Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


یہ اسلام آباد کے ایک وسیع و عریض مال کا منظر تھا۔۔۔ وہ تینوں خوش گپیوں میں مصروف آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے جب وہ بھوری آنکھوں والا لڑکا یکدم ٹھٹھک کر رک گیا تھا۔
”یار دیکھو یہ وہی دریا والی لڑکیاں ہیں نا جو اس دن ہماری ریس کے بیچ بھی آگئی تھیں۔“ اس لڑکے کی بات پر باقی دونوں نے بھی اس جانب دیکھا تھا جہاں زرلش اور زرشالہ کسی مرد کے ساتھ کھڑی تھیں۔
”یہ شخص شاید انہیں تنگ کر رہا ہے۔“ غور کرنے پر پتا چلا کہ وہ لوگ بات نہیں کر رہے تھے بلکہ کسی بات پر الجھ رہے تھے۔ وہ لوگ خریداری کی غرض سے اس وقت اسلام آباد کے ایک مال میں موجود تھے۔
”کہاں جا رہے ہو؟“ سیاہ آنکھوں والے کے آگے بڑھنے پر پیچھے سے اس کے دوست نے ہانک لگائی تھی مگر وہ کچھ بھی کہے بنا اس طرف بڑھ گیا جہاں وہ لڑکیاں کھڑی تھیں۔ ان دونوں نے بھی اس کی پیروی کی تھی۔
”مس کوئی مسئلہ ہے کیا؟“ اس نے ان کے پاس پہنچ کر وہاں کھڑے مرد کو نظر انداز کرتے ہوئے، زرلش کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔
”او ہیرو! زیادہ اپنی ہیرو گیری نہ دکھا، منگ ہے یہ میری بچپن کی۔ اب میں چاہے اسے تنگ کروں یا ویسے ہی بات کروں، تجھے کیا تکلیف ہے؟ چل بے پُھٹ لے یہاں سے۔“ اس شخص کا لہجہ ہی بتانے کو کافی تھا کہ وہ کس قدر تہذیب یافتہ ہے۔ اس کے انداز پر مقابل کا غصہ عود کر آیا تھا۔ دونوں لڑکیوں کے چہرے بھی سفید پڑے تھے۔
”مسٹر یہ تمہارے گاؤں کا کوئی بازار نہیں ہے جہاں تم اپنی غنڈہ گردی دکھا سکتے ہو۔ یہ شریف لوگوں کا شہر ہے اور یہاں پر ہم کسی کو بھی کسی کی عزت پر ہاتھ ڈالنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ان لڑکیوں کی چپ ہی تمہارا پول کھول رہی ہے۔ تمہارے لیے بہتر یہی ہے کہ چپ کر کے یہاں سے چلے جاؤ ورنہ مجھے مجبوراً دوسرا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔“ اس نے اس شخص کی دھمکی کو خاطر میں لائے بنا اسے اپنے ارادوں سے آگاہ کیا تھا۔ باقی سب خاموش تماشائی بنے تھے۔
”نہیں جاتا تو پھر بتاؤ کیا کر لو گے؟ تم میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے، تم جانتے نہیں کہ میں کون ہوں؟“ اس شخص کا شرافت سے ماننے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔
”جانتے تو تم بھی نہیں ہو کہ تم کس سے بات کر رہے ہو؟“ اس بار اس کا لہجہ بھی کافی سرد تھا۔۔۔ سیاہ آنکھوں میں ایک تپش بھرا تاثر ابھرا تھا۔
”تم اس ملک کے وزیراعظم بھی ہو، تو بھی میں تم سے نہیں ڈرتا۔“ وہ شخص ان کی توقع سے زیادہ ڈھیٹ تھا۔ اس نے اس بار کچھ بھی کہے بنا، دور کھڑے ایک سکیورٹی گارڈ کو اشارہ کیا تھا۔  تھوڑی ہی دیر بعد اس شخص کی مزاحمت کو رد کرتے وہ سکیورٹی گارڈز اسے وہاں سے لے گئے تھے۔
”بہت بہت شکریہ آپ کا! آپ ایک اچھے انسان ہیں۔“ اس شخص کے جاتے ہی وہ بھی اپنے دوستوں کے ساتھ واپس جانے کو مڑ گیا تھا جب زرشالہ کی آواز پر اس کے قدم زنجیر ہوئے تھے۔
”کسی کے بارے میں اتنی جلدی اندازہ نہیں لگا لیتے۔“ اس کا جواب ان لڑکیوں کی توقع کے برعکس تھا جب کہ اس کے دوست جانتے تھے کہ وہ ایسا ہی کوئی الٹا جواب دے گا، ان کے لبوں پر دبی دبی مسکان ابھری تھی۔
