Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel



ملو جو مجھ سے
میں جان واروں
گلے کیا کرنے ہیں زندگی سے
میں تم کو دیکھوں
تو شعر لکھوں
میرے سخن کا کمال ہو تم
سائرہ ناز
……………………..

خان حویلی پر آج پھر ایک خاموش دوپہر اتر آئی تھی۔۔۔ حویلی میں موجود نفوس اس وقت اپنے اپنے کمروں میں محو استراحت تھے۔۔۔ مگر آج ایک بےچین روح اکیلے ہی کسی کو بنا بتائے ان راہداریوں میں گھوم رہی تھی جہاں سالوں پہلے بہت سے راز دفن ہو گئے تھے۔۔۔ایسے راز جن پر سے پردہ اٹھتے ہی اس حویلی کے درودیوار میں ایک بھونچال سا آ جانا تھا۔
”آج تو میں اس کمرے کا راز جان کر ہی رہوں گی۔“ نبیشہ بھری دوپہر میں سب کے آرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں جانے کے بعد پھر سے اپنے مشن پر نکل آئی تھی۔ آج وہ اکیلے ہی اس مہم پر نکلی تھی کہ آبگینے مادر مہر کے ساتھ ان کے کسی عزیز کی عیادت کو گئی تھی اور کشمالہ سکول سے آتے ہی بخار کی وجہ سے نیند کی وادیوں میں اتر چکی تھی۔ نبیشہ نے ان دونوں کی غیر موجودگی میں اکیلے ہی آج یہ معرکہ سر کرنے کی ٹھان لی تھی۔ وہ اپنے گردوپیش پر طائرانہ نگاہ دوڑاتے، دبے قدموں سے چلتے راہداری کے آخر میں بنے کمروں تک پہنچ چکی تھی۔ منزل بس کچھ ہی قدموں کی دوری پر تھی۔ وہ ہاتھ میں دبے چابیوں کے گچھے سے ایک بار پھر دروازے پر پڑے تالے سے طبع آزمائی کرنے لگی تھی۔ آٹھ دس چابیاں لگانے کے بعد تالا یکدم کھٹاک کی آواز سے کھل گیا۔۔۔۔ اپنی اچانک کامیابی پر نبیشہ کا دل یکدم دھک سے رہ گیا۔۔۔ اس نے اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر بمشکل خوشی سے بلند ہوتی اپنی چیخ کا گلا گھونٹا کہ اس کی ذرا سی بے احتیاطی اس کیلئے مشکل کا باعث ہو سکتی تھی۔ اس نے ایک بار پھر سنسان پڑی راہداری میں ایک محتاط نگاہ دوڑاتے، تالے کو کنڈے سے باہر نکالا تھا۔ ہولے ہولے کنڈی کھولتے نبیشہ نے دروازہ وا کیا تو فضا میں گونجنے والی چرر کی آواز پر ایک بار پھر ادھر ادھر دیکھتے، وہ چھپاک سے کمرے میں گھس گئی تھی۔ کمرہ پوری طرح اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ کھڑکیوں کے بند کواڑوں پر پردے گرے تھے سو روشنی کیلئے کوئی بھی روزن میسر نا تھا۔ راہداری سے آتی ملگجی سی روشنی بھی کمرے کا منظر واضح کرنے میں ناکام رہی تھی۔ ایک عرصے سے بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں ایک عجیب سی بو رچی ہوئی تھی۔ دو قدم مزید آگے بڑھنے پر نبیشہ کو ایک عجیب طرح کے احساس نے اپنے حصار میں لیا تھا۔ اسے یوں لگا تھا جیسے اس کمرے کی فضا میں رچی باس کسی کے خون کی ہو۔ اس خیال کے آتے ہی اس کے اندر ایک سرد سی لہر دوڑی تھی۔ کوشش کے باوجود بھی اس کی آنکھیں کمرے کی کسی بھی شے سے مانوس نا ہو پائی تھیں۔ اس نے دھڑکتے دل کے ساتھ ہاتھ میں پکڑے موبائل کی ٹارچ روشن کی تھی۔ سامنی دیوار پر روشنی پڑتے ہی اسے ایک دیوار گیر تصویر کا ہیولہ سا دکھائی دیا۔ نبیشہ نے آگے بڑھ کر اس تصویر کو دیکھنا چاہا مگر یکدم کسی چیز سے ٹکرانے پر اس کے ہاتھ سے موبائل چھوٹ کر نیچے جا گرا تھا۔ اسی پل ایک اور سایہ کمرے کے چوپٹ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوتے دروازہ نیم وا کر گیا تھا۔ نبیشہ جھک کر موبائل فون تلاشنا چاہتی تھی جب کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ اس نے اپنے پیچھے کسی کی موجودگی محسوس کرتے یکدم اپنا سانس حلق میں اٹکتا محسوس کیا تھا۔ پیچھے کھڑا وجود اسے جھٹکے سے اپنی طرف کھینچتا دیوار سے لگا گیا تھا۔ نبیشہ کے حلق سے بےساختہ برآمد ہونے والی چیخ نووارد نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ کر اندر ہی دبا دی تھی۔
”منع کیا تھا ناں کہ باز آ جاؤ اپنی حرکتوں سے مگر تمہیں کوئی اثر نہیں ہوا۔“ ٹھنڈے لہجے میں کی گئی شکایت سے زیادہ اس شخص سے اس قدر قربت پر نبیشہ کی جان ہوا ہوئی تھی۔ اس کا بھاری مردانہ ہاتھ ابھی بھی نبیشہ کے منہ پر جما تھا۔ نبیشہ نے اپنے ہاتھوں کی مدد سے اس کا ہاتھ ہٹانا چاہا تو بسام نے اس کے دونوں ہاتھوں کو اپنے دوسرے ہاتھ کی گرفت میں لیا تھا۔ نبیشہ اس کی مضبوط پکڑ میں پھڑپھڑا کر رہ گئی تھی۔ اسے اپنا دم گھٹتا محسوس ہوا تھا۔
”بابا خان اور چاچا خان کی وجہ سے ہی اب تک بچی ہوئی تھی تم مگر آج تم نے اپنی حد پار کر لی ہے۔ اب تمہیں اپنے کئے کا بھگتان تو بھگتنا ہی ہوگا۔ بہت کر لی تم نے اپنی من مانی، اب وہ ہوگا جو میں چاہوں گا۔“ بسام کی تنبیہ پر نبیشہ کی ریڑھ کی ہڈی میں ایک سرد سی لہر دوڑی تھی۔ اس نے ایک بار پھر بھرپور مزاحمت کرتے خود کو اس کی گرفت سے آزاد کروانا چاہا مگر وہ اس بار بھی ناکام ٹھہری تھی۔ مارے بےبسی کے اس کی آنکھوں سے دو آنسو ٹوٹ کر بسام کے ہاتھ پر گرے تھے۔ اپنے ہاتھوں پر پھیلتی نمی پر بسام نے بڑی توجہ سے اس کے چہرے پر نگاہ دوڑائی تھی مگر ادھ کھلے دروازے سے لکیر کی صورت میں آتی ملگجی سی روشنی کوئی بھی منظر واضح کرنے میں ناکام رہی تھی۔ بسام نے اس کے ہونٹوں سے ہاتھ ہٹا کر اس کے ہاتھوں کو بھی اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا۔ نبیشہ سر جھکا کر گہرے گہرے سانس بھرنے لگی تھی۔
