Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


روشنیوں کا شہر کہلانے والے شہر قائد کو پچھلے کچھ سالوں سے نجانے کس کی نظر لگ گئی تھی جو ہر طرف لوٹ مار، قتل و غارت اور ناانصافی کا بازار گرم تھا۔۔۔ ایسے کچھ لوگوں میں ہمدردی کا جذبہ ابھی بھی باقی تھا جس میں اسعاد بنگش اور منعام کا نام بھی قابل ذکر تھا۔۔۔۔ وہ اپنے فن سے ایسے لوگوں کی داد رسی کیا کرتے تھے جو ہر جگہ سے مایوس ہو کر کوئی آس لے کر ان کے پاس آیا کرتے تھے۔۔۔ اللہ نے انہیں مظلوموں کی مدد کیلئے وسیلہ بنا کر اتارا تھا اور وہ بااحسن طریقے سے یہ کام نپٹا رہے تھے۔
”اماں آپ مجھے اس تھانے کا نام بتائیں جس میں آپ رپورٹ درج کروانے کیلئے گئی تھیں اور اگر ہو سکے تو اس افسر کا نام اگر آپ کو یاد ہے تو وہ بھی بتا دیں۔ میں ابھی آپ کا مسئلہ حل کروا دیتی ہوں۔“ اسعاد تیزی سے اپنے دفتر کی طرف بڑھ رہا تھا جب اسے منعام کے کیبن کے آگے سے گزرتے ہوئے رکنا پڑا۔۔۔ اس کے سامنے ایک ادھیڑ عمر عورت براجمان تھی اور ساتھ میں ایک تیرہ چودہ سال کی لڑکی بھی تھی۔ منعام کو اس فرم میں کام کرتے ہوئے ایک ہفتے سے زائد ہو گیا تھا مگر ابھی اسعاد نے اسے کوئی باقاعدہ کیس نہیں تھمایا تھا بلکہ وہ تجربہ کار وکلا کے ساتھ کورٹ روم جا کر مختلف کیسز کے متعلق سیکھ رہی تھی۔ وہ ابھی کورٹ سے ہی آ رہا تھا اور منعام کا کسی عورت کو یوں اپنے پاس بٹھا کر اس سے بات چیت کرنا، اسے اچھنبے میں ڈال گیا کہ ایسے معاملات تو غزنوی صاحب دیکھا کرتے تھے جس میں مدعی اکثر یہ شکایت لے کر آتے تھے کہ فلاں افسر نے ان کی رپورٹ درج نہیں کی۔ اسعاد کی حیرت کی اصل وجہ منعام کی اس عورت کو کی گئی یقین دہانی تھی کہ وہ ابھی اس کا مسئلہ حل کر دے گی۔ اسعاد اس کے کیبن کے ادھ کھلے دروازے سے اندر داخل ہوا جبکہ منعام سر جھکائے اس عورت کی بتائی گئی تمام تر تفصیلات اپنے سامنے رکھے کاغذات پر منتقل کر رہی تھی۔
”اماں آپ بس دس منٹ صبر کریں…….. اسعاد سر آپ؟ اچھا ہوا آپ آ گئے۔ مجھے ملیر تھانے میں ایک فون کروانا تھا۔ ویسے تو میں خود بھی کر سکتی ہوں مگر آپ کریں گے تو زیادہ جلدی اثر ہوگا۔ غزنوی سر آج چھٹی پر ہیں اور یہ اماں بہت پریشان تھیں تو میں نے ان کی بات سن لی۔ ان کے بیٹے کو پرسوں رات پولیس بنا اس کا قصور بتائے پکڑ کر لے گئی ہے اور تھانہ انچارج نے ان کی رپورٹ لکھنے سے انکار کر دیا ہے جبکہ پی پی سی کے سیکشن 166 اے کے مطابق، کوئی بھی پولیس افسر کسی کی شکایت درج کرنے سے انکار نہیں کر سکتا۔ اگر وہ ایسا کرتا ہے تو پھر اس کے خلاف سینئر پولیس آفس میں شکایت درج کی جا سکتی ہے۔ اگر پولیس اہلکار قصور وار ثابت ہوتا ہے تو اسے کم سے کم چھ ماہ یا ایک سال کی قید ہو سکتی ہے یا پھر وہ اپنی ملازمت سے بھی ہاتھ دھو سکتا ہے۔ میرے خیال میں وہ اہلکار یا تو اس قانون کے متعلق نہیں جانتا یا پھر اسے لگتا ہے کہ وہ قانون کی کرسی پر بیٹھ کر اسی قانون کی دھجیاں بنا کسی ڈر خوف کے اڑا سکتا ہے۔ آپ ایک بار فون کر کے اسے بتا دیں کہ وہ ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔“ منعام جو کہ اس عورت کو یہ سب بتانے والی تھی، اسعاد کو دیکھتے ہی شروع ہو گئی۔۔۔۔ اسعاد نے تعجب سے اس لڑکی کو دیکھا جو شاید بنا تصدیق کے ہی اس عورت کی باتوں پر ایمان لے آئی تھی اور اب اسے بھی فون کرنے پر اکسا رہی تھی۔
