Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel



”ﷲ اکبر!“ اسپتال کے ایک کمرے میں کھڑے اس شخص نے اپنے سامنے لیٹے وجود کی حالت زار پر دل ہی دل میں اپنے رب کی کبریائی کا اعتراف کیا تھا۔ وہ بےشک ہر چیز پر قادر ہے۔ بستر علالت پر موجود یہ شخص کبھی اس کی زندگی کا محور رہا تھا مگر آج مقابل کے دل میں اس شخص کیلئے محبت تو دور رحم کی ذرا برابر رمق بھی موجود نہ تھی۔ وہ اس پر ترس بھی نہیں کھا سکتا تھا کہ اسے دینے کیلئے اس کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔۔۔ معافی بھی نہیں! اس کا جرم ایسا تھا کہ اس شخص کے نزدیک یہ سزا بھی اس کیلئے کافی نہ تھی۔
“غوں۔۔ غ۔۔ غوں۔۔” اس شخص کی غوں غاں سے وہ اپنی سوچوں کی دنیا سے باہر نکلا تھا۔ اس نے کرب سے بےزبان بنے اس شخص کو دیکھا جو کبھی بولتا تھا تو سامعین مسحور ہو کر اسے سنا کرتے تھے اور آج وہ لاکھ کوشش کے باوجود ایک بھی لفظ اپنی زبان سے ادا کرنے سے قاصر تھا۔ اس شخص کی آنکھوں سے بہتے آنسو اس کے جذبات کے اظہار کا واحد راستہ تھے اور مقابل اچھے سے جانتا تھا کہ یہ یقیناً ندامت کے آنسو تھے جو اس کیلئے معافی کے طلبگار تھے مگر وہ ابھی خود میں اتنا ظرف نہ پاتا تھا کہ ان آنسوؤں کو پذیرائی بخشتے، وہ انہیں قبولیت کی سند دے پاتا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ان آنکھوں کی نمی کو پونچھنا چاہا جو کبھی اسے دیکھ دیکھ کر جیتی تھیں مگر پھر کچھ یاد آنے پر وہ لب بھینچتے ہاتھ واپس موڑ گیا۔ بےبس پڑے اس وجود کی آنکھیں اس کے اس عمل پر مزید ابل پڑی تھیں۔ اس نے یہ منظر دیکھ کر ہی اپنا رخ موڑتے، ضبط کے باوجود بھی آنکھوں سے پھسل آنے والے چند آنسوؤں کو انگلی کی نوک سے بےدردی سے صاف کیا تھا۔
”مجھے معاف کر دیجئے گا مگر آپ کا گناہ ایسا بالکل نہیں جسے میں کبھی بھول جاؤں۔ آپ کی یہی سزا ہے کہ آپ کو معافی نہ ملے۔“ اس نے دل ہی دل میں اس شخص کو مخاطب کرتے قدموں کا رخ باہر کی جانب موڑا تھا۔ پیچھے رہ جانے والے میں اتنی بھی سکت نہ تھی کہ اس کے پیر پکڑ کر معافی مانگنے کی خواہش کو عملی جامہ پہنا پاتا مگر سوال یہ تھا کہ کیا وہ وجود اس حال میں ہوتا کہ دنیا کو اپنے قدموں تلے روند ڈالے تو کبھی اسے معافی کا خیال آتا؟ شاید نہیں یقیناً وہ ایسے کسی عمل کے بارے میں سوچتا بھی نا۔ اس سے پہلے کہ وہ ہاتھ بڑھا کر دروازہ کھولتا، وہ خود بخود ہی کھلتا چلا گیا اور آنے والے کو دیکھ کر جہاں باہر نکلنے والا وجود پتھر کا ہو گیا، وہیں نووارد کا دل بھی کسی نے مٹھی میں لیا تھا۔ لمحوں کا کھیل تھا اور جانے والا اپنے دل کو مار کر مقابل کے دل پہ پاؤں رکھتا وہاں سے نکلتا چلا گیا تھا۔
____________________

Leave a Comment