”کیوں اپنے ساتھ ہی دشمنی پر تلی ہو؟ جانتی ہو نا کہ اپنے ساتھ ساتھ تم مجھے بھی بےسکون کرتی ہو اپنی ان جسارتوں کی وجہ سے۔ راکھ میں دبی چنگاریاں اڑانے سے تم اپنے ہی ہاتھ جلا لو گی۔ ماضی کے گرد آلود پنوں سے خاک جھاڑ کر تمہیں سوائے اذیت کے کچھ نہیں ملے گا۔ سچائی کس قدر دردناک ہے، یہ تم جان لو گی تو اپنی لاعلمی کے ایک نعمت ہونے پر یقین لے آؤ گی۔ کیوں نہیں مانتی تم یہ بات؟ کیوں خود کو آزار پہنچانے کے بہانے ڈھونڈتی ہو تم؟“ بسام نے اس کے گرد دونوں بازو دیوار پر جماتے، اس کی پیشانی سے اپنی پیشانی ٹکا کر، تکان زدہ سے لہجے میں کہا تھا۔ نبیشہ تو اس درجہ نزدیکی پر ہی انگشت بدنداں تھی۔ بسام کا یہ گھمبیر انداز اس کی جان لینے کے درپے ہوا تھا۔ اس نے کہاں دیکھا تھا اس کا یہ روپ! ہمیشہ سے دوٹوک اور سرد انداز میں بات کرنے والا بسام، اس وقت التجائیہ انداز اپنائے، اسے ان دیکھی تکلیفوں سے بچانے کا جتن کر رہا تھا۔ نبیشہ تو اس کے اطوار دیکھتے ہی ادھ موئی ہوئی تھی۔ کیا وہ ان دونوں کے بیچ موجود رشتے کے زیرِ اثر یہ سب کہہ رہا تھا یا پر اسے سچ مچ اس کی فکر تھی۔
”تم کیوں پرسکون نہیں رہتی نبیشہ بسام؟ کیوں اپنے ساتھ مجھے بھی مشکل میں ڈالتی ہو؟ کیوں مجھے سختی پر مجبور کرتی ہو؟ چھوڑ دو یہ بےسود کوششیں جو سوائے آزار کے تمہیں کچھ نا دیں گی۔ چھوڑ دو اب یہ جذباتیت۔“ بسام کی آواز اسے اس کی سوچوں سے کھینچ کر باہر لائی تھی۔ اس نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسو پونچھتے سر اٹھا کر اسے دیکھنا چاہا تھا مگر ناکام ٹھہری تھی۔
”میں کیا کروں کہ میرے اندر اٹھتے سوال مجھے سکون نہیں لینے دیتے۔۔۔ کوئی میری تکلیف کیوں نہیں سمجھتا۔۔۔۔ کوئی میرے سوالوں کے جواب میں کچھ کہتا کیوں نہیں؟ میرے اندر بھانبھڑ سے جلتے ہیں جو عنقریب مجھے جلا کر راکھ کر دیں گے۔ سب کہتے ہیں کہ میں جذاتی ہوں مگر کوئی یہ کیوں نہیں سوچتا کہ میں اگر جذبات میں بہہ جانے والی ہوتی تو بچپن سے اپنی ماں کی زبان سے چلتے نشتروں پر زباں بندی کی حدود میں گشت نا کرتی رہتی بلکہ انہیں پلٹ کر جواب دیتی کہ اگر میرا باپ بھگوڑا ہے تو اس میں میرا کیا قصور ہے۔ ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک میں نے اپنی ماں کے منہ سے اپنے لئے کوئی تعریفی کلمہ نہیں سنا۔ کوئی تحسین، کوئی داد میرے حصے میں نہیں آئی۔ میری ماں میرے باپ کو بھگوڑا کہتی ہے مگر مجھے اس کے بھاگنے کی وجہ کیوں نہیں بتاتیں وہ؟ طنز و تشنع کے تیر چلانے والی زبان میرے سوالوں کے جواب میں چپ کیوں سادھ لیتی ہے؟“ نبیشہ نیم اندھیر کمرے میں پہلی بار کسی سے اپنے دل کی بات کہہ رہی تھی۔ جو کام طاقچوں سے پھوٹتی ضوفشاں نا کروا پائی تھی وہ راہداریوں کی تاریکی نے کروا لیا تھا۔ ایک دوجے سے بےنیاز رہنے والے وجود، ایک دوسرے کو اپنا حال دل کہنے لگے تھے۔ ایک کے لہجے میں حقیقت کے عذابوں کی فکر پنہاں تھی تو دوسرے کی زبان اپنی اذیت کا فسانہ سنا رہی تھی۔
