Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


اسامہ اور شہباز اس وقت انتصار کے ساتھ اس کے کسی ڈاکٹر کزن سے ملنے ایک اسپتال میں آئے تھے جب اس کے کمرے میں داخل ہونے سے پہلے اسامہ کی نظر ایک طرف موجود زرلش پر پڑی تھی۔ وہ اس کے وہاں ہونے سے یہی سمجھا تھا کہ ایک بار پھر وہ کسی مصیبت میں مبتلا ہو کر ادھر ہسپتال میں موجود تھی۔۔۔ اسے دیکھتے ہی وہ باقی دونوں کو بھی مخاطب کر گیا۔
”یار ان لڑکیوں کو مصیبت میں پھنسنے کے سوا کچھ آتا بھی ہے کیا؟ لگتا ہے کہ اب اپنے ساتھ اس بیچارے کو بھی پھنسا دیا ہے۔“ اسامہ نے ہسپتال کی راہداری میں سامنے سر پر پٹی باندھے ایک شخص کے ساتھ کھڑی زرلش کو دیکھتے ہی بھنائے ہوئے لہجے میں تبصرہ کیا تھا۔

”تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کی عیادت کو آئی ہو ادھر۔“ شہباز نے اسے ڈپٹتے، انتصار کی تقلید میں قدم بڑھا دیئے جو کہ اندر جا چکا تھا۔
”میں پوچھ کر آتا ہوں۔“ اسامہ کی بات پر شہباز کے چہرے پر واضح حیرت نمودار ہوئی تھی۔
”لگتا ہے اس دن والی بےعزتی ہضم ہو گئی ہے تجھے جو اگلی خوراک کیلئے اس کے پاس جا رہا ہے۔“ شہباز نے اس پر طنز کیا تھا مگر مقابل بھی اسامہ اورکزئی تھا جو اپنا کہا کر کے ہی رہتا تھا۔
”خود تو ہر بار ہیرو بن کر پہنچ جاتے ہو اور مجھے ولن بنانے پر تلے ہو۔“ شہباز اس کی بےتکی بات پر نفی میں سر ہلاتا، کمرے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہو گیا کہ وہ جانتا تھا کہ اسے بےپرکی ہانکنے کی عادت ہے۔ اسامہ اس کے یوں چلے جانے پر سر جھٹکتا، اس سمت بڑھ گیا جہاں زرلش کھڑی تھی۔
”اسامہ کدھر گیا؟“ شہباز کو اکیلے آتے دیکھ کر انتصار نے استفسار کیا جو کہ اپنے کزن سے مل رہا تھا۔
”وہ ولن سے ہیرو بننے گیا ہے۔“ شہباز کی بات پر انتصار کے ساتھ ساتھ اس کے کزن نے بھی ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
”اس کا کچھ نہیں ہو سکتا۔“ ان کی سوالیہ نظروں پر شہباز نے انہیں ساری بات سے آگاہ کیا تھا جس پر انتصار کا اپنے کزن کو باقی کی تفصیلات بتانے کے بعد فوری تبصرہ سامنے آیا تھا۔
”اب یقیناً کچھ نا کچھ تو ضرور ہوگا۔“ یہ تجزیہ انتصار کے کزن آفاق کا تھا جو اس نے انتصار کے منہ سے اس لڑکی کا نام سن کر کیا تھا۔ ان دونوں نے ہی اسے اچھنبے سے دیکھا تھا کہ وہ یہ کس بھرتے پر کہہ رہا تھا۔
”زرلش نوشاد آفریدی نام لیا ہے نا تم نے؟ اس نے کچھ دن پہلے ہی ادھر ہاؤس جاب شروع کی ہے جبکہ جو دوسرا نام لیا ہے زرشالہ دلشاد آفریدی وہ اپنی ریذیڈنسی مکمل کر کے چند ماہ قبل ہی بطور ڈاکٹر ادھر تعینات ہو چکی ہے۔“ آفاق کی بات پر وہ دونوں ہی تعجب میں گھرے تھے کہ ایسی کسی صورتحال کا تو انہوں نے سوچا ہی نہیں تھا۔ چند پل کی حیرت کے بعد وہ لوگ اب محفوظ سے بیٹھے اسامہ کا اپنی درگت بنوانے کے بعد اس کے واپس آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
_________________________

Leave a Comment