Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

 شہر قائد کے کاروباری مرکز میں بنی عمارتوں میں سے ایک میں واقع اس لا فرم کی اندرونی آرائش کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں واضح ستائش ابھری تھی۔۔۔ سیاہ اور سرمئی کے امتزاج سے رنگی دیواروں پر آویزاں خطاطی کے فن پارے کسی بھی نئے آنے والے کی توجہ اپنی جانب کھینچنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے تھے۔۔۔ وہ طائرانہ نگاہوں سے اردگرد کا جائزہ لیتی، استقبالیہ تک آئی تھی۔

”میری آج انٹرویو کی کال تھی۔ میں اس دن بارش کی وجہ سے آ نہیں پائی تھی تو آپ کی فرم کال کرنے پر آپ کے مینجر صاحب نے مجھے آج آنے کو کہا تھا۔“ وہ اپنی فائل استقبالیہ پر موجود لڑکی کو تھماتے ہوئے، اس کی بات کا تفصیلی جواب بھی دے رہی تھی جو کہ اس نے انٹرویو ہو جانے کے حوالے سے کی تھی۔ لڑکی نے اثبات میں سر ہلاتے انٹرکام پر کسی سے رابطہ کرنے کے بعد اسے کچھ دیر انتظار گاہ میں بیٹھنے کا کہا کہ ابھی باس مصروف تھے۔ کچھ ہی دیر میں اسے انٹرویو کا بلاوا آ گیا تھا۔ وہ خود کو پرسکون کرتی، اپنے پورے اعتماد کے ساتھ اس فرم کے مالک کے کمرے کی طرف بڑھ گئی تھی۔ وہ دروازے پر دستک دے کر ‘یس’ کی آواز کے ساتھ ہی اندر داخل ہو گئی تھی۔ اس کی توقع کے برعکس یہ ایک سادہ مگر نفیس سا دفتر تھا جس میں سامنی دیوار کے آگے مرکزی میز کرسی رکھی گئی تھی، اس کے دونوں اطراف دیواروں کے ساتھ سیاہ رنگ کے چمڑے کے صوفے رکھے گئے تھے جن کے آگے کانچ کی نازک سی میزیں تھیں۔ مرکزی میز کے مخالف سمت بھی دو کرسیاں رکھی گئی تھیں۔ دروازے والی دیوار کے ساتھ مختلف قسم کے چار پانچ انڈور پودے سلیقے سے رکھے گئے تھے۔۔۔ اس کے ساتھ سرمئی جانبی دیوار پر انصاف کے متعلق ایک آیت کا بہت ہی خوبصورت فن پارہ آویزاں تھا۔۔۔ سربراہی کرسی کے پچھلی دیوار پر قرینے سے رکھی گئی کتابوں سے بھری ایک الماری تھی جن میں سے زیادہ تر قانون کے متعلق ہی تھیں۔ کمرے کے برعکس سربراہی کرسی پر براجمان شخص زیادہ عالیشان تھا۔ وکیلوں کے مخصوص لباس میں سلیقے سے جمے بال، کسرتی جسامت اور روشن پیشانی کے حامل اسعاد بنگش کو دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں ستائش ابھری مگر یہ کسی غلط جذبہ کے تحت نہ تھی۔ وہ اظہار کے معاملے میں کبھی کنجوسی سے کام نہ لیتی تھی پھر چاہے وہ اظہار غصے کا ہو، خوشی کا ہو، کسی کو کھری کھری سنانی ہوں یا کسی کی تعریف کرنی ہو سو ابھی بھی اس نے دل کی آواز پر اس کی ہاں میں ہاں ملائی تھی کہ سامنے بیٹھا شخص واقعی سحر انگیز شخصیت کا مالک تھا مگر نہ تو اسے اس کی شخصیت سے کوئی مطلب تھا اور نہ ہی ادھر اظہار کی ضرورت تھی۔۔۔ وہ سب کچھ ذہن سے جھٹکتی اپنی فائل دیکھتے اسعاد کی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔
”تعلیمی ریکارڈ تو آپ کا کافی اچھا ہے مگر ہم یہ کیسے مان لیں کہ آپ اس فرم کیلئے ایک خوشگوار اضافہ ثابت ہوں گی؟“ اس کی فائل پر نظریں دوڑاتے ہوئے اسعاد نے بنا کسی فالتو سوال جواب کے مدعے کی بات کی تھی۔