”خائس جاناں کی باتوں پر کڑھنا چھوڑ دو تم کہ اسے ہم چاہ کر بھی نہیں بدل سکتے۔ ان کی زبان کی حلاوت کو حالات کی تلخی نے دیمک زدہ کر دیا ہے۔ تم بس یہ تمام بےسود کوششیں ترک کر دو۔“ بسام نے اسی حالت میں کھڑے اپنی بات کہی تھی۔ بس اس کا داہنا ہاتھ دیوار سے سرکتا نبیشہ کے سر پر آن ٹھہرتا، اس کے بالوں کو ہولے سے سہلانے لگا تھا۔ اپنی اپنی سوچوں میں گھرے، وہ دونوں ہی اپنے بیچ بڑھتی نزدیکیوں سے بےنیاز دکھتے تھے۔
”ٹھیک ہے میں دوبارہ نہیں کروں گی ایسی کوئی بھی کوشش مگر پھر مجھے میرے تمام سوالوں کے جواب خود ہی دے دیں۔ جب مجھے گھر کے اندر سے جواب ملیں گے تو میں کیوں ان سنسان راہداریوں میں بھٹکوں گی؟“ نبیشہ نے اپنے بالوں میں سرسراتا بسام کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں جکڑ کر گویا التجا کی تھی۔
”لازمی نہیں کہ زندگی میں ہمیں ہمارے ہر سوال کا جواب مل جائے۔ جو ماضی میں دفن ہے، اس کو بھول کر حال سے خوشیاں کیوں نہیں کشید کرتی تم؟“ بسام نے رسانیت سے کہتے ایک بار پھر اسے قائل کرنا چاہا تھا۔
”میرا ماضی مجھے میرے حال میں خوش ہی نہیں ہونے دیتا تو پھر میں کیا کروں؟ ایسا بھی کیا ہوا تھا ماضی میں کہ کوئی مجھے کچھ جاننے کا حق ہی نہیں دیتا؟ مجھے اس گھر میں اپنے باپ کی ایک بھی تصویر نہیں ملی کہ میں ان کی شکل پہچان کر، انہیں ڈھونڈ کر، ان سے اپنے سوالوں کے جواب مانگ سکوں۔ میں ایک بار اس شخص کا گریبان تھام کر اس سے پوچھنا چاہتی ہوں کہ اگر اسے بھاگنا ہی تھا تو اس نے میری ماں سے شادی کیوں کی اور اگر اسے اولاد کی چاہ ہی نا تھی تو پھر مجھے دنیا میں لانے کے اسباب ہی کیوں پیدا کئے؟ کیوں مجھے دنیا کی ٹھوکروں پہ رکھ دیا۔ کیوں کیا میرے ساتھ ایسا؟ کیوں؟“ نبیشہ نے ایک بار پھر اس کی بات کی نفی کی تھی۔ اپنی بات کے آخر تک وہ بسام کا گریبان تھام کر رونے لگی تھی۔ سب کے سامنے مضبوط نظر آنے والی نبیشہ آج پہلی بار اپنے محرم کے سامنے آنسوؤں میں ڈھلی تھی۔
”کس نے کہا کہ تم کسی کی ٹھوکروں پر ہو؟ تم جانتی ہو کہ حویلی میں سب تم سے بےحد پیار کرتے ہیں۔ تمہارا ایک اٹل مقام ہے اس حویلی میں ۔ تمہاری پسند ناپسند کو ہر موقع پر اولین ترجیح دی جاتی ہے تو پھر یہ کہاں کا انصاف ہے کہ ایک شخص کی بےاعتنائی کا بدلہ تم باقی سب سے لو؟“ بسام نے بےساختہ اس کے گرد اپنے مضبوط مردانہ بازوؤں کا حصار باندھتے، اسے تسلی دینے کے ساتھ ہلکا سا شکوہ بھی کیا تھا۔ اس کی بات پر نبیشہ کے رونے میں تیزی آئی تھی۔
”اسی ایک شخص کی سفاکیت کے ساتھ ساتھ مجھے میری ماں کی بےرخی بھی تو کچوکے لگاتی ہے۔ یہی وہ ایک پھانس ہے جو مجھے آپ کے وجود کو تسلیم کرنے سے روکتی ہے۔ آپ کی ہر بات سو فیصد درست ہے مگر سچ یہ ہے کہ یہ ساری اہمیت نبیشہ بسام اورکزئی ہونے کے سر پر ہے جبکہ نبیشہ انتصار بنگش تو کسی کیلئے کوئی معنی، کوئی وقعت ہی نہیں رکھتی اور مجھے یہی تو جاننا ہے کہ انتصار بنگش کی بیٹی ہونے کے پیچھے ایسی کون سی وجہ ہے کہ خائستہ انتصار بنگش کو میرا وجود کسی کانٹے کی طرح چبھتا ہے۔ مجھے جاننا ہے کہ ایسی کون سی خطا میرے سر آتی ہے کہ جس حویلی میں نبیشہ بسام اورکزئی کی بات کوئی رد نہیں کرتا، وہیں اس کی سگی ماں اسے انسان ماننے کو ہی راضی نہیں ہے۔“ کچھ پل رو چکنے کے بعد نبیشہ نے اس کی بات کی حقیقت اسے ہی لوٹائی تھی۔ بسام نے ایک گہرا سانس بھرا تھا۔
”کیوں انگاروں کو ہاتھ میں لینے کی ضد کر رہی ہو تم۔ سچ تمہیں سوائے جلن کے کچھ بھی نہیں دے گا۔ میرا، یقین کرو ماضی ایسا ہولناک ہے کہ تم آگاہی پانے کے بعد خود سے بھی نظریں ملانے سے کتراؤ گی۔“ بسام نے ایک آخری کوشش کی تھی اسے اس کے ارادوں سے باز رکھنے کی۔
”سچ کتنا بھی اذیت ناک کیوں نا ہو مگر اس تکلیف سے تو کم ہی ہوگا ناں جس سے میں بچپن سے گزرتی آ رہی ہوں۔۔۔۔ جب اپنی ماں کی نفرت سہہ لی تو میرے باپ کی سچائی کیا بگاڑ لے گی میرا؟“ نبیشہ کے لہجے سے بسام کو سرکشی کی خوشبو آئی تھی۔ اس کی بات پر اس کے چہرے کے تاثرات میں واضح تبدیلی آئی جسے نبیشہ اندھیرے کی وجہ سے دیکھ نا پائی تھی۔
”تمہاری یہی ہٹ دھرمی ہر بار ہمارے بیچ حائل ہو جاتی ہے مگر میں مزید تمہیں اس سب کی اجازت نہیں دوں گا۔ میں آج ہی بابا خان اور چاچا خان سے رخصتی کی بات کرنے والا ہوں اور تم اب ایک بھی لفظ نہیں کہو گی۔“ بسام نے اس بار قدرے سخت لہجے میں اپنی بات کہی تھی۔ نبیشہ کے گرد اس کی گرفت بھی ڈھیلی پڑی تھی مگر اس نے اسے مکمل آزاد نا کیا تھا۔
”آپ ایسا کچھ نہیں کریں گے۔ میں جب تک اپنا ماضی نہیں جان لیتی، یہ رخصتی نہیں ہو گی۔“ نبیشہ بھی اس کی بات پر ضد میں آئی تھی۔ اس کے باغیانہ لہجے پر بسام نے اسے بازوؤں سے تھاما تھا مگر اس بار اس کی پکڑ میں پہلے جیسی نرمی مفقود تھی۔ نبیشہ کی بات اس کی غیرت پر کسی تازیانے کی طرح لگی تھی۔ وہ بولا تو اس کا لہجہ بھی پہلے سے یکسر مختلف تھا۔
