Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

آج صبح سے شہر قائد میں بادلوں اور سورج کے بیچ جاری آنکھ مچولی میں جیت بالآخر بادلوں کی ہوئی اور اب وہ پچھلے آدھ گھنٹے سے آسمان پر ڈیرا جمائے، بس برسنے کی تیاریوں میں تھے۔۔۔ ہلکی پھلکی کن من کچھ ہی دیر میں موسلا دