Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

”حسب روایت آپ یقیناً کسی مشکل میں ہی گھری ہوں گی۔“ زرلش اپنے سامنے کھڑے مریض کی بلاوجہ کی بحث سے تنگ آ چکی تھی جب اس آواز پر وہ پلٹ کر اس کی طرف متوجہ ہوئی اور سامنے کھڑے اسامہ کو دیکھ کر اس نے یوں منہ بنایا تھا جیسے دانتوں تلے کوئی بہت ہی کڑوا بادام آ گیا ہو۔ چند پل خاموشی کی نذر ہوئے تھے اور پھر زرلش کے دماغ میں ایک کوندا سا لپکا تھا۔ اگلے ہی پل وہ چہرے پر ایک بھرپور مسکراہٹ لئے اسامہ کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔
”آپ آ گئے۔ یہ صاحب کب سے آپ کا پوچھ رہے تھے۔“ اسامہ اس کی بات سے زیادہ اس کے لہجے کی مٹھاس پر حیران ہوا تھا۔
”آپ ان سے بات کر کے میرا مسئلہ حل کر دیجئے پلیز!“ زرلش اس کے چہرے کے ہونق سے تاثرات سے محفوظ ہوتے ہوئے، اپنی بات مکمل کرتے ہی سامنے بنے دروازے کے پیچھے گم ہو گئی تھی۔ اسامہ اس کی بات کا مفہوم سمجھتا، اس سے پہلے ہی وہاں موجود شخص اس کا بازو تھامتے اسے اپنی جانب متوجہ کر چکا تھا۔
”سر! میرے مسئلے کا کوئی حل بتا دیں۔“ سامنے کھڑا شخص اس کا بازو ہلاتے گویا ہوا تھا جبکہ اسامہ نے ناسمجھی سے اسے دیکھا تھا۔
”کیا مسئلہ ہے آپ کا اور میں کیا حل نکالوں اس کا؟“ اسامہ نے اپنا بازو اس کے ہاتھ کی گرفت سے چھڑاتے، روکھے لہجے میں استفسار کیا تھا۔
”آپ نہیں نکالیں گے تو اور کون نکالے گا میرے مسئلے کا حل۔ میں نے اپنے آپریشن کیلئے پورے پانچ لاکھ جمع کروائے تھے۔ اب آپ نے میرے سر میں جو قینچی چھوڑ دی ہے اسے کون نکالے گا؟ ابھی پہلے آپریشن کے زخم ٹھیک نہیں ہوئے اور اب آپ پھر سے چیر پھاڑ کی بات کر رہے ہیں۔“ اسامہ اس شخص کی بات پر تعجب کے ساتھ تاسف میں بھی گھرا تھا کہ کیسا غیرذمہ دار عملہ تھا اس ہسپتال کا کہ انہوں نے ایک شخص کے سر میں اتنی بڑی قینچی چھوڑ دی ہے۔۔۔ اسے ایک پل کیلئے بھی یہ خیال نہ آیا تھا کہ اتنے چھوٹے سے انسانی دماغ میں ایک قینچی کیسے سما سکتی ہے جبکہ اس کے گرد ہڈیوں کا ایک تنگ گھیرا بھی موجود ہے۔۔۔ بالفرض قینچی رہ بھی گئی تھی تو وہ شخص اب تک زندہ کیسے تھا۔۔۔ اسامہ اورکزئی صاحب تو بس اس شخص کی بات پر من و عن ایمان لا کر اس کی ہمدردی میں گھل گئے تھے۔
”کس ڈاکٹر نے کیا تھا آپ کا آپریشن؟ آپ مجھے بتائیں میں ابھی اس معاملے کی خبر متعلقہ حکام تک پہنچاتا ہوں۔“ وہ اپنے یہاں آنے کا مقصد یکسر فراموش کر کے اپنا پیر کلہاڑی پر مار چکا تھا۔
”آپ مجھے بھلے انسان معلوم ہوتے ہیں۔۔ مجھے کچھ سوالوں کے جواب ڈھونڈنے میں میری مدد کریں گے؟ یہ سوال مجھے رات بھر سونے نہیں دیتے۔“ اسامہ کی بات کو یکسر نظرانداز کر کے وہ شخص ایک نیا موضوع نکال بیٹھا تھا۔
”کیسے سوال؟“ اسامہ اپنا پہلا سوال بھول کر اگلے کی طرف متوجہ ہو چکا تھا۔

”میری بہن کہتی ہے کہ اس کے دو بھائی اور ایک بہن ہے جبکہ میرا تو ایک ہی بھائی ہے تو پھر دوسرا بھائی کدھر گیا؟“ اس شخص کی بات پر اسامہ نے تاسف سے اسے دیکھا، گویا اس کی دماغی حالت پر افسوس کر رہا ہو۔۔۔ اسامہ کے خیال میں یہ یقیناً اس کے دماغ میں پھنسی قینچی کی وجہ سے ہی تھا کہ وہ کچھ سمجھ ہی نہ پا رہا تھا۔

”آپ یہ سوال چھوڑیں اور مجھے یہ بتائیں کہ آپ کا آپریشن کس ڈاکٹر نے کیا تھا؟“ اسامہ اس ڈاکٹر کی شکایت کرنے کا مسمم ارادہ باندھ چکا تھا۔

”تم۔۔۔ تم ہی ہو ناں وہ ڈاکٹر جس نے میرے پیٹ میں چھری چلائی تھی؟“ اس شخص کے چہرے کے تاثرات یکلخت بدلے اور اگلے ہی پل وہ اسامہ کا گریبان تھام چکا تھا۔۔۔ اس کی آنکھوں کی سرخی اس کے ہوش و حواس میں نہ ہونے کی گواہ تھی۔

”یہ کیا کر رہے ہو تم؟ چھوڑو مجھے۔“ اسامہ نے جلدی سے اس شخص سے اپنا گریبان چھڑوایا۔۔۔ ساری ہمدردی کہیں اڑنچھو ہو چکی تھی۔

”اے تم یہاں ہو۔۔۔ ہم کب سے تمہیں ڈھونڈ رہے ہیں۔“ اسامہ یا وہ شخص مزید کچھ کہتا، اس سے پہلے ہی سفید یونیفارم میں ملبوس دو وارڈ بوائے تیزی سے اس طرف آئے تھے۔

”یہ شخص ایسے کیوں برتاؤ کر رہا ہے؟“ اسامہ نے اس شخص کو دونوں بازوؤں سے پکڑتے وارڈ بوائے کو متجسس لہجے میں مخاطب کیا تھا۔

”سر! اس کے دماغ میں رسولی تھی جو کچھ عرصہ پہلے ہی نکالی گئی ہے اور اس آپریشن کے سائیڈ ایفیکٹ کی وجہ سے یہ شخص کبھی خود کو بچہ سمجھنے لگتا ہے تو کبھی بلاوجہ غصہ کرنے لگتا ہے۔“ وہ شخص اس کی معلومات میں اضافہ کرتا، اسے وہاں سے لے گیا تھا۔

”اب ملی ناں مجھے یہ لڑکی تو پھر بتائوں گا میں اسے۔“ اپنی قمیض درست کرتے اسامہ کو ایک بار پھر زرلش پر غصہ آیا جو اسے اس مصیبت میں پھنسا گئی تھی۔۔۔۔ اگر وہ وارڈ بوائے وقت پر نہ آتے تو وہ شخص اس کے ساتھ مزید دست درازی بھی کر سکتا تھا۔۔۔ اسامہ ان لوگوں کے پاس پہنچا تو اس کی شکل دیکھ کر ہی وہ لوگ جان گئے تھے کہ یہ پھر کچھ نا کچھ سن کر آیا ہے مگر اسامہ نے انہیں کچھ نہ بتانے کی ٹھان لی تھی۔
…………………..

Leave a Comment