Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

کراچی کے ایک اعلی طبقے کے پوش علاقے میں رات پورے دل سے اتری تھی۔۔۔ وہاں موجود زیادہ تر گھروں کے مکین مختلف تقریبات یا ریستورانوں میں کھانا کھانے کے عادی تھے اور جو تھوڑے بہت گھروں میں موجود تھے، وہ اکیلے ہی ملازمین کی فوج کے سامنے رات کا کھانا نوش فرما رہے تھے۔۔۔ وہیں ایک گھر ایسا بھی تھا جہاں کے تمام مکین رات کا کھانا تناول کرنے کے بعد اب ایک ساتھ بیٹھے خوش گپیوں میں مصروف دکھائی دیتے تھے۔۔۔ بات مختلف موضوعات پر سے ہوتی ہوئی اس گھر کے اکلوتے وارث کی شادی پر آن ٹھہری جو کہ ہمیشہ اس موضوع سے کنی کترا جاتا تھا مگر آج اس کی والدہ الگ ہی موڈ میں تھیں جو اس کی ایک بھی نا سن کر اپنی بات منوانے کا مصمم ارادہ باندھ چکی تھیں۔
”مام!“ اسعاد نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہتے، اپنی نظریں سامنے چلتی سکرین پر جما دی تھیں جہاں کوئی فٹبال میچ چل رہا تھا۔
”کیا مام؟ اگلے مہینے ستائیس سال کے ہو جاؤ گے تم۔ تمہارے ساتھ کے لڑکے دو دو بچوں کے باپ بن چلے ہیں اور ادھر صاحب بہادر کو کوئی فکر ہی نہیں۔“ زرش نے روایتی ماؤں والا انداز اپنایا تھا۔
” مام! یہ لائن تو ویسے لڑکیوں کے لئے بولی جاتی ہے، آپ بھائی کو ایسے بول رہی ہیں جیسے وہ کوئی لڑکی ہوں۔ بگ بی! آپ ماما کی بات مان کیوں نہیں لیتے۔ مجھے بھی ایک پیاری سی بھابھی چاہئے ۔“  اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتا مصفی بولتی ہوئی آ کر بھائی کے ساتھ جڑ کر بیٹھ گئی تھی۔  اسعاد نے اسے ایک گھوری سے نوازا تھا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اب وہ ماں کے ساتھ مل کر اسے تنگ کرنے والی ہے۔
”اسے مت گھورو، وہ بالکل ٹھیک کہہ رہی ہے۔ مجھے اسی سال اس گھر میں بہو چاہیے۔“  زرش نے اسے گھرکا تو وہ بے بسی سے اپنے ڈیڈ کی طرف دیکھ کر رہ گیا مگر انہوں نے بھی معذرتی انداز میں شانے اچکا دیئے تھے کہ میں کیا کر سکتا ہوں، یہ تم ماں بیٹے کی بحث ہے۔  اس نے خود کو ہر طرف سے گھرا ہوا محسوس کیا، مطلب کوئی بھی اس وقت اس کا ساتھ دینے کو تیار نہ تھا۔  اس نے خود ہی میدان میں اترنے کی ٹھانی تھی۔
”مام آپ کو پتہ ہے کہ میں ابھی اپنی کمپنی کو ایک مقام تک لے کے جانا چاہتا ہوں اور اس سے پہلے میں شادی کے حق میں نہیں ہوں۔ ویسے بھی شادی کے لیے ایک لڑکی کی ضرورت ہوتی ہے جو کہ میرے پاس موجود نہیں ہے۔“ اسعاد نے سنجیدگی سے کہتے آخر میں پینترا بدلا تھا۔ وہ اپنی جیبیں جھاڑ رہا تھا جیسے کہ اس میں سے لڑکی کو برآمد کرنا چاہتا ہو۔
