Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


وادی کرم کے گرد پھیلے پہاڑوں کی اوٹ سے شاہ خاور کے طلوع ہونے سے پہلے ہی وہاں زندگی جاگ اٹھی تھی۔۔۔ سورج راجہ کے اگ آنے تک زیادہ تر لوگ ضروریات زندگی سے فارغ ہونے کے بعد اپنے کام کاج پر روانہ ہو چکے تھے۔۔۔بچے بالے بھی خراماں خراماں  سکول کی جانب رواں دواں تھے۔۔۔ اپنی صحت کے معاملے میں کچھ حساس لوگ چہل قدمی میں مصروف نظر آتے تھے جن میں دو سرپھری لڑکیاں بھی شامل تھیں مگر انہیں علم ہی نہ ہوا کہ کب وہ راستہ بھٹک کر ممنوع علاقے میں داخل ہو گئیں۔۔۔ انہیں جب اس بات کی خبر ہوئی تو بہت دیر ہو چکی تھی۔
”زرشالہ! رک بھی جاؤ یار! کتنا تیز بھاگتی ہو تم؟“ زرلش نے ہانپتے ہوئے، جھک کر گھنٹوں پر ہاتھ رکھتے اسے پکارا جو کہ دوڑتے ہوئے اس سے کافی آگے نکل گئی تھی۔ اس کا سانس بری طرح پھول گیا تھا۔ وہ لمبے لمبے سانس بھرتی دھپ سے وہیں گھاس کے فرش پر ڈھیر ہو گئی تھی۔ زرشالہ نے کافی آگے جا کر، پہاڑی کے موڑ کے قریب پہنچتے، پیچھے مڑ کر اسے دیکھا جو گھاس کے قطعہ کے بیچوں بیچ پھسکڑا مارے بیٹھی تھی۔
”اسی لئے کہتی ہوں کہ روز آیا کرو میرے ساتھ مگر محترمہ کو تو نیند پیاری ہے بس۔“ وہ بآواز بلند بڑبڑاتے ہوئے واپس اس کی طرف پلٹی تھی۔ دونوں کے بیچ چند قدموں کا ہی فاصلہ تھا جب اسے گھوڑے کے ٹاپوں کی تیز آواز سنائی دی۔ پیچھے مڑ کر دیکھنے پر معلوم ہوا کہ کوئی گھڑ سوار اپنے گھوڑے کو سرپٹ دوڑاتے اسی سمت آ رہا ہے۔ اس نے واپس زرلش کی طرف دیکھا جو کہ دونوں ہاتھ پیچھے کی طرف زمین پر ٹکائے، ٹانگیں پسارے، آسمان کی طرف منہ کئے ابھی بھی گہرے سانس بھرتے جانے دور خلاؤں میں کیا تلاش رہی تھی۔
”زرلش اٹھو، بھاگو!“ زرشالہ نے بھاگ کر زرلش کو متبنہ کرتے، اسے اپنی جگہ چھوڑنے کا اذن دیا تھا۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں گم نجانے آسمان کی وسعتوں میں کون سے راز تلاش رہی تھی جو اس کی پکار کی طرف متوجہ ہی نہ ہوئی تھی۔
”زرلش!“ اس نے بلند آواز میں چلاتے ہوئے، اپنی رفتار تیز کر کے، فٹ اس تک پہنچنے کی کوشش کرنا چاہی مگر وہ گھڑ سوار زرشالہ کے پہنچنے سے پہلے ہی اس سے آگے گزر گیا تھا۔ اگلے ہی پل فضا میں دو نسوانی چیخوں کے ساتھ ہی گھوڑے کی ہنہناہٹ کی زوردار آواز بھی گونجی تھی۔
”تم ٹھیک ہو؟“ زرشالہ نے گرنے کے سے انداز میں زرلش کے پاس گھنٹوں کے بل بیٹھتے ہوئے سوال کیا جو کہ اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھے نیچے کو جھکی ہوئی تھی۔ اس نے سر اٹھا کر اسے دیکھا تو زرشالہ کو اس کے ماتھے سے تیزی سے بہتے خون نے حواس باختہ کر دیا تھا۔
”یا ﷲ!“ اس نے بےاختیار اپنے رب کو پکارتے، اپنی کمر کے گرد بندھی چادر کا کونہ پکڑتے اس کے ماتھے پہ رکھ کر دباؤ ڈالتے، خون روکنے کی کوشش کی تھی۔ اس گھڑ سوار نے رستے کے وسط میں بیٹھی لڑکی کو دیکھتے ہی، تیزی سے گھوڑے کی لگام کھینچ کر، رخ موڑنے کی کوشش کی تھی جس کے نتیجے میں ایک طرف پڑے چھوٹے چھوٹے پتھروں میں سے کچھ پتھر ہوا میں اڑے تھے اور یقیناً انہی میں سے ایک نے اس کا مزاج پوچھ لیا تھا۔ وہ شخص بھی چند گز کی دوری پر گھوڑا روک چکا تھا۔
