Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


دریائے کرم کا ٹھاٹھیں مارتا پانی دیکھنے والوں کو ہمیشہ سے اپنے سحر میں جکڑ لینے کا عادی تھا مگر بہت بار ایسا بھی ہوا کہ اس کے اسرار جاننے کی کوشش کرنے والوں کو اس نے خود میں ہی سمو لیا تھا۔۔۔ ان پانیوں میں کئی ایسی داستانیں رقم تھیں، جب ڈوبنے والوں کو تنکے کا سہارا بھی میسر نہیں آیا تھا لیکن ضروری تو نہیں کہ ہر بار ایسا ہی ہو۔۔۔ بسا اوقات کوئی ہاتھ بڑھا کر تھامنے والا بھی مل جاتا ہے۔
”زرشالہ دھیان سے یار، آگے پانی کافی گہرا ہے۔“ زرلش نے اسے دریا کے بیچوں بیچ تصویر کھنچوانے کے شوق میں آگے بڑھتے دیکھ کر، اونچی آواز میں تاکید کی تھی۔ اس آواز پر ان دونوں نے بھی مڑ کر دیکھا جو اپنے کچھ دوستوں کے ساتھ سیروتفریح کی غرض سے ادھر موجود تھے۔ پانی کے بیچ کھڑی اس لڑکی کو وہ دیکھتے ہی پہچان چکا تھا اور اب سر جھٹکتے واپس اپنے دوستوں کی طرف متوجہ ہو گیا جبکہ دوسرے شخص کی سیاہ چشمے کے پیچھے چھپی نظریں ابھی بھی ان کی طرف تھیں۔ وہ وہی تھا بھوری آنکھوں والا۔ ادھر اس وقت رش تھوڑا کم ہی تھا۔ چھٹی والا دن نہ ہونے کی وجہ سے اس جگہ اکا دکا لوگ ہی نظر آ رہے تھے جن میں زیادہ تر لڑکے ہی تھے یا پھر ایک دو فیملیز تھیں سو لوگ نہ ہونے کے برابر تھے۔
”کچھ نہیں ہوتا یار! تم بس تصویر بناؤ۔“ زرشالہ نے ادھر سے ہی ہانک لگائی تھی۔ وہ بھی سر ہلاتی کیمرے کا فوکس درست کرنے لگی کہ زرشالہ تھوڑا نیچے کو تھی جب کہ زرلش تھوڑے فاصلے پر ایک بڑے سے پتھر پر مضبوطی سے پاؤں جمائے کھڑی تھی۔ وہ تصویر کا زاویہ صحیح کرنے کی غرض سے تھوڑا نیچے کو بیٹھتے، آگے کو جھکی تھی مگر اس کے قدم اکھڑنے کے باعث وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ پائی اور اگلے ہی پل وہ پانی میں گر چکی تھی۔
”زرلش!“ اس کی چیخ نما پکار پر ادھر موجود اور لوگ بھی ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ سیاہ گھور آنکھوں والے نے ایک لمحہ ضائع کئے بنا دریا میں اس طرف چھلانگ لگائی جہاں زرلش ہاتھ پاؤں مارتی، خود کو بچانے کی تگ و دو میں پانی کے ساتھ بہتی چلی جا رہی تھی۔ اس کے دو اور ساتھی بھی اس کے پیچھے لپکے جن میں بھوری بھنورا آنکھوں والا بھی تھا۔ وہ جہاں گری تھی وہاں سے پانی تیزی سے نیچے کو ایک چھوٹی سی ڈھلوان کی صورت بہتے ہوئے وسیع و عریض دریا میں گر رہا تھا۔ وہ نیچے بہتے دریا میں گری تھی مگر اس کی خوش قسمتی کہ وہ لڑکا اسی سمت سے کودا جدھر کو وہ بہتی ہوئی آ رہی تھی۔ پانی کے ساتھ تھوڑی سی ہاتھاپائی کے بعد جلد ہی اس نے زرلش کو جا لیا اور اپنے دوستوں کے پہنچنے سے پہلے ہی وہ اس کے بےہوش وجود کو ایک بازو کے حصار میں لئے دوسرے سے تیرتا ہوا اسے گھاس کے ایک قطعہ کی طرف لا چکا تھا۔ اس نے باہر نکلتے ہی اسے چت لٹا دیا۔۔۔ زرشالہ بھی گرتی پڑتی اس تک پہنچ گئی۔۔۔ اس کی اڑی ہوئی رنگت، اس کی دلی کیفیت کی غماز تھی۔۔۔ ان کے آس پاس کچھ اور لوگ بھی جمع ہو گئے تھے جن میں زیادہ تر مرد ہی تھے۔۔۔ وہاں زرشالہ کے علاوہ صرف دو اور خواتین تھیں۔