”اماں آپ دس منٹ انتظار کریں اور مس منعام آپ میرے کمرے میں آئیں۔“ اسعاد کو اس عورت کے سامنے بات کرنا کچھ مناسب نہیں لگا سو وہ اسے ہدایت کرتا، وہاں سے نکل گیا تھا۔
”مس منعام! آپ نے اس عورت کی شکایت کی تصدیق کی ہے کہ وہ سچ بتا رہی ہے یا جھوٹ؟“ اسعاد نے اس کے اجازت لے کر اپنے دفتر میں آنے کے بعد اس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ساتھ ہی سوال کیا تھا۔
”سر! ایک بیوہ ماں کی آنکھوں سے ٹپکتی وحشت دیکھنے کے بعد آپ کیسے اس سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ وہ سچ بول رہی ہے یا جھوٹ جبکہ اس ماں کی آنکھیں ہی ساری سچائی بتا رہی ہوں۔“ منعام نے اس کے استفسار پر ایک جذباتی منطق پیش کی تھی جبکہ قانون جذبات نہیں سمجھتا۔
”مس منعام! قانون ثبوتوں پر عمل کرتا ہے جذبات پر نہیں۔“ اسعاد نے اسے گویا یاد دہانی کروائی تھی۔
”ٹھیک کہا سر تو پھر ہم قانون کی زبان میں ہی بات کرتے ہیں۔ میں کچھ دیر پہلے ہی آپ کو ایک قانونی شق کے متعلق بتا چکی ہوں جس کے مطابق وہ افسر کسی کی بھی شکایت لکھنے کا مجاز ہے پھر چاہے شکایت کنندہ ملزم ہو، مجرم ہو، بےگناہ ہو یا بےقصور۔ کسی پر لگے الزام کو جانچنا عدالت کا کام ہے نا کہ وکلا یا پولیس افسران کا۔ وکلا کا کام ہے کہ وہ عدالت کو اپنے مدعی کے حق میں ہر ممکن ثبوت فراہم کریں اور پولیس کا کام ہے کہ وہ لوگوں کی شکایات سن کر انہیں درج کرے۔ دنیا کا کوئی بھی قانون ہمیں یہ نہیں کہتا کہ کوئی بھی پولیس آفیسر کوئی شکایت لکھنے سے پہلے اسے جانچے گا کہ یہ اس کا کام نہیں ہے۔ اس کا کام ہے ہر خاص و عام کی شکایت درج کرنا اور مذکورہ آفیسر نے اسی کام سے انکار کیا تھا تو اسے بتانا ضروری ہے کہ اسے بس اپنا کام کرنا چاہیے۔ بالفرض باہر بیٹھی عورت کا بیٹا مجرم ہے بھی تو ہمارا قانون تو مجرم کو اپنی لاڈلی اولاد مانتا ہے تو پھر اس اولاد سے بےاعتنائی کیوں؟ ایک اور بات سر آپ کو شاید اس لڑکے کو لے کر تحفظات ہوں گے کہ اگر وہ مجرم ہوا تو آپ کی فرم اس کا کیس نہیں لے گی تو میں آپ کو بتا دوں کہ اس وقت وہ عورت ہمارے پاس اپنے بیٹے کا کیس لڑنے کی عرضی لے کر نہیں آئی ہے بلکہ وہ آپ کے ہی کسی فاضل دوست کے بتانے پر صرف ایک شکایت لے کر ہمارے پاس آئی ہے کہ فلاں آفیسر نے اس کی درخواست درج نہیں کی۔“ منعام نے اپنی بات بڑے رسان سے مکمل کی تھی۔ اسعاد اسے اس گفتگو سے پہلے ایک جذباتی سی لڑکی سمجھ رہا تھا جو اس عورت کی دکھ بھری داستان سن کر ہمدردی میں اس کی مدد کرنا چاہ رہی ہو مگر اب اس کی سوچ یکسر مختلف تھی کہ اسعاد کو اس کی کسی بھی بات سے اختلاف نا تھا۔
