Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

اسامہ اور انتصار جس وقت فلیٹ پر پہنچے تھے تو غصے سے بھرے شہباز نے ان کا دھماکے دار استقبال کیا تھا۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔۔ اسامہ کے فون پر ایک نہایت ضروری کال آ چکی تھی۔
”شہباز یار اب بس بھی کر دو۔ کہا ناں کہ آخری غلطی سمجھ کر معاف کر دو۔“ اسامہ نے شہباز کے کندھے کے گرد بازو پھیلا کر منت بھرے لہجے میں کہا تھا مگر وہ اس وقت اسے کوئی بھی رعایت دینے کے حق میں نا تھا۔ اس کا غصہ کسی طور کم ہونے میں نا آ رہا تھا۔
”تم کیوں بس نہیں کر دیتے اسامہ؟ کیوں اپنا وقت ان فضول کاموں میں ضائع کر رہے ہو؟ اس لڑکی کی جرات بھی کیسے ہوئی کہ وہ مجھ سے یوں بات کرے؟ تمہیں اس سے ہی کچھ سبق حاصل کر لینا چاہیے۔“ شہباز نے اس کا بازو اپنے کندھے سے ہٹاتے کٹیلے لہجے میں کہا تھا۔
”میں معذرت خواہ ہوں یار! میں اس سے تو کیا اب کسی بھی لڑکی سے دوبارہ کوئی رابطہ نہیں کروں گا۔ تم بس غصہ تھوک دو۔“ اسامہ نے ایک بار پھر اسے ٹھنڈا کرنے کی ادنی سی کوشش کی تھی کہ وہ جانتا تھا کہ اس بار واقعی اس سے بڑی غلطی ہو گئی ہے۔
”اسامہ میں تمہارا، دشمن نہیں ہوں۔ تمہارے بھلے کیلئے ہی تمہیں سمجھاتا ہوں میں مگر اس بار یہ میری برداشت سے اوپر کی چیز ہے۔“ شہباز اپنی بات مکمل کر کے وہاں رکا نہیں تھا۔ اسامہ اور انتصار اس کے یوں چلے جانے پر تاسف زدہ سے بیٹھے رہ گئے تھے۔ اسامہ نے کچھ دیر بعد جھکا ہوا سر اٹھا کر مدد طلب نظروں سے انتصار کی طرف دیکھا تھا۔
وہ اور انتصار کچھ دیر پہلے ہی فلیٹ پر واپس آئے تھے اور آتے ساتھ ہی دروازے کے سامنے زمین پر پڑے اسامہ کے تین ٹکروں میں بٹے موبائل نے ان کی حیرت کا بھرپور سامان کیا تھا۔ اسامہ کو تو موبائل کی حالت دیکھتے ہی سکتہ ہوا تھا جبکہ انتصار کی چھٹی حس اسے معاملے کی سنگینی کا احساس دلا رہی تھی کہ شہباز جیسی ٹھنڈی شخصیت کا حامل انسان یقیناً بلاوجہ تو غصہ کرنے سے رہا۔ اسامہ تن فن کرتا شہباز کے  سر پر جا پہنچا تھا مگر اپنی بازپرس کے جواب میں اسے جو کچھ سننے کو ملا تھا، اس نے ان دونوں کی ہی بولتی بند کر دی تھی۔ شائنہ نے اسامہ کے منہ سے یہ سن کر کہ اس کا فون شہباز کے پاس ہے فوراً اس نمبر پر کال ملائی تھی۔ وہ اندر سے بری طرح شہباز کی مردانہ وجاہت پر فریفتہ تھی اور اس نے اسامہ سے دوستی بھی شہباز کے قریب آنے کیلئے کی تھی۔ شہباز جو کہ اسامہ کے فون کا اپنی گاڑی میں رہ جانے سے قطعی لاعلم تھا، وہ گھر پہنچ کر ابھی گاڑی سے نکلنے ہی والا تھا کہ اسے موبائل فون کی گھنٹی سنائی دی تھی۔ تعجب میں گھرا شہباز ہنی کے نام سے آنے والی کال کو نظرانداز کرتا فون گھر کے اندر لے گیا مگر مقابل بھی کوئی رج کے ڈھیٹ انسان تھا جو بنا رکے تسلسل سے فون کھڑکائے جا رہا تھا۔ شہباز نے تنگ آ کر کال اٹھائی تاکہ فون کرنے والے کو اسامہ کی عدم موجودگی کے متعلق آگاہ کر سکے مگر وہ لڑکی اسے نئی کہانی سنانے لگی تھی کہ اس نے اسی سے بات کرنے کیلئے فون کیا ہے۔ شہباز نے اسے خوب کھری کھری سنا ڈالیں مگر اس لڑکی کی آخری بات پر وہ فون زمین پر مار چکا تھا۔ اس نے اسے چند پل اپنے ساتھ گزارنے کی پیشکش کی تھی جو اسے اندر تک جھلسا ہی تو گئی تھی۔ تب سے لے کر اب تک وہ سلگ رہا تھا اور اب اسامہ کے ساتھ ساتھ انتصار بھی اس آگ کی لپیٹ میں آ گیا تھا کہ وہ اس وقت ان دونوں سے ہی بات کرنے کا روادار نا تھا۔