”اگر ایسی بات ہے تو پھر اب یہ رخصتی اسی ہفتے ہوگی اور میں بھی دیکھتا ہوں کہ تم کیسے انکار کرتی ہو؟“ بسام کا سرد لہجہ ہی یہ بتانے کو کافی تھا کہ وہ بھی دوبارہ سے اپنے خول میں سمٹ چکا ہے۔ وہ اب نبیشہ کو کوئی رعایت دینے کے موڈ میں نہ دکھتا تھا۔
”آپ نے اگر میرے ساتھ زبردستی کرنے کی کوشش کی تو میں بھی اپنے باپ کی طرح بھاگ جاؤں گی۔“ نبیشہ نے انجانے میں بسام کے اشتعال کو ہوا دی تھی۔ اس کی بات کا جواب اس بار بسام کے اٹھے ہوئے ہاتھ نے دیا تھا۔
”نبیشہ!“ وہ بولا نہیں بلکہ دھاڑا تھا مگر باوجود انتہائی غصے کے وہ اپنی ماں کی دی ہوئی سیکھ نہیں بھولا تھا کہ عورتوں پر ہاتھ اٹھانے والا مرد ہی نہیں ہے۔ اس کا ہاتھ نبیشہ کے چہرے سے چند انچ کے فاصلے پر رک گیا تھا۔ نبیشہ بھی اس کے اس قدر شدید ردعمل پر ساکت سی ہوئی تھی مگر اگلے ہی پل وہ اس کے سینے پر ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیلتی، بھاگتے ہوئے اس کمرے سے نکلتی چلی گئی تھی۔ اس کے جاتے ہی بسام نے ہوا میں معلق اپنے ہاتھ کی مٹھی بنا کر اسے پوری قوت سے سامنے دیوار پر دے مارا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر نیم تاریک کمرے میں کھڑا جانے کیا سوچتا رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اپنے ذہن میں در آنے والی زہریلی سوچوں پر سر جھٹکتا وہ آگے بڑھا تو پیر قالین پر گرے موبائل سے ٹکرایا تھا۔ فون ہاتھ میں لیتے ہی جلتی ٹارچ کی روشنی سامنے لگے فریم پر پڑی تھی۔ وہ مزید کوئی بتی جلائے بنا ہی قدم قدم چلتا اس تصویر کے عین سامنے آن رکا تھا۔ اب وہ ٹارچ کی روشنی باری باری اس تصویر میں نظر آتے نفوس کے چہروں پر ڈال رہا تھا۔ ایک دو بار یہ عمل دہرانے کے بعد وہ شہباز اورکزئی کے دائیں جانب کھڑے شخص کے چہرے پر رکا تھا۔
”انتصار بنگش! کاش کہ زندگی مجھے ایک بار تمہارے سامنے لے آئے تو میں تم سے اپنے خاندان کو دی گئی ایک ایک اذیت کا حساب سود سمیت لوں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ میں جلد ہی کامیاب ہوں گا اور پھر تمہاری جیت کو ہار بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔“ تصویر میں کھڑے اس شخص کے مسکراتے چہرے پر نظریں گاڑھے، بسام نے زہرخند لہجے میں سرگوشی کی تھی۔ کچھ دیر مزید اسے گھورنے کے بعد بسام تیز تیز قدم اٹھاتا باہر نکل آیا تھا۔ اپنے پیچھے مقفل دروازے کے اس پار وہ بہت سی ان کہی داستانیں چھوڑ آیا تھا مگر اسے علم ہی نا تھا کہ اس کہانی کے کچھ پنے اس کے قدموں سے لپٹ کر اس کے ساتھ چلے آئے تھے۔ اس قرطاس پہ لکھے الفاظ خان حویلی میں بھونچال لے آنے والے تھے۔
_____________________

Leave a Comment