Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

روشنیوں کے شہر کراچی میں ایک روپہلی و چمکدار صبح اپنے دامن میں کئی امیدیں لے کر روشن ہوئی تھی۔۔۔ وہاں کے ایک پسماندہ سے علاقے کے ایک چھوٹے سے گھر میں موجود ایک لڑکی بھی کچھ اچھا ہو جانے کی امید پر اپنی اماں سے مخاطب تھی۔
”اماں دعا کیجئے گا، انٹرویو اچھے سے ہو جائے۔“ اس نے ہاتھ میں پکڑا چائے کا کپ جلدی جلدی سے ختم کر کے، میز پر رکھتے، اپنے سامنے بیٹھی عورت کو مخاطب کرتے دعا کی التجا کی تھی۔
”یہ بھی کوئی کہنے کی بات ہے بھلا؟ میری تو ساری دعائیں ہی تمہارے لئے ہیں۔“ اس عورت نے ایک پیار بھری نظر اس پر ڈالتے، شفقت بھرے لہجے میں کہا تھا۔ جواباً اس لڑکی کے چہرے پر ایک مسکان ابھر کر معدوم ہو گئی تھی۔
”بس یہ نوکری مل جائے تو ہمارے سارے مسائل حل ہو جائیں گے۔“ اس نے اپنا بٹنوں والا موبائل فون ہاتھ میں پکڑے بوسیدہ سے چمڑے کے بیگ میں اڑستے زیرِ لب خود سے ہی کہا تھا۔ اس کے قریب ہی بیٹھی عورت نے اس کی سرگوشی پر گہرا سانس بھرا تھا مگر کچھ بھی کہنے سے گریز برتا کہ وہ اس وقت کچھ بھی کہہ کر اس کا اچھا بھلا خوشگوار موڈ غارت نہ کرنا چاہتی تھیں جو کہ کبھی کبھار ہی انہیں دیکھنے کو ملتا تھا ورنہ زیادہ تر تو وہ کڑوا کریلا ہی بنی رہتی تھی مگر غلطی اس کی بھی نہ تھی کہ اس نے بچپن سے سوائے محرومیوں کے کچھ دیکھا ہی نہ تھا۔ ماں تھی تو اس کے پیدا ہوتے ہی اسے گود میں لینے سے انکار کر چکی تھی اور باپ تھا تو بس نان نفقے کے نام پر ہر ماہ ایک خطیر رقم دے کر ساری ذمہ داریوں سے بری ہو جاتا تھا۔ جب تک وہ چھوٹی تھی تو معاملات کو اتنا گہرائی سے نہ جانچتی تھی مگر جوانی کی سرحدوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ اسے اور بہت سی حقیقتوں کا ادراک بھی ہو چلا تھا سو اس نے انٹر کرتے ہی سب سے پہلے اپنے اس باپ کی بھیک لینے سے انکار کیا تھا جس کو اس نے کبھی دیکھا ہی نہ تھا۔ وہ اب بھی اس کے اکاؤنٹ میں رقم جمع کرواتے تھے مگر اس نے انکار کے بعد سے کبھی ایک پھوٹی کوڑی بھی اس میں سے استعمال نہ کی تھی۔ اس کے نام کا اکاؤنٹ بچپن سے ہی کھل گیا تھا جو اٹھارہ سال کی ہوتے ہی اس کی دسترس میں آ گیا تھا۔ اس سے پہلے کلثوم بی بی کے شوہر ساجد ہی اس میں سے رقم نکلوایا کرتے تھے۔ وہ دونوں بےاولاد تھے اور بچپن سے ہی انہوں نے اس کی دیکھ ریکھ کی تھی۔ اس نے انٹر کے بعد اس رقم کو خیرات کہہ کر لینے سے انکار کے بعد سے کچھ ٹیوشنز پڑھا کر اور تھوڑا بہت وظیفہ حاصل کر کے اپنی بقیہ تعلیم مکمل کی تھی کہ وہ پڑھائی میں ہمیشہ سے بہت اچھی رہی تھی جبکہ کلثوم اور ساجد کو تب بھی اس کے نام نہاد باپ سے اس کی دیکھ بھال کے صلے میں ایک معقول تنخواہ ملتی تھی مگر پچھلے سال ساجد کے انتقال کے بعد سے کلثوم نے بھی تنخواہ کی مد میں ایک روپیہ بھی وصول نہ کیا تھا کہ وہ اسے حقیقی اولاد کی طرح ہی سمجھتی تھی اور پہلے بھی اپنے شوہر کی وجہ سے ہی وہ مجبور تھی مگر اب ایسی کوئی مجبوری لاحق نہ تھی۔ ﷲ کا کرم تھا کہ گھر چاہے بوسیدہ تھا مگر سر پر اپنے نام کی چھت تو میسر تھی سو رہائش کا مسئلہ نہ تھا۔ آج کل وہ اپنی وکالت کی تعلیم پوری کرنے کے بعد کسی اچھی لا فرم میں ملازمت حاصل کرنے کی تگ و دو کر رہی تھی تاکہ معاشرے میں اپنی ایک پہچان بنا سکے۔ اسے بےصبری سے اس دن کا انتظار تھا جب وہ کچھ بن کر اپنے باپ کے روبرو آ کر اس سے اپنے دل و دماغ کو بےچین کرتے سوالوں کے جواب مانگ سکے۔ وہ اپنے اندر کی ساری تلخی و چبھن اس شخص پر انڈیل دینا چاہتی تھی مگر اس سے پہلے وہ اپنا ایک نام بنانا چاہتی تھی تاکہ جب وہ بات کرے تو سامنے والا اس کی بات سننے پر مجبور ہو جائے۔ نجانے وقت اس کی زندگی کی تلخیوں کو مٹھاس میں بدلنے والا تھا یا پھر اس کی ذات میں مزید کڑواہٹ گھلنے والی تھی۔
……………………………………

Leave a Comment