”سر! یہ تو آپ جب مجھے خود کو ثابت کرنے کا موقع دیں گے تو ہی میں دکھا سکوں گی کہ میں کیسا اضافہ ہوں اس کمپنی میں۔“ اس کے نپے تلے جواب پر اسعاد نے پہلی بار نظر اٹھا کر سامنے بیٹھی لڑکی کو بغور دیکھا تھا۔ سیاہ رنگ کے لیلن کے سادہ سے سوٹ میں سرخ شال کندھوں کے گرد اوڑھے، لمبے بالوں کی سادہ سی چٹیا بنائے وہ لڑکی بہت خوبصورت تو نہ تھی مگر کچھ کم بھی نہیں تھی۔ اس کے چہرے پر ایک ایسی کشش ضرور تھی کہ ایک بار دیکھنے والا دوسری بار ضرور اسے دیکھنا چاہتا مگر اسعاد کو اس کے لہجے نے نظریں اٹھانے پر مجبور کیا تھا۔ کچھ تھا اس کے انداز میں جو اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کر گیا تھا مگر کیا وہ یہ سمجھنے سے قاصر تھا۔
”وکالت کو مختصر الفاظ میں کیسے بیان کریں گی آپ؟“ اسعاد نے اس کے چہرے پر ہی نظریں جمائے سوال کیا تھا۔
”آج کے نظام کی بات کروں تو وکالت لفظوں کے سحر کے سوا کچھ نہیں، جو جتنے بہترین الفاظ کا استعمال کرے گا وہ اتنا ہی بہترین وکیل ہوگا۔ آپ کے پاس بھلے سے ایک ادھورا سا ثبوت ہی کیوں نہ ہو مگر آپ کو لفظوں کے جال بننے آتے ہوں تو وہی ایک ثبوت آپ کی ڈھال بن جاتا ہے۔ قصہ مختصر آج بہترین وکیل وہ ہے جو چرب زبانی میں ماہر ہے۔“ اس لڑکی نے بظاہر مسکراتے مگر درحقیقت استہزائیہ انداز میں اپنی بات مکمل کی تھی۔ اس کی بات پر اسعاد نے ایک بار پھر بغور اس کا جائزہ لیا تھا۔ اس لڑکی میں یقیناً کچھ بات تو ضرور تھی۔
”اگر ایسا ہے تو پھر آپ نے وکالت کا انتخاب کیوں کیا؟“ اسعاد نے استفہامیہ انداز اپنایا تھا۔
”اپنے تجزیات کی نفی کیلئے۔ انسانیت کو ایک نیا موڑ دینے کیلئے۔“ اس لڑکی کی ہر منطق ہی نرالی تھی۔
”انسانیت آپ کے نزدیک کیا ہے؟“ اس نے سر جھٹکتے ایک اور سوال کیا تھا۔
”انسانیت! آپ میں ہو تو سب کچھ، کسی دوسرے میں ہو تو کچھ بھی نہیں۔“ اسعاد نے الجھن بھرے انداز میں اس کی طرف دیکھا تھا۔
”آپ اس بات کی وضاحت کرنا چاہیں گی؟“ وہ اپنی الجھن سلجھا لینا چاہتا تھا۔
”ضرور! اصل میں، میں نے انسانیت کے بہت سے روپ دیکھے ہیں جس میں سب سے بھیانک روپ ایک باپ کا تھا اور سب سے قابل رحم ایک ماں کا۔ میرا انسانیت سے اعتبار ہی اٹھ جاتا اگر میں نے ممتا کا روپ نہ دیکھ رکھا ہوتا مگر یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ممتا صرف سگی ماں سے ہی منسوب نہیں۔ ممتا انسانیت سے منسوب ہے سو میرا ماننا ہے کہ جس کے پاس انسانیت ہے وہی انسان ہے ورنہ یہ دنیا درندوں سے بھری پڑی ہے۔“ اسعاد نے اچھنبے سے اپنے سامنے بیٹھی اس دھان پان سی لڑکی کو دیکھا جو سفاکیت کی حد تک صاف گوئی سے انسانیت کا مطلب واضح کر گئی تھی۔ اس کے لہجے کی تلخی میں زمانوں کا درد چھپا تھا۔
”اتنی سی عمر میں اس قدر پختہ تجزیہ؟!“ اسعاد نے رائے دی تھی یا سوال کیا تھا یہ وہ خود بھی نہیں جانتا تھا۔ اس کی بات پر سامنے بیٹھی لڑکی کے چہرے پر ایک تلخ مسکان ابھری تھی۔
”سر اگلے ماہ تئیس سال کی ہو جاؤں گی اور یہ عمر کچھ اتنی بھی کم نہیں۔ ویسے بھی میں نے جو آپ سے کہا وہ صرف میرا مشاہدہ نہیں بلکہ میری زندگی کی کہانی ہے۔“ اس نے سپاٹ سے انداز میں اپنی بات مکمل کی تھی گویا وہ کسی اور کے بارے میں یہ سب کہہ رہی ہو۔
”مس منعام! کیا میں آپ سے پوچھ سکتا ہوں کہ آپ کے ولدیت کے خانے میں باپ کے نام کی بجائے صرف سرپرست کیلئے مختص خانے میں آپ کے سرپرست کا نام کیوں درج ہے؟“ اسعاد نے اس کی باتوں سے اپنے تئیں کچھ بھی نتیجہ اخذ کرنے سے بہتر اس سے صاف صاف پوچھ لینا زیادہ مناسب سمجھا تھا مگر ایک بات تو بالکل واضح تھی کہ وہ لڑکی اپنے اندر بہت سی کڑواہٹ اور تلخیوں کے ڈھیر لئے پھرتی تھی۔
