Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

ﺳﻤﻨﺪﺭ ﺳﺎﺭﮮ ﺷﺮﺍﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ
ﮔﻨﺎﮦ ﻧﮧ ﮨﻮﺗﮯ ﺛﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ

ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺩﻝ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﭼﮭﭙﺎ ﮨﮯ ﯾﮧ ﺗﻮ ﺭﺏ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﺘﺎ ﮨﮯ
ﺩﻝ ﺍﮔﺮ ﺑﮯ ﻧﻘﺎﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ

ﺗﮭﯽ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻓﻄﺮﺕ ﺟﻮ ﭼﻨﺪ ﺑﺮﺳﻮﮞ ﺑﮭﯽ ﻧﺒﮫ ﮔﺌﯽ ﮨﮯ
ﺟﻮ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺟﻮﺍﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ

ﺍﻥ ﮐﯽ ﻧﻈﺮﯾﮟ ﻧﮧ ﺟﺎﻥ ﭘﺎﺋﯿﮟ ﺍﭼﮭﺎﺋﯿﺎﮞ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﻣﺤﺴﻦ
ﮨﻢ ﺟﻮ ﺳﭻ ﻣﯿﮟ ﺧﺮﺍﺏ ﮨﻮﺗﮯ ﺗﻮ ﺳﻮﭼﻮ ﮐﺘﻨﮯ ﻓﺴﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ

محسن نقوی
____________

خان حویلی پر رات اتری تو کھانے سے فراغت کے بعد سارے مکین ہال کمرے میں ڈیرا جما کر بیٹھے، بابا خان اور مادر مہر کی محبت کی کئی بار کی سنی داستان پھر سے سننے میں لگے تھے۔۔۔ مہربانو درحقیقت ونی ہو کر جہانداد اورکزئی کے نکاح میں آئی تھیں اور انہوں نے ان کے ساتھ روایتی بیہمانہ سلوک روا رکھنے کی بجائے انہیں اس حویلی میں خاصی تکریم کے ساتھ رکھا تھا۔۔۔ اس سب میں جہانداد اورکزئی کی والدہ کا بڑا ہاتھ تھا جن کی اپنی بیٹی ونی ہو کر جا چکی تھی اور وہ جانتی تھیں کہ ونی ہوئی لڑکیوں کے ساتھ یہ معاشرہ کیا کرتا ہے سو انہوں نے اپنے قبیلے میں مہربانو کو باعزت طریقے سے قبول کر کے ایک نئی بنیاد ڈال دی۔۔۔ ونی ہو کر آنے والی لڑکیوں کو ان کے گھر والوں سے ملنے کی اجازت تو ابھی بھی نہ تھی مگر جہانداد اورکزئی کی والدہ کے اس اقدام کے بعد ان کے قبیلے میں ان کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کی جرات بھی کسی کو نہ تھی۔

”بابا خان! آپ نے پہلی بار مادر مہر کو کب دیکھا تھا؟“ کشمالہ کیلئے یہ کہانی ہمیشہ سے کسی پریوں کی داستان جیسی ہی تھی سو وہی تھی جو ہر بار یہ موضوع چھیڑا کرتی تھی۔۔۔ ابھی بھی اس کے سوال پر جہانداد اورکزئی مسکرا دیئے تو مادر مہر کے گالوں پر بھی سرخی چھلکنے لگی۔

”ہم نے آپ کی مادر مہر کو پہلی بار نکاح کے بعد ہی دیکھا تھا۔۔۔ آپ بار بار ایک ہی سوال دہرا کر ہمارا جواب بدلوا نہیں سکتیں۔“ جہانداد اورکزئی جانتے تھے کہ کشمالہ کو ہمیشہ سے یہ شک رہا ہے کہ وہ پہلے سے ہی مادر مہر کو پسند کرتے تھے سو وہ یہ داستان سنتے ہوئے، بیسیوں بار یہ سوال کیا کرتی کہ شاید وہ اس کا من پسند جواب دے دیں مگر وہ اسے وہی بتاتے جو سچ تھا۔

”ترہ شہباز! آپ کی بیوی بھی تو ونی ہو کر آئی تھیں ناں تو کیا آپ نے بھی پہلی بار انہیں نکاح کے بعد ہی دیکھا تھا؟“ کشمالہ نے گفتگو کا رخ یکدم شہباز اورکزئی کی طرف موڑتے، نادانستہ طور پر ان کے زخموں پر جمے کھرنڈ کھرچ ڈالے تھے۔

”کشمالہ! بس اب سمیٹو اس بحث کو۔۔۔ جانے کہاں کی بات کہاں جوڑ رہی ہو۔“ شہباز اورکزئی کے چہرے کی متغیر ہوتی رنگت پر سہیم نے اسے فورا ٹوک دیا کہ اس حویلی میں اس بابت بات کرنے کی اجازت کسی کو نہ تھی۔۔۔ وہ خود بھی حیران ہوا کہ کشمالہ نے نجانے کہاں سے یہ سب سن لیا تھا۔

”اس میں اتنا غصہ کرنے والی کیا بات ہے لالہ؟ اس نے ایک عام سا سوال ہی تو کیا ہے۔۔۔۔ جیسے ہم بابا خان کی کہانی سنتے ہیں، ویسے ہی خان ماموں کی کہانی جاننے میں کیا حرج ہے؟“ نبیشہ کو اس کا انداز پسند نہ آیا تو اس نے جھٹ اپنی ناگواری ظاہر کر دی تھی۔