”آپ کو مصیبت میں پھنسنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں آتا؟“ وہ جو ایک بار پھر واپس مڑ چکا تھا اپنے بھوری آنکھوں والے دوست کی بات پر وہ اسے ایک گھوری سے نواز کر رہ گیا تھا۔
”بالکل ویسے ہی جیسے آپ کے دوست کو ہر جگہ ہیرو بن کر آنے کے علاوہ اور کوئی کام نہیں ہے۔“ زرشالہ کے جواب سے لگتا تھا کہ اسے اس کا سرد رویہ کچھ خاص پسند نہیں آیا تھا۔
”اسے بننے کی ضرورت ہی نہیں وہ بنا بنایا ہیرو ہے۔“ اس بار اس کے دوسرے دوست نے اس کا دفاع کیا تھا۔
”میرے خیال سے ہم ان فالتو باتوں کے لیے ادھر نہیں آئے ہیں۔“ اسے نہ تنقید سے فرق پڑا تھا نہ تعریف سے، ان کی باتوں سے قطع نظر وہ اپنے دوستوں کو چلنے کا کہہ رہا تھا۔
”بائے لیڈیز! ہم پھر ملیں گے۔۔۔ لگتا ہے کہ یہ سلسلہ اب طویل ہونے والا ہے۔“ بھوری آنکھوں والے نے مسکرا کر زومعنی انداز میں کہتے وداع لی تھی۔
”کیا میں آپ کے نام جان سکتی ہوں؟“ زرشالہ کی آواز پر سیاہ آنکھوں والا ایک گہرا سانس بھر کر رہ گیا تھا، جانتا تھا کہ اب تعارف کے بنا اس کا دوست یہاں سے نہیں ہٹے گا مگر اس نے رکنے کے بجائے اپنے قدم واپس موڑ لیے تھے اور کچھ دور جا کر ان دونوں کا انتظار کرنے لگا تھا۔
”بالکل! میرا نام اسامہ اورکزئی ہے، یہ ہمارا دوست انتصار بنگش ہے اور وہ وہاں جو کھڑوس کھڑا ہے اس کا نام شہباز اورکزئی ہے۔“ اسامہ نے دانت نکوستے اپنا تعارف کروایا تھا۔ اس کی بھوری آنکھیں شرارت سے بھرپور تھیں۔
”اس کا مطلب کے آپ جہانداد اورکزئی کے بیٹے ہیں؟“ اس لڑکی نے لہجے میں دبا دبا جوش لئے پوچھا تھا۔
”آپ بابا خان کو جانتی ہیں؟ وہ میرے تایا ہیں اور وہ جو اپنی کالی سیاہ آنکھوں سے مجھے گھور رہا ہے، وہ ان کا بیٹا ہے۔“ اسامہ نے سوال پوچھنے کے ساتھ اسے جواب بھی دیا تھا۔
”جہانداد اورکزئی کو کون نہیں جانتا۔ میں دلشاد خان آفریدی کی بیٹی ہوں اور یہ میرے چچا نوشاد خان آفریدی کی بیٹی ہے۔“ زرشالہ نے بھی جھٹ اس سے اپنا تعارف کروایا جس پر اسامہ کے چہرے کی رنگت میں واضح تبدیلی آئی تھی۔
”اوہ تو آپ دشمنوں کے قبیلے سے ہیں۔“ اسامہ اورکزئی نے بنا کسی لگی لپٹی کے تبصرہ کیا تھا۔
”تو آپ کونسا دوستی میں کوئی اعلی مثالیں قائم کر رہے ہیں۔“ زرشالہ نے بھی اسی کے انداز میں جواب دیا تھا۔ اسامہ نے زرشالہ کے جواب پر اوہ کے انداز میں ہونٹ سکوڑ کر اسے دیکھا تھا۔ اس ساری گفتگو کے دوران زرلش سپاٹ تاثرات کے ساتھ ادھر کھڑی رہی تھی۔
”اسامہ!“ وہ دونوں مزید کسی بحث میں الجھتے، اس سے پہلے ہی انتصار کی پکار پر وہ مڑا جو اسے چلنے کا اشارہ کر رہا تھا جبکہ شہباز شاید پہلے ہی ادھر سے جا چکا تھا کہ وہ کچھ دیر پہلے والی اپنی جگہ پر موجود نا تھا۔
”چلتا ہوں۔ امید ہے کہ آئندہ آپ خود ہی اپنے مسائل کا حل تلاش لیں گی۔“ اسامہ نے جانے کی بات کرتے ساتھ ہی خفیف سا طنز کرنے سے گریز نا برتا تھا۔ اس کی بات پر زرشالہ کی بھنویں تنی تھیں۔
”احسان کرنے کے بعد جتانا، کم ظرف لوگوں کی نشانی ہے۔“ اب کی بار زرلش نے خاصے تیکھے لہجے میں کہتے ساتھ ہی زرشالہ کا ہاتھ تھام کر ایک جانب چلنا شروع کر دیا تھا۔ اسامہ تو اس لڑکی کی جرات پر ہی سلگ اٹھا مگر انتصار کے ایک بار پھر پکارنے پر وہ حساب کتاب کو پھر پر اٹھاتا انتصار کی طرف بڑھ گیا تھا۔
___________________

Leave a Comment