”آپ ٹھیک ہیں؟“ سیاہ رنگ کے ٹریک سوٹ میں ملبوس وہ شخص اپنے سیاہ رنگ گھوڑے کی لگام تھامے، ان کے پاس رکتے، اس کی خیریت دریافت کر رہا تھا۔ زرشالہ کا تو دماغ ہی گھوم گیا تھا۔۔۔ وہ فوراً کمر کستے میدان میں اتر آئی، کمر کے گرد بندھی چادر البتہ کندھوں پر پھیلا لی تھی۔
”اندھے ہو کیا؟ نظر نہیں آتا؟ باپ کی زمین سمجھ کر گھوڑا دوڑا رہے تھے کہ کسی کو بھی کچل کر رکھ دو گے۔“ نووارد کی کالی گھور آنکھوں میں استعجاب سا در آیا تھا۔ اس نے اچھنبے سے لڑنے پر آمادہ نظر آتی اس لڑکی کو دیکھا تھا جو الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مصداق اس پر چڑھ دوڑی تھی۔۔۔۔ یعنی کہ غلطی بھی اپنی اور ماننا بھی نہیں!
”محترمہ! یہ آپ کو بیچ رستے میں ڈیرہ ڈالنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا کہ کوئی بھی آپ کو کچل کر آگے بڑھ سکتا ہے کیونکہ مجھے الہام بالکل بھی نہیں ہوا تھا کہ میرے باپ دادا کی زمین کو کوئی اپنی جاگیر سمجھ کر، ادھر پڑاؤ ڈالے بیٹھا ہے۔“ مقابل کی بات پر وہ پل بھر کو گھبرا گئی مگر اگلے ہی پل اس نے فوراً اپنے جذبات پر قابو پا لیا تھا۔ کتنی بار مورے اسے منع کر چکی تھیں کہ چہل قدمی کے دوران زیادہ دور مت نکلا کرو مگر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی تھی مگر آج اسے دشمنوں کی زمین پر دیدہ دلیری سے گشت کرنا مہنگا پڑتا نظر آ رہا تھا۔ اس نے بمشکل تھوک نگلتے، اکڑ کر سابقہ انداز میں اپنی بات کو جاری رکھنے کی کوشش کی تھی۔
”ہم کیسے مان لیں کہ یہ زمین آپ کی ملکیت ہے؟“ اس نے تڑخ کر پوچھتے، ایک لایعنی بحث کا آغاز کرنا چاہا تھا۔
”مجھے علم نہیں تھا کہ راستے میں جانچ پڑتال والوں سے ٹاکرا ہو جائے گا ورنہ میں ضرور زمین جائیداد کے کاغذات جیب میں رکھ کر لاتا۔“ اس نے بظاہر میٹھے مگر درحقیقت سلگتے ہوئے لہجے میں اپنی بات مکمل کرتے، سامنے عجیب و غریب حلیے میں کھڑی لڑکی کا بغور جائزہ لیا تھا جو کہ گہرے نیلے رنگ کا ٹریک سوٹ پہنے، بالوں کو جوڑے میں باندھے، کندھوں پر بڑی سی چادر پھیلائے، کمر پر ہاتھ رکھ کر تیکھے چتونوں سے اس کی طرف متوجہ تھی۔ اس کے یوں دیکھنے پر اس نے اسے گھوری سے نوازتے، اس کے نظروں کا زاویہ بدلنے پر چادر کھول کر اچھی طرح سے اپنے اطراف میں یوں پھیلائی تھی کہ اس کا لباس مکمل طور پر اس میں چھپ گیا تھا۔ اس شخص نے نظروں کا زاویہ بدلا تو نگاہ زمین پر بیٹھی لڑکی پر جا ٹکی جو کہ اپنی چادر کا کونہ ماتھے پر رکھے خون روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”آپ کو تو چوٹ لگی ہے، دکھائیں۔“ اس نے گھوڑے کی لگام چھوڑتے، تیزی سے اس کے پاس بیٹھتے فکرمندی سے استفسار کیا تھا۔ زرشالہ جو کہ مزید بحث کا ارادہ رکھتی تھی، اس کی بات پر وہ بھی فوراً ہوش میں آتے، واپس زرلش کی طرف بڑھی تھی۔