”اسی دن کیلئے منع کرتا تھا میں تجھے کہ مت کر یہ سب۔ میں نے کتنا سمجھایا تھا تمہیں کہ یہ لڑکی مجھے کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی مگر تو نے میری بات نہیں سنی۔ اب بھگتو انجام۔ اپنے ساتھ ساتھ تو نے میری لٹیا بھی ڈبو دی ہے۔ میں تجھے بتا رہا ہوں کہ اس نے اگر رات تک مجھ سے اپنا موڈ بحال نا کیا تو میں تجھے اٹھا کر کسی کھائی میں پھینک آؤں گا۔“ اسامہ کے دیکھنے کی دیر تھی اور انتصار شروع ہو گیا۔ اسامہ نے اسے ایک گھوری سے نوازتے، اپنے گھنے بالوں میں ہاتھ پھیرا تھا۔
”اس شائنہ کو تو میں چھوڑوں گا نہیں۔ تیرا تو نہیں پتا مگر میں ضرور اسے کسی پہاڑی سے دھکا دینے والا ہوں۔“ اسامہ نے مٹھیاں بھینچتے خطرناک تیوروں سے اپنی بات مکمل کی تھی۔
”اوہ بھائی یہ دیکھ میرے ہاتھوں کی طرف۔ پہلے ہی وہ پٹھے پر ہاتھ نہیں دھرنے دے رہا اور اب تو کوئی نیا پنگا نا کریں۔ بہتر ہے کہ تو اب اسے سچ میں چھوڑ ہی دے۔“ انتصار نے اس کے آگے ہاتھ جوڑ کر اس سے التجا کی تھی۔
”دیکھ اسامہ تو جانتا ہے کہ وہ اس قسم کا بندہ نہیں ہے تو ایسے میں اس کا ردعمل جائز ہے۔ تو فکر نا کر کچھ ہی دیر میں غصہ اترے گا تو خود ہی تیرے پاس آ جائے گا مگر تو بھی وعدہ کر کہ اب سے تو محتاط رہے گا۔ چھوڑ دے ان رنگ برنگی تتلیوں کے پیچھے بھاگنا اور صرف پڑھائی پر توجہ دے۔“ اسامہ کو کچھ بھی کہے بنا اپنا سر ہاتھوں پر گراتے دیکھ کر انتصار نے اس بار اسے سنجیدگی سے سمجھایا تھا۔ اسامہ نے ایک نظر اسے دیکھتے اثبات میں سر ہلا دیا تھا۔
”چل اب یہ شکل صحیح کر۔ بالکل بھی اچھا نہیں لگ رہا یوں منہ لٹکا کر بیٹھا ہوا۔ ویسے سچ بتا یہ تھوبڑا شہباز کے غصے کی وجہ سے سوجھا ہوا ہے یا اس شینا مینا سے قطع تعلق پر افسوس منا رہا ہے؟“ انتصار سے اسے مزید یوں سنجیدہ دیکھنا مشکل ہوا تھا سو اس نے اسے چھیڑ ڈالا۔۔۔۔ نتیجہ حسب توقع تھا۔ اگلے ہی پل انتصار کی گردن اسامہ کے بازو کے شکنجے میں تھی اور وہ باآواز بلند مدد کیلئے دہائیاں دے رہا تھا۔
”کیا شور مچا رکھا ہے؟ اسامہ چھوڑ اسے کیا کر رہا ہے؟“ ان کی امید کے عین مطابق چند پلوں بعد شہباز اپنے کمرے سے باہر نکل آیا تھا اور اب وہ اسامہ سے انتصار کی گردن چھڑوا رہا تھا۔
”پہلے بول کہ تو نے مجھے معاف کیا تو ہی میں اس کی جان بخشی کروں گا۔“ اسامہ نے شہباز کو دیکھتے ہی اپنی شرط اس کے سامنے رکھی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے، اب چھوڑ اسے۔“ شہباز کے کہتے ہی اسامہ نے انتصار کو اپنی گرفت سے آزاد کیا تھا۔ ان دونوں کے مسکراتے چہروں پر اسے اپنے بےوقوف بننے کا احساس ہوا تھا۔ اگلے ہی پل وہ ان دونوں پر پل پڑا تھا۔ تھوڑی دیر بعد ہی ان کا لاؤنج میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا تھا اور وہ تینوں نیچے زمین پر پاؤں پسارے اب ہنسنے میں مصروف تھے۔ اسامہ نے یکدم ہنستے ہوئے شہباز کو اپنے گلے سے لگاتے، خود میں بھینچا تھا۔ شہباز نے بھی اسے خود میں بھینچتے اس کے گرد گھیرا تنگ کیا تھا۔ انتصار بھی ان دونوں کے اوپر چڑھ گیا تھا۔ اب وہ تینوں نیچے زمین پر گرے ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ اس کمرے کی ہر شے نے ان کی دوستی کے سدا سلامت رہنے کی دعا کی تھی جبکہ وہاں کھڑی قسمت ہلکا سا مسکراتے ان سب کو کوئی بھی جواب دیئے بنا ہی وداع لے گئی تھی۔
_______________________

Leave a Comment