گئی تھی۔
مسز کمال نے تاسف سے موڈی بیٹی کو دیکھا تھا جبکہ پروان اس کے بگڑے تاثرات کی وجہ اچھے سے جانتا تھا اور اس نے مزید بھیڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے سے فلحال گریز برتا “
جاری ہے