”آپ کی ہی کرم نوازی ہے۔“ زرشالہ نے طنزیہ انداز میں کہتے، اس کے ماتھے کی طرف اشارہ کیا تھا۔ وہ گھڑ سوار بنا کسی تبصرے کے اپنی جیب سے رومال نکال کر اس کے ماتھے کے گرد باندھنا چاہتا تھا مگر زرلش اس کا بڑھتا ہاتھ دیکھتے یکدم ہی پیچھے کو ہوئی تھی۔
”دیکھیں محترمہ! آپ کو چوٹ لگی ہے اور میرا مقصد صرف آپ کے خون کو روکنے کی کوشش کرنا ہے۔ آپ گھبرائیں مت، میرا کوئی بھی غلط ارادہ نہیں ہے۔“ اس نے اس کی دقت بھانپتے رسان سے کہا تھا۔
”آپ کسی غلط ارادے کو پایہ تکمیل تک پہنچا بھی نہیں سکتے۔“ زرشالہ کی زبان پر پھر سے کھجلی ہوئی تو اس نے اسے دھمکانے کی کوشش کی تھی۔ اس شخص نے اسے ایک تیز گھوری سے نوازتے، آگے کو جھک کر زرلش کے ماتھے پر کس کر رومال باندھا تھا۔ اس نے پوری کوشش کی تھی کہ اس کی انگلیاں اس لڑکی کے سر سے مس نہ ہوں اور وہ کامیاب بھی ٹھہرا تھا۔
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ مجھے تو لگا تھا کہ تم اب تک اختتامی مقام پر پہنچ چکے ہو گے۔“ وہ رومال باندھ کر پیچھے ہوا ہی تھا کہ ایک اور گھڑ سوار ان کے پاس آ کر رکا تھا۔ وہ دونوں غالباً ریس لگائے ہوئے تھے۔ آنے والے نے بھی سیاہ ٹریک سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کا گھوڑا بھی سیاہ رنگ کا تھا مگر اس کی آنکھیں گہرے بھورے رنگ کی تھیں۔ اس نے گھوڑے پر بیٹھے بیٹھے ہی سوال کیا تھا۔
”ان کو مدد کی ضرورت تھی تو رک گیا۔“ پہلے والے وجود نے اٹھ کر کھڑے ہوتے، بنا سیاق و سباق کے بات کی تھی۔
”اورکزئی صاحب یہ آپ کو ہمدردی کا دورہ کب سے پڑنے لگا؟“ بھوری آنکھوں والے نے اس کی بات کو ہنسی میں اڑایا تھا۔
”کوئی بکواس نہیں۔“ اس نے انگلی اٹھا کر تنبیہ کرتے، اپنے گھوڑے کی باگ اپنے ہاتھ میں لی تھی۔ دونوں لڑکیاں بھی اب اٹھ کر کھڑی ہو چکی تھیں۔ زرشالہ کو بھی بھوری آنکھوں والے کی بات پر تپ چڑھی مگر زرلش نے اس کا ہاتھ دبا کر، اسے مزید کچھ بھی کہنے سے روک دیا کیونکہ جو بھی تھا غلطی انہی کی تھی اور ویسے بھی اس وقت وہ ان کے علاقے میں کھڑی تھیں سو اس نے بات سمیٹنے میں ہی عافیت جانی۔
”محترمہ! آپ کو بھی اب جانا چاہیے اور اگلی بار مراقبے میں جانے کا ارادہ ہو تو راستے سے ہٹ کر بیٹھیے گا۔“ ان دونوں کو مخاطب کرتے اب وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہو چکا تھا۔ بھوری آنکھوں والا ابھی بھی پرشوق نظروں سے ان دونوں کا جائزہ لے رہا تھا۔
”ڈاکٹر کو لازمی دکھا لیجیے گا، لیٹس فنش اٹ۔“ آخری بات زرلش کو دیکھ کر کہتا، وہ اپنے گھوڑے کو ایڑ لگا کر اپنے ساتھی سے مخاطب ہوتا، گھوڑا بھگا لے گیا تھا۔ 
”بائے بیوٹیز! ویٹ فار می!“ بھوری آنکھوں والا بھی ایک خیرمقدمی مسکراہٹ ان کی طرف اچھال کر، ان دونوں کو ہاتھ ہلا کر کہتا، اپنا گھوڑا لے کر اس کے پیچھے لپکا تھا۔
”کمینہ!“ اس کی اس حرکت پر زرشالہ زیرِ لب بڑبڑائی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہ دونوں ان کی نظروں سے اوجھل ہو گئے تھے۔ وہ دونوں بھی چپ چاپ واپسی کو مڑ گئی تھیں۔
………………………………

Leave a Comment