”فکر نہ کریں اماں، آپ کی درخواست درج کر لی گئی ہے اور جلد ہی آپ اپنے بیٹے سے مل سکیں گی۔ اس پر کسی ڈکیتی میں ملوث ہونے کا الزام لگا ہے۔ کیا آپ کے پاس اپنے بیٹے کی بےگناہی کا کوئی ثبوت ہے؟“ اسعاد نے منعام کی بات کے بعد مزید بحث کئے بنا ہی متعلقہ تھانے فون کر کے اس عورت کی درخواست کا اندراج کروا دیا تھا اور اب اسے تمام تر تفصیلات سے آگاہ کر رہا تھا۔ اسعاد کی بات پر اس دکھیاری ماں نے اپنے سینے پر دو ہتھڑ مارے تھے۔
”صاحب میرا بیٹا ایک دہاڑی دار مزدور ہے اور وہ شام سات بجے تک ہی گھر آ جاتا ہے۔ ﷲ سوہنا جانتا ہے کہ ایک بار گھر آنے کے بعد وہ کبھی گھر سے باہر نکلتا ہی نہیں۔ دن بھر کا تھکا ہارا کھانا کھاتے ہی سو جاتا ہے۔ غریب کا یار دوست تو ویسے بھی کوئی نہیں ہوتا سو اس کا بھی نہیں ہے جس کے پاس وہ دو گھڑیاں بیٹھ لے۔ میرے بیٹے نے چودہ سال کی عمر سے ہم ماں بیٹی کا بوجھ اٹھا رکھا ہے اور میں قسم کھا کر کہنے کو تیار ہوں کہ وہ بےقصور ہے۔“ اس عورت کی بات پر اسعاد نے ایک گہرا سانس بھرا جبکہ منعام نے اس پر ایک جتاتی ہوئی نگاہ ڈالی تھی۔۔۔ اس کے یوں دیکھنے پر اسعاد کا دل چاہا کہ وہ قہقہہ لگا کر ہنس دے۔
”اماں اگر آپ سچ بول رہی ہیں تو پھر میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اسے بےگناہ ثابت کر کے ہی رہوں گا۔ آپ بےفکر ہو کر گھر جائیں۔ اپنا رابطہ نمبر مجھے دیتی جائیے گا، انتظامیہ کی طرف سے وقت ملتے ہی میں آپ کو اپنے بیٹے سے ملنے کے متعلق آگاہ کر دوں گا۔“ اسعاد کی بات پر وہ عورت ان دونوں کو ڈھیروں دعاؤں سے نوازتی وہاں سے رخصت ہوئی تھی۔
”آپ کو کیا لگتا ہے سر کہ اس عورت کا بیٹا سچ میں بےگناہ ہے؟“ اس عورت کے جاتے ہی منعام نے اس سے دریافت کیا تھا۔
”مس منعام مجھے پہلی نظر میں ہی اس عورت کی دگرگوں حالت نے بتا دیا تھا کہ وہ عورت سچ میں مظلوم ہے۔“ اسعاد کی بات پر منعام تعجب میں گھری تھی۔
”تو آپ نے مجھ سے جو کہا وہ کیا تھا؟“ اس نے اپنی حیرت کو زبان دی تھی۔ اسعاد کے چہرے پر ایک محفوظ سی مسکراہٹ ابھری تھی۔
”سمجھ لیں کہ وہ آپ کا امتحان تھا۔“ اسعاد کی ادھوری بات بھی منعام کی سمجھ میں آ گئی تھی کہ وہ اسے جانچ رہا تھا۔
”تو پھر کیا نتیجہ رہا؟“ منعام نے بھی اس بار محفوظ کن انداز میں پوچھا تھا۔
”آپ پاس ہو چکی ہیں اور اب یہ کیس آپ ہی دیکھیں گی۔ آپ نے بالکل صحیح کہا تھا مس منعام کہ اس ماں کی آنکھیں ہی ساری سچائی عیاں کر رہی تھیں اور میں آپ کو ایک پتے کی بات بتاتا چلوں کہ ایک اچھا وکیل بھی وہی ہے جو سامنے والے کے ابرو کی جنبش سے بھی یہ جان لے کہ آیا مقابل سچ بول رہا ہے یا جھوٹ۔“ اسعاد کی بات پر منعام کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا تھا۔ بالآخر وہ اپنی زندگی کا پہلا باقاعدہ کیس لڑنے والی تھی۔
”شکریہ سر! میں یہ سیکھ زندگی بھر یاد رکھوں گی۔“ منعام نے پورے دل سے اس کا شکریہ ادا کیا تھا۔ چند مزید رسمی باتوں کے بعد منعام اس کے دفتر سے نکل گئی تھی۔ اسے اب پوری تیاری کرنی تھی کہ اپنی زندگی کا یہ پہلا معرکہ اسے سر کرنا ہی تھا کہ یہ فقط ایک روزن تھا، ایک نئی راہگزر کی شناخت کیلئے۔
____________________

Leave a Comment