”میں آج بالکل بھی تمہاری باتوں میں نہیں آؤں گی اور تم میرے سامنے یہ مسخریاں مت کرو، کوئی تمہیں دیکھ کر کہہ سکتا ہے کہ تم ایک اتنے قابل وکیل ہو۔  ویسے بھی لڑکی میں خود ہی ڈھونڈ لوں گی کہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں ہے اس معاملے میں۔  تم پر رہی تو پھر تو کبھی بھی لڑکی نہیں ملنے والی۔“  زرش آج اس کی کلاس لینے کے فل موڈ میں تھی۔ انداز ایسا تھا کہ ابھی اسے دولہا بنا دے گی۔ دونوں باپ بیٹی مسکرا کر ماں بیٹے کی باتیں سن رہے تھے۔ اسعاد  نے ایک گہرا سانس بھرا تھا۔
”مام! مجھے بس تھوڑا سا وقت دے دیں پھر جو آپ کہیں گی میں وہی کروں گا۔“  اسے اس وقت اپنی جان چھڑانے کا یہی ایک واحد حل نظر آیا تھا۔
”ٹھیک ہے تمہارے پاس چھ ماہ کا وقت ہے اس کے بعد میں اپنی مرضی کروں گی اور تمہیں بالکل بھی کوئی بات کرنے کا موقع نہیں دوں گی۔“ زرش نے  اسے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا۔ اسعاد  کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ اسے تھوڑی مہلت مل گئی ہے۔  اس نے تو اتنی جلدی جان چھوٹ جانے پر ہی دل میں ہی شکر ادا کیا تھا۔۔۔ اسے کیا علم تھا کہ آنے والے چھ ماہ اسے کیا کیا دکھا دینے والے تھے۔
”مام! اگر اس دوران بھائی نے خود کوئی لڑکی پسند کرلی تو پھر؟“ مصفی نے سمٹنے والی بحث کو پھر سے شروع کر دیا تھا۔ اسعاد نے اسے ایک تیز نگاہ سے نوازا تھا۔ وہ شاید اپنے بھائی کی مزید درگت بنتے دیکھنا چاہتی تھی۔۔۔۔ وہ اسے نظرانداز کر کے ماں کی طرف متوجہ رہی۔
”لو اس سے اچھی اور کیا بات ہے کہ یہ خود ہی اپنے لیے اپنے جیون ساتھی کا انتخاب کر لے، میری مشکل تو آسان ہو جائے گی۔ ویسے بھی زندگی تو اسے ہی گزارنی ہے نا تو پھر اس کی مرضی تو شامل ہونی ہی چاہیے۔ میں چاہے لڑکی خود بھی ڈھونڈوں گی مگر اپنے بیٹے کی پسند کو تو مد نظر رکھوں گی ہی۔“ زرش کی بات پر اسعاد نے بہن کو زبان نکال کر دکھائی تھی جب کہ وہ ماں کی بات سن کر کافی بدمزہ ہوئی تھی۔  اس کا ارادہ تو بھائی کی مزید ٹانگ کھینچنے کا تھا۔  اس کے یوں منہ بنانے پر باقی تینوں نے قہقہ لگایا تھا۔
”تم اپنی کمپنی کے لیے کچھ نئے وکلا کا انٹرویو لے رہے تھے تو کیا ان کو فائنل کر لیا ہے؟“ انتصار صاحب گو کہ اپنا بزنس کرتے تھے مگر وہ پھر بھی وقتا فوقتا بیٹے سے بھی اس کی کمپنی کے بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔ ان کی بات پر اسعاد کو بے ساختہ وہ لڑکی یاد آئی جو آج انٹرویو کے لیے آئی تھی۔  اس لڑکی کی باتوں نے اس کو کافی حیران کیا تھا۔ ایک پل کو اس کے بارے میں سوچنے کے بعد وہ سر جھٹک کر باپ کی طرف متوجہ ہوا تھا۔
”جی ڈیڈ! کچھ  تقرریاں تو کی ہیں اور مجھے یقین ہے کہ وہ کمپنی کے لئے ایک اچھا اضافہ ثابت ہوں گے۔“ وہ اب اپنے ڈیڈ کو تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا جبکہ دونوں ماں بیٹی کافی پینے کے ساتھ ساتھ سامنے چلتی سکرین پر چلتا کوئی ٹاک شو بھی دیکھنے لگی تھیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment