Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


خان حویلی کی رسوئی کی چمنیوں سے اٹھتا دھواں، کھانے کی تیاری کی خبر چہار سو پھیلا رہا تھا۔۔۔ چولہے پر چڑھے پکوانوں کی اشتہا انگیز مہک، حویلی کے مکینوں کی بھوک مزید بڑھا رہی تھی۔۔۔ نبیشہ بھی وہ خوشبو سونگھتے باورچی خانے تک چلی آئی تھی۔
”مورے کھانے میں کیا ہے آج؟“ نبیشہ نے باورچی خانے میں گھستے ہی چولہے پر موجود برتنوں کے ڈھکن ہٹاتے دریافت کیا تھا۔ اس کا انداز بتاتا تھا کہ اسے سخت بھوک لگ رہی ہے۔
”بھنڈی گوشت، یخنی پلاؤ اور بھنا ہوا قیمہ ہے۔“ مورے جو کہ ہمایوں اورکزئی کی بیوہ اور بسام اور آبگینے کی والدہ تھیں، انہوں نے ہلکا سا مسکرا کر، ایک نظر اسے دیکھتے جواب دیا تھا۔ انہیں گھر کے سب بچے ہی مورے کہتے تھے جبکہ بچوں کے والدین کیلئے وہ ادی مشرہ (ماں جیسی بڑی بہن) تھیں۔
”پلاؤ میں تو مرغی کا گوشت ہی ڈالا ہے نا؟“ نبیشہ نے منہ کے زاویے بگاڑتے ہوئے پوچھا کیونکہ بیف اور مٹن سے تو اسے ﷲ واسطے کا بیر تھا اور مرغی کے گوشت کے بنے کھانے وہ بنا بوٹی کے کھایا کرتی تھی۔
”بچے اختر وقت پر پہنچ نہیں سکا تھا تو بس آج اس پر ہی گزارا کر لیں۔“ انہوں نے سودا سلف کے کر آنگ والے ملازم کا ذکر کرتے اسے پچکارا تھا۔
”مورے آپ جانتی تو ہیں کہ میں نہیں کھا سکتی تو پھر بھی آپ ایسے کہہ رہی ہیں۔“ اس نے نروٹھے پن سے کہتے پاس پڑی کرسی پر جگہ سنبھالی تھی۔ اس کا لہجہ ضد یا ہٹ دھرمی کا تاثر دینے کی بجائے اپنے اندر بےچارگی سموئے ہوئے تھا کیونکہ اسے بہت بھوک لگی تھی۔
”میری جان! آج میں اپنی گڑیا کو اپنے ہاتھوں سے کھلاؤں گی۔“ مورے نے چپکے سے چولہے کے نیچے ڈھک کر رکھی پلیٹ اپنی جانب سرکاتے، اسے للچایا تھا۔ برتن دھوتی رقیہ اور پھیلاوہ سمیٹتی شاہدہ نے مسکرا کر یہ منظر دیکھا تھا۔ مورے کی اس سے والہانہ محبت کوئی ڈھکی چھپی بات نہ تھی۔
”رہنے دیں ادی مشرہ! اس نواب زادی کے نخرے تو کبھی ختم ہی نہ ہوں گے۔ اس کو بولیں کھانا ہے تو کھائے ورنہ بھوکی رہے اور یہ ٹشن اپنے بھگوڑے باپ کو دکھائے جا کر۔“ خائستہ اورکزئی نے باورچی خانے میں داخل ہوتے ہوئے اس نازک سی لڑکی کے دل کو ایک بار پھر اپنی زبان کے نشتروں سے چھلنی کیا تھا۔ وہ بچپن سے یہ درد سہتی آئی تھی مگر ہر بار نئے سرے سے تکلیف ہوتی تھی، جسے وہ ہمیشہ سنبھال کر رکھ لیتی۔ اسے بھی کسی کو یہ قرض سود سمیت چکانا تھا۔ اس کی اپنی سگی ماں اسے مخاطب ہی نہ کرتی تھی اور اگر کچھ کہتی بھی تھی تو سوائے نفرت کے کچھ بھی نہ تھا اس کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کیلئے۔ خائستہ کی باتوں پر جہاں باقی سب کی آنکھوں میں تاسف ابھرا تھا وہیں نبیشہ کی آنکھوں کی سرد مہری مزید بڑھی تھی۔
”مورے جب کھانا لگ جائے تو مجھے بلوا لیجیے گا، میں پچھلے باغیچے میں ہوں۔“ ماں کو پلٹ کر کوئی جواب دیئے بنا، وہ ان کی طرف دیکھے بغیر سپاٹ لہجے میں کہتی وہاں سے نکلتی چلی گئی تھی جبکہ خائستہ نے سر جھٹکتے اپنے لئے پانی کا گلاس بھر کر منہ سے لگایا جس کیلئے وہ یہاں آئی تھی۔
”خائس! یہ بہت بری بات تھی۔ تم کیوں اپنی ہی بیٹی کو ایک ناکردہ گناہ کی سزا دیتی ہو؟ کیا تم نہیں جانتی کہ شریعت کی رو سے کوئی بھی جان کسی دوسرے کا بھگتان نہیں بھگتے گی تو پھر یہ سب کیوں کرتی ہو تم؟“ مورے نے ہمیشہ کی طرح اسے سمجھانا چاہا مگر وہ سنی ان سنی کرتی پانی پی کر، خالی گلاس میز پر رکھتی چلی گئی تھی۔ یہ بھی ہمیشہ سے ہوتا آیا تھا کہ وہ جہاں جواب نہ دینا چاہتی تھی، وہاں خاموشی اختیار کر لیتی تھی اور اس کی یہ عادت نبیشہ نے اس سے بھی زیادہ پختگی سے اپنائی تھی۔ مورے نے دل مسوس کر اپنے ہاتھ میں پکڑی تھالی کو دیکھا تھا جس میں انہوں نے نبیشہ کی پسندیدہ بریانی بھر رکھی تھی جو کہ صرف اس کیلئے ہی بنی تھی مگر وہ جانتی تھیں کہ اب کم از کم آج کی تاریخ میں وہ یہ نہیں کھانے والی ہے۔ وہ ہمیشہ ماں کی پھٹکار سننے کے بعد خود کو ہی اذیت میں مبتلا کرتی تھی جیسا کہ وہ اب سب کیلئے بنا کھانا کھا کر کرنے والی تھی۔
”رقیہ تم قہوے کی تمام چیزیں ایک جگہ رکھ دینا۔“ مورے برتن دھوتی ملازمہ کو ہدایت کرتیں باہر نکل گئی تھیں۔ جانتی تھیں کہ جلد ہی اس کی ضرورت پڑنے والی ہے۔
…………………………………….

Leave a Comment