Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


وہ دونوں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے، اسامہ کی زبان اس سے بھی زیادہ تیزی سے فراٹے بھر رہی تھی۔۔۔ وہ تو زرلش کی بات پر جلا بھنا چپ ہونے کا نام ہی نہ لے رہا تھا۔
”ہمت دیکھو اس لڑکی کی ذرا، ہر بار مدد پانے کے بعد بھی کیسے ہمیں کم ظرف بول گئی ہے۔ مجھے تو لگتا تھا کہ اس کے منہ میں زبان ہی نہیں ہے جبکہ یہ تو میری سوچ سے بھی زیادہ تیز ہے۔“ انتصار کو سارا قصہ سنانے کے ساتھ ہی وہ زرلش کی مدح سرائی بھی کر رہا تھا۔ اسامہ کو ابھی تک اس کی بات ہضم نا ہو رہی تھی۔ وہ دونوں شہباز کی تلاش میں ادھر ادھر گھوم رہے تھے جو کہ مل کر ہی نا دے رہا تھا۔
”ہمیں نہیں صرف تمہیں کہا ہے اس نے جو بھی کہا ہے۔ ویسے بھی تمہیں ہی شوق تھا تعارف کروانے کا۔“ انتصار نے اس کی حالت سے حظ اٹھاتے، مسکراتے لہجے میں اسامہ کی ٹانگ کھینچی تھی۔
”یہ شہباز کدھر چھپ گیا ہے اب؟“ اسامہ نے انتصار کی بات پر اسے ایک گھوری سے نوازتے، جھنجھلائے ہوئے لہجے میں کہا تھا۔ انتصار اس کے یوں ایکدم بات بدلنے پر ہنس پڑا تھا۔
”فون کرو اسے۔“ ایک دو دکانیں مزید کھنگالنے کے بعد اسامہ نے اپنی جیبیں ٹتولتے، انتصار سے کہا تھا۔
”وہ فلیٹ کیلئے نکل چکا ہے۔ کہہ رہا ہے کہ جب تعارفی مراحل اچھے سے طے کر لو تو خود ہی آ جانا۔“ انتصار نے شہباز سے بات کرنے کے بعد مسکراتے لہجے میں اسے آگاہ کیا تھا۔
”یارررر! لگتا ہے میرا فون گاڑی میں ہی رہ گیا ہے۔ دعا کرو بس کوئی ‘ضروری’ فون نا آئے۔“ اسامہ کو اس کی بات سنتے ہی اپنی پڑی تھی۔۔۔ اس نے لفظ ضروری پر زور دیتے ہوئے کہا تھا۔۔۔ وہ تینوں ایک ہی یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم تھے اور ان کی دوستی بھی کافی گہری تھی مگر شہباز، اسامہ کی نت نئی لڑکیوں سے دوستی پر اکثر اس سے خائف رہا کرتا تھا۔ ان دونوں کے بیچ اکثر اس موضوع پر بحث بھی ہو چکی تھی مگر بات بڑھنے سے پہلے ہی انتصار ان کے بیچ ثالث بن کر آ جاتا تھا۔ آج کل بھی اسامہ کی ایک دوسرے شعبہ کی لڑکی سے بات چیت چل رہی تھی جس سے شہباز تاحال لاعلم ہی تھا مگر اب اس کے فون کا شہباز کی گاڑی میں ہونا، اسامہ کیلئے خطرے کی گھنٹی بجا گیا تھا۔۔۔۔ وہ بلاشبہ ایک سلجھا ہوا انسان تھا مگر اس کی لڑکیوں کے پیچھے بھاگنے کی عادت شہباز کو سخت ناپسند تھی اور یہی بات ہمیشہ ان کے بیچ اختلاف کی وجہ بنی تھی وگرنہ ان تینوں کی مثال دو جان کی بجائے تین جان، یک قالب والی تھی۔
”تمہارا علاج بھی یہی ہے بیٹا!“ انتصار نے اس کے ہوائیاں اڑتے چہرے سے حظ اٹھاتے، اسے چھیڑا تھا۔
”تم تو پکے میرے دشمن ہو۔ بیٹا اگر اس بار شہباز سے میرا آکڑہ ہوا ناں تو تیری پول کھولنے میں بھی چند ہی منٹ لگاؤں گا میں۔“ اسامہ نے اسے خونخوار تیوروں سے دیکھتے، تنبیہی لہجے میں دھمکی دی تھی۔

”بیٹا تُو اپنی خیر منا۔ ابھی تو مجھے دھمکانے کی حالت میں نہیں ہے۔ اس وقت شہباز کو تیرے کرتوتوں سے لاعلم رکھنے کا ذریعہ میرے ہاتھ میں ہے۔“ انتصار نے اپنے ہاتھ میں پکڑا فون اس کے سامنے لہراتے، طنزیہ انداز میں کہا تھا۔ جواباً اسامہ نے اس کی بات سمجھتے، اسے ایک تیز گھوری سے نواز کر اس کے ہاتھ سے فون جھپٹا تھا۔
”ہیلو شائنہ! یار وہ میرا فون شہباز کی گاڑی میں رہ گیا ہے۔ میں نے سوچا کہ تمہیں بتا دوں کہ کہیں تم میرا فون نا اٹھانے پر پریشان ہی نا ہو جاؤ۔“ اگلے ہی پل وہ انتصار کے فون سے اپنی تازہ ترین سہیلی کو صورتحال سے آگاہ کر رہا تھا مگر اسے خود بھی علم نا تھا کہ وہ درحقیقت اپنے پیروں پر کلہاڑی مار رہا ہے۔ کچھ دیر یونہی بےمقصد مال میں ادھر ادھر گھومنے کے بعد وہ لوگ بھی فلیٹ بلکہ مصیبت کی طرف روانہ ہو گئے تھے۔
____________________

Leave a Comment