Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


کچھ ہی دیر میں خان حویلی کی بڑی سی طعام گاہ میں کھانا چن دیا گیا تھا اور اب حویلی میں موجود مکین کھانے کی میز پر بیٹھے خاموشی سے کھانا کھانے میں مگن تھے مگر مورے کا دھیان صرف اپنی تھالی میں قیمہ نکالتی نبیشہ پر تھا۔
”نبیشہ چندا! یہ بریانی بنوائی ہے تمہارے لئے۔“ کھانے کی میز پر دل کے ہاتھوں مجبور مورے نے ایک بار کوشش کرنا ضروری سمجھا تھا کہ شاید وہ اپنی طبیعت کے برخلاف یہ کھا لے۔۔۔ انہیں اس کا خیال تھا اور وہ اس وقت ہر احساس سے عاری ہوئی لگتی تھی۔
”نہیں مورے آج میں وہی کھاؤں گی جو سب کھا رہے، میں کوئی دنیا سے انوکھی تھوڑی ہوں۔“ اس کے لہجے میں تلخی نہ تھی بلکہ وہ سپاٹ انداز میں بات کر رہی تھی۔ ان کے مکالمے پر میز کے گرد بیٹھے سارے ہی نفوس ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔ بسام نے بھی ایک اچٹتی نظر نبیشہ پر ڈالی اور نظروں کا زاویہ واپس اپنے کھانے کی طرف موڑ لیا۔۔ وہ تاحال اس قصے کے موجب سے لاعلم ہی تھا سو کچھ خاص ردعمل ظاہر نہ کیا تھا۔ باقی سب نے بےچینی سے اسے دیکھا جو کہ بھنے ہوئے قیمے کے ساتھ چپاتی کھانے سے زیادہ نگل رہی تھی۔ صرف خائستہ اور بسام بےنیازی سے کھانے میں مصروف تھے جبکہ اس کے ہر نوالے کے ساتھ باقی سب کے حلق میں کھانا اٹک رہا تھا۔ شاہ زیب اورکزئی نے اشارے سے اپنی بھابھی سے معاملے کی بابت دریافت کیا تو جواباً مورے نے ابرو کی جنبش سے خائستہ کی طرف اشارہ کر دیا اور ایک لمحہ لگا تھا مقابل کو ساری بات سمجھنے میں۔ وہ ایک گہرا سانس بھر کر رہ گئے، جانتے تھے کہ اس وقت مزید کچھ بھی کہنے کا مطلب ہے، خائستہ کے غصے کو دعوت دینا اور آج تو اسے روکنے والا بھی کوئی نہیں تھا سو اس وقت خاموشی میں ہی عافیت تھی۔
”پلار جاناں(بابا جان) ترہ شہباز(تایا شہباز) کب آئیں گے؟“ کشمالہ نے باپ کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھا تھا۔ شہباز اورکزئی، بابا خان اور مادر مہر کے ساتھ کسی قریبی وادی میں مادر مہر کے کسی عزیز کی عیادت کو گئے تھے۔ کشمالہ کا یہ سوال بےمعنی نہ تھا کہ اگر ان تینوں کی موجودگی میں یہ واقعہ پیش آیا ہوتا تو وہ لوگ ہمیشہ کی طرح بڑے سبھاؤ سے اسے باتوں میں الجھا کر روک لیتے اور خائستہ بھی صرف ان تینوں کا ہی لحاظ کیا کرتی تھی مگر ابھی وہ لوگ جانتے تھے کہ کسی بھی بدمزگی کا مطلب تھا خائستہ کے ڈپریشن کے دورے کو بلاوا دینا جو کہ اکثر چیخنے چلانے پر اسے پڑ جایا کرتا تھا اور پھر ہفتہ دس دن تک اس کے اثرات جاری رہتے تھے اور اس کے عتاب کا نشانہ بھی صرف نبیشہ ہی بنا کرتی جو کہ اگر غلطی سے بھی اس کے سامنے آ جاتی تو وہ اس پر پل پڑا کرتی تھی۔
”بچے ان کی واپسی تو رات دیر تک ہی ہوگی، نبیشہ چندا! آج آپ کے ہاتھ کا قہوہ پینے کا بڑا من ہے، آپ بنا لاؤ میرے لئے ایک کپ۔“ بیٹی کو جواب دیتے، وہ نبیشہ سے مخاطب ہوئے تھے۔ انہیں اسے کھانے سے روکنے کا یہی ایک طریقہ نظر آ رہا تھا۔ نبیشہ ہاتھ میں پکڑی چپاتی پلیٹ میں رکھتے سر ہلا کر اٹھ گئی تھی۔ مورے نے انہیں تشکر بھری نظر سے دیکھا تھا۔
…………………………………………………

Leave a Comment