”آپ ان کے سینے پر دباؤ ڈالیں تاکہ اگر تھوڑا بہت پانی اندر گیا ہے تو وہ باہر نکل آئے۔“  کالی آنکھوں والے نے زرلش کو پکارتے ہوئے، اس کا گال تھپتھپاتی، زرشالہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا تھا۔ اس نے اثبات میں سر ہلاتے، فوری اس کی ہدایت پر عمل کیا۔۔۔۔ دو تین بار کی کوشش کے بعد اس کے منہ سے پانی نکلتے ہی زرلش بھی ہوش میں آنے لگی تھی۔ اسے آنکھیں کھولتے دیکھ کر زرشالہ نے شکر کا سانس لیا تھا۔ قریب سات آٹھ منٹ بعد وہ اٹھ بیٹھی۔۔۔۔ وہاں موجود لوگ اس سے حال احوال دریافت کرنے لگے جبکہ وہ صرف سر ہلا کر ادھر ادھر نگاہ دوڑا رہی تھی گویا کچھ ڈھونڈ رہی ہو۔ وہ یقیناً اپنی چادر تلاش رہی تھی جو وہیں پانی میں ہی بہہ گئی تھی سو حواس بحال ہوتے ہی اس نے سب سے پہلے اپنے سینے پر بازو لپیٹتے خود کو چھپانے کی ایک ادنیٰ سی کوشش کی تھی۔ اس کی حالت دیکھتے اس لڑکے نے اپنے دوست کے ہاتھ میں پکڑی اپنی جیکٹ تھام کر اس کی طرف بڑھا دی۔۔۔۔ وہ لوگ غالباً کسی ٹھنڈے مقام کی طرف جا رہے تھے یا ادھر سے واپس آئے تھے کیونکہ ان تمام کے پاس ہی جیکٹیں موجود تھیں جبکہ ادھر آج کل موسم معتدل تھا۔ نہ زیادہ گرمی اور نہ ہی سردی کہ زیادہ گرم کپڑوں کی ضرورت پڑتی۔ اس نے کچھ جھجھکتے ہوئے وہ جیکٹ پکڑ کر پہن لی کہ اس وقت اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا مگر وہ کھڑی اب بھی نہ ہوئی تھی بلکہ اس نے گھٹنوں کے گرد بازو لپیٹ لئے تھے کہ ابھی بھی کچھ لوگ ان کے پاس کھڑے تھے۔
”آپ کا بےحد شکریہ! آپ کا احسان میں زندگی بھر یاد رکھوں گی۔“ زرشالہ نے اس کا گریز سمجھتے، آداب نبھاتے ہوئے کہا تاکہ وہ لوگ وہاں سے جا سکیں۔
”آپ دونوں وہی ہیں نا جو اس دن ہماری ریس کے بیچ آ گئی تھیں۔“ وہ جواب میں کچھ کہتا، اس سے پہلے ہی بھوری آنکھوں والا بول اٹھا تھا۔ زرشالہ نے بنا کچھ کہے ایک تیز نگاہ اس پر ڈالی جیسے اسے یہ ذکر پسند نہ آیا ہو اور دوبارہ کالی آنکھوں والے کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
”ایک بار پھر آپ کا شکریہ، ہم چلتے ہیں اب۔“ وہ کہہ کر زرلش کو بازو سے تھام کر اٹھانے لگی تھی۔
”کیسے جائیں گی آپ؟“ کالی آنکھوں والے نے شاید مدد کے خیال سے جاننا چاہا۔۔۔۔ ان کے پاس کھڑے لوگ اب واپس مڑ گئے تھے۔
”گاڑی ہے میرے پاس۔“ اس نے کہتے ساتھ ہی زرلش کی کمر میں ہاتھ ڈال کر اسے چلنے میں مدد دی تھی۔ ان کے جانے پر وہ لوگ بھی پلٹے تھے۔
”بیوٹی فل لیڈیز!“ ان کے جاتے ہی بھوری آنکھوں والے نے زیرِ لب کہا مگر آواز اتنی ضرور تھی کہ ساتھ کھڑے وجود کی سماعتوں کو بھی سیراب کر گئی تھی۔ اس نے ایک تنبیہی نظر اس پر ڈالتے، نفی میں سر ہلاتے، اسے خود پر قابو پانے کی تلقین سی کی تھی۔ جواباً اس نے ڈرنے کی اداکاری کرتے ہونٹوں پر انگلی رکھتے، خاموش رہنے کا عندیہ دیا تھا۔ اس کی اس حرکت پر وہ اس کے کندھے پر دھپ لگاتا، اسے کندھوں سے تھام کر اپنے دوستوں کی طرف بڑھ گیا تھا جو کہ ان سے آگے نکل چکے تھے۔
………………………….

Leave a Comment