”تمہارا باپ بھی یونہی زبان چلایا کرتا تھا سب کے آگے کہ فلاں چیز فلاں طریقے سے کیوں نہیں ہوئی۔۔۔ فلاں کو فلاں سے جوڑ دو۔“ بڑوں میں سے کوئی انہیں کچھ کہتا، اس سے پہلے ہی خائستہ کی زہرخند آواز پر نبیشہ کو اپنے اندر ایک سرد لہر سی دوڑتی محسوس ہوئی۔۔۔۔ ایک پل کیلئے وہاں موجود سبھی نفوس کو سانپ سونگھ گیا تھا۔

”خائس جاناں! آؤ ہم رسوئی سمیٹ لیتے ہیں۔“ ادی مشرہ نے انہیں فوری منظر سے ہٹانا چاہا مگر وہ تو ہتھے سے ہی اکھڑ گئی تھیں۔

”ادی مشرہ! آپ ہمیشہ اس بدذات کو بچا لیتی ہیں مگر آج نہیں۔۔۔ اسے سچ پتا چلنے دیں کہ اس کا باپ کس قماش کا انسان تھا۔۔۔ اسے بھی عادت تھی یوں ہر بات کی ٹوہ لینے کی۔۔“ خائستہ اورکزئی اپنا آپا کھونے لگی تھیں۔

”خائس۔۔۔ میری جان! جو ہوا اسے تم بھول کیوں نہیں جاتی؟ کیوں اپنے ساتھ ساتھ اپنی بیٹی کو بھی اذیت دیتی ہو؟“ شہباز اورکزئی نے اپنی جگہ سے اٹھ کر، اسے اپنی بانہوں کے گھیرے میں لے کر، اسے پرسکون کرنا چاہا تھا مگر وہ مزید بپھر گئی تھی۔

”میں کیسے بھول جاؤں ادا کہ اس شخص نے کیا کِیا ہمارے ساتھ؟ اس نے آپ کی زندگی برباد کر دی۔۔۔ہمارا اسامہ۔۔۔ آپ کا۔۔۔“ خائستہ ہذیانی انداز میں چیختے ہوئے جانے کون سے رازوں سے پردہ اٹھانے والی تھی کہ شہباز نے ان کا سر زبردستی اپنے سینے سے لگا لیا مگر ان کے رکنے کی وجہ مورے کے اشارے پر آبگینے کے ساتھ گھسٹتی نبیشہ تھی۔

”کہاں جا رہی ہو۔۔۔ رکو ادھر۔۔۔ سنو اپنے بھگوڑے باپ کے کارنامے۔۔۔۔ عزتوں پہ نقب لگانے والا تھا تمہارا باپ!“ خائستہ کسی طور شہباز کے قابو نہ آ رہی تھیں۔۔۔ شاہزیب اور سہیم نے آگے بڑھ کر انہیں بمشکل قابو کرتے وہاں سے لے جانا چاہا تھا۔

”میں نفرت کرتی ہوں تم سے اور تمہارے باپ سے۔۔۔سنا تم نے نفرت! نفرت کرتی ہوں میں تم سے۔“ ان تینوں کے حلقے میں آگے بڑھتی خائستہ مسلسل نبیشہ کے دل پر کچوکے لگا رہی تھی۔۔۔۔ اس کے لفظوں میں چھپی کاٹ نبیشہ کاجگر چھلنی کر گئی تھی۔۔۔۔ ان کے منظر سے غائب ہوتے ہی مادر مہر نے آگے بڑھ کر بت بنی نبیشہ کو اپنے ساتھ لگایا جو زبردستی آبگینے سے اپنا بازو چھڑا کر، اپنی ماں کی لعن طعن سننے کیلئے وہیں رک گئی تھی۔۔۔۔ اسے اپنی ماں سے صرف ایک شکوہ تھا کہ وہ اسے اس کے باپ کا پورا سچ کیوں نہیں بتاتیں ورنہ وہ انہیں اس سب میں حق بجانب ہی سمجھتی تھی کہ کسی عورت کا شوہر اسے چھوڑ کر بھاگ جائے تو پھر وہ کبھی نارمل نہیں ہو سکتی اور اگر ہونا بھی چاہے تو لوگوں کی باتیں اس کا ذہنی سکون چھین لیتی ہیں۔۔۔ کسی کی اذیت کا موجب بننے والے یہ سوچتے ہی نہیں کہ ان کے عمل کا خمیازہ کیسے کسی کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔

”میں ٹھیک ہوں۔“ بنا کسی کی جانب دیکھے، وہ سرد و بےتاثر انداز میں کہتی، خود کو نرمی سے مادر مہر سے جدا کر کے، رہائشی کمروں کی جانب بڑھ گئی تھی۔۔۔ پیچھے رہ جانے والے سب ہی لوگ تاسف میں گھرے تھے۔۔۔ جانے کب ان سب کی جان اس عفریت سے چھوٹنی تھی جو پچھلے بائیس تئیس سالوں سے اس حویلی کو چمٹ گیا تھا۔
__________

Leave a Comment