Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


خان حویلی پہ رات اتری تو وہاں کے مکینوں کی فکر بھی مزید گہری ہوئی جو اس وقت نبیشہ کی بگڑتی حالت کی بدولت تھی۔
”بہت تنگ کرتی ہو تم، جب تمہیں پتا ہے کہ مٹن کھانے سے تمہاری طبیعت خراب ہوجاتی ہے تو تم نے کیوں یہ بیوقوفی کی؟ کس بات کی دشمنی نکال رہی ہو اپنے ساتھ؟ اپنی جان کی فکر نہیں ہے تو کچھ ہمارا ہی خیال کر لو۔ اپنی ماں کا غصہ تم خود پر نہیں بلکہ ہم پر اتارتی ہو۔ ماں کو فکر نہیں لیکن ہمیں تو ہے ناں تو کچھ ہمارا بارے میں ہی کچھ سوچ لیتی۔“ مادر مہر بستر پر دراز نبیشہ کو ڈپٹ رہی تھیں جبکہ اس کی خاموشی ہنوز برقرار تھی۔ وہ لوگ کچھ دیر پہلے ہی واپس لوٹے تھے اور آتے ہی انہیں نبیشہ کی طبیعت کا پتہ چلا تھا۔ اس وقت سب ہی اس کے کمرے میں جمع تھے۔ اسے ہمیشہ سے مٹن کھانے سے الرجی ہو جاتی تھی جو کبھی پیٹ خراب ہونے کی صورت میں تو کبھی مسلسل قے آنے کی صورت میں سامنے آتی تو کبھی اس کے جسم پر سرخ رنگ کے دھبے نمایاں ہونا شروع ہو جاتے اور اس کو شدید خارش شروع ہو جاتی تھی۔ اس وقت اس پر قے آنے کے ساتھ ساتھ شدید خارش کا بھی حملہ ہوا تھا۔ کچھ دیر پہلے ہی ڈاکٹر اسے دوا دے کر گیا تھا۔ انجیکشن لگنے کے بعد الرجی میں کافی افاقہ ہوا اور متلی میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوئی تھی مگر اس کی خاموشی ہنوز برقرار رہی۔
”مادر مہر یہ قہوہ!“ مورے ہاتھ میں ایک پیالہ لئے ان تک آئی تھیں۔ مہر بانو نے سر ہلاتے، ان سے پیالی لیتے، اپنا رخ نبیشہ کی طرف موڑتے، چمچ میں تھوڑا سا قہوہ بھر کر ہاتھ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ وہ منہ کھولے، چپ چاپ قہوہ پینے لگی تھی۔
”سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 195 کا مفہوم ہے، اور خرچ کرو ﷲ کی راہ میں اور اپنے آپ کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں مت ڈالو اور نیکی کرو بےشک ﷲ نیکی کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔“ وہ قہوے کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ بھر رہی تھی جب کمرے میں شہباز اورکزئی کی نرم و سنجیدہ سی آواز گونجی۔۔۔ سب ہی یکدم ان کی طرف متوجہ ہوئے تھے۔۔۔ نبیشہ کے کان بھی کھڑے ہوگئے۔۔۔ وہ یقینا یہ اس کیلئے ہی کہہ رہے تھے۔
”امام بخاری اور ابن ابی حاتم نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ ﷲ کے راستے (یعنی جہاد) میں خرچ کرنا چھوڑ کر اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ (بخاری، تفسیر ابن ابی حاتم)“ ان کی بات سے اکثریت کو ان کی گفتگو کا مقصد سمجھ میں نہ آیا تھا مگر ان کے اگلے چند جملے ان کی بات سارا مطلب واضح کر گئے تھے۔
”اس آیت کا عام حکم اور مفہوم بہت وسیع ہے۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اس میں اس امر کا ذکر ہے کہ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو ہلاکت میں مت ڈالو۔ مطلب یہ کہ ہر وہ کام جو آپ کیلئے یا آپ کے اردگرد رہنے والوں کیلئے آزار کا باعث ہو وہ منع ہے۔ ایک چیز مضر سخت ہے پھر بھی اسے استعمال کرنا خود کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ شراب، ہیروئین، چرس ہو یا سگریٹ چھالیہ وغیرہ مختلف بیماریوں کا سبب بنتے ہیں، یہ سب حرام ہیں۔ اسی طرح بیماری کی صورت میں حلال چیزیں بھی منع ہو جاتی ہیں۔ ایک شخص کو ہائی بلڈ پریشر ہے پھر بھی وہ نمک کھاتا ہے، ایک کو شوگر ہے مگر وہ میٹھی چیزوں سے پرہیز نہیں کرتا۔ یہ اپنے آپ کو مارنے کے مترادف ہے۔ یہ انفرادی طور پر ہلاکت کا بیان ہے جبکہ کچھ اعمال نا صرف ہمیں بلکہ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈال سکتے ہیں۔ آپ نے تیز رفتاری سے گاڑی چلائی اور کوئی حادثہ پیش آ گیا، آپ نے سڑک پر کچرا یا کیلیں ڈال دیں، آپ نے غلط پارکنگ کر کے راستہ تنگ کر دیا تو یہ اپنے ساتھ دوسروں کو بھی ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ مجموعی طور پر ہلاکت میں اور بھی بہت سے امور شامل ہیں مگر اس وقت میری بات کا مقصد اس طرف دلانا ہے کہ ہمارا جسم ہمارے پاس ہمارے رب کی امانت ہے اور ہماری جانوں کی حفاظت ہم پر لازم ہے تو پھر ہم کیونکر خود کو ایذا پہنچا کر رب ذوالجلال کے غضب کو دعوت دیتے ہیں۔ نبیشہ جانتی تھی کہ اس کیلئے مٹن کھانا کسی طور سود مند نہیں ہے مگر اس نے ضد میں آ کر وہ کھایا اور اپنے آپ کو تکلیف دی یعنی خود کو ہلاکت میں ڈالا۔ آپ کے خیال سے کیا یہ ٹھیک تھا بیٹا؟ خود کو تکلیف دینا بھی خودکشی جیسا ہی ہے اور خودکشی حرام ہے تو کیا آپ کو یہ زیب دیتا ہے کہ آپ اپنے رب کی عطا کردہ نعمت کی ناشکری کریں؟“ شہباز اورکزئی نے اپنے مخصوص دھیمے لہجے میں اپنی بات مکمل کی تھی۔ ان کی آخری بات پر نبیشہ کا سر شرمندگی سے جھکا تھا۔ باقی سب بھی چپ چاپ بیٹھے تھے۔ دروازے کے پار کھڑا بسام وہیں سے واپس لوٹ گیا تھا۔
”مجھے معاف کردیں کہ میری وجہ سے آپ سب کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ میں شرمندہ ہوں خان ماموں!“ چند پل کی خاموشی کے بعد نبیشہ کی نادم سی آواز کمرے میں گونجی تھی۔ مادر مہر اور مورے نے باری باری اس کی پیشانی چوم لی جبکہ شہباز اورکزئی اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کے پاس آئے تھے۔
”نبیشہ جاناں! میرا مقصد آپ کو شرمندہ کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ میں بس آپ کو ﷲ کی نافرمانی سے بچانا چاہتا ہوں۔ امید ہے کہ آپ دوبارہ شکایت کا موقع نہیں دیں گی۔“ شہباز نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اپنی بات مکمل کی تھی۔ نبیشہ نے جھٹ اثبات میں سر ہلایا تھا۔ اس کا سر تھپکتے شہباز اورکزئی اسے آرام کی ہدایت کرتے وہاں سے چلے گئے جبکہ نبیشہ کیلئے سوچوں کا ایک در وا کر گئے تھے۔ سب کے جانے کے بعد کب کے رکے آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر نکل آئے تھے۔۔۔۔ اسے رہ رہ کر اپنی بےوقوفی پر غصہ اور اپنی بےبسی پر رونا آ رہا تھا جو وہ ہر بار اپنی ماں کے طعنے سننے کے بعد محسوس کرتی تھی۔ وہ آج تک اپنی ماں کی بلاجواز نفرت کا ماخذ تلاش کرنے سے قاصر رہی تھی اور یہی چیز اسے ہر لمحہ، ہر پل بےچین کئے رکھتی مگر اسے علم ہی نہ تھا کہ اس حویلی میں کوئی اور بھی تھا جو اس کی ہر تکلیف، ہر درد اپنے اندر اترتا محسوس کرتا تھا مگر ابھی اظہار کی نوبت نہ آئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

Leave a Comment