”جی ضرور! بالکل پوچھ سکتے ہیں۔ یہی تو وہ وجہ ہے جس کے باعث آج میں آپ کے سامنے بیٹھی ہوں۔ میرے باپ نے مجھے نہیں اپنایا تو میں نے بھی انہیں اپنانے سے انکار کر دیا۔ اب میں کچھ بن کر ہی اس شخص سے سارے سوالوں کے جواب لینا چاہتی ہوں۔“ منعام نے بنا کسی ہچکچاہٹ یا جھجھک کے اپنی بات مکمل کی تھی۔ اسعاد اتنی صاف گوئی پر اس کی طرف دیکھ کر رہ گیا تھا۔
”کوئی کیسے اپنے والد کو اپنانے سے انکار کر سکتا ہے؟ والدین سے بڑھ کر کون اپنا ہو سکتا ہے؟“ اسعاد شاید اسے مزید ٹٹولنا چاہتا تھا۔
”آپ اتنی بڑی لا فرم کی سربراہی کرسی پر بیٹھ کر اگر یہ بات کریں گے تو پھر یہ بڑے ہی تعجب کی بات ہے۔ آپ کے پاس تو روزانہ ایسے کئی کیسز آتے ہوں گے جن میں بہت سے ماں باپ اپنی اولاد کو بیڑیاں سمجھتے ہوئے اسے دوسرے فریق کے حوالے کرنا چاہتے ہوں گے اور ویسے بھی میں اس باپ کو کیسے اپنا لوں جس کا نام بھی مجھے ہوش سنبھالنے کے کافی عرصہ بعد پتا چلا تھا۔“ بات کے اختتام پر منعام کے لبوں پر ایک آزردہ سی مسکراہٹ پھیلی تھی۔ یہ سچ تھا کہ وہ اپنے باپ کے وجود سے یکسر لاعلم تھی۔ وہ بہت دیر تک ساجد اور کلثوم کو ہی اپنے والدین تصور کرتی آئی تھی مگر جب نویں جماعت کے داخلہ فارم پر اندراج کیلئے اسے اپنے باپ کے شناختی کارڈ کی ضرورت پیش آئی تو ساجد نے اسے ولدیت کا خانہ خالی رہ دینے کا کہہ کر اسے بقیہ فارم بھر دینے کا کہا تھا اور پھر بعد میں سکول میں اس کا فارم تو مکمل ہو گیا تھا مگر یہ بات صیغہ راز میں رکھی گئی تھی۔ اس کی رولنمبر سلپ بھی سرپرست کے نام پر ہی آئی تھی۔ اسے اپنے باپ کا نام اپنی میٹرک کی سند سے پتا چلا تھا اور وہ دن اس کی آگاہی کا دن تھا کہ وہ جن سے شفقت سمیٹ رہی ہے وہ تو اس کے والدین ہی نہ تھے اور جو اس کے سگے تھے وہ ان کیلئے کسی بوجھ سے کم نہ تھی۔ اس نے کافی عرصے تک کلثوم کی منت کر کے اس سے سب جاننے کی خواہش کی تھی اور جس دن اسے حقیقت معلوم ہوئی، اس دن ایک نئی منعام نے جنم لیا تھا۔ وہ نہ روئی تھی اور نہ ہی کوئی شکوہ کیا بلکہ اس نے یہ سارے جذبات اپنے اندر سنبھال کر رکھ لئے تھے تاکہ صحیح وقت پر وہ انہیں مطلوبہ شخص پر انڈیل سکے۔
”کیا میں جان سکتا ہوں کہ آپ کے والد کا کیا نام ہے؟“ اسعاد نے اس کی دستاویزات کے صفحات الٹتے سوال کیا تھا تو وہ اپنے خیالات سے چونکی تھی۔ وہ شاید اس کا شناختی کارڈ دیکھنا چاہتا تھا۔
”میرے شناختی کارڈ پر درج ہے، آپ دیکھ سکتے ہیں مگر کوئی فائدہ نہیں کیونکہ…….۔“ منعام کے سکون میں اپنی بات کے دوران ذرا برابر فرق نہ آیا تھا۔ اسعاد نے اس کی بات سنتے، اچانک ہی اس کی فائل بند کر دی تھی۔
”جب آپ کو لگے کہ اب آپ اپنے مقصد کے قریب ہیں تو تب بتا دیجیے گا۔“ جانے کیا سوچ کر اسعاد نے یہ بات کی تھی۔ آج سے پہلے اس نے کبھی بھی کسی نوزائیدہ وکیل کو یوں بغیر کسی کڑے انٹرویو کے اپنی فرم میں شامل نہ کیا تھا جیسے وہ آج یوں اچانک یہ فیصلہ لے گیا تھا۔ اس لڑکی کی باتوں میں بھلے سے ہی بغاوت کی بو تھی مگر اسے اس سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا تھا۔ چند مزید رسمی باتوں کے بعد وہ اس کی تقرری اپنی فرم میں کر چکا تھا۔
…………………………………………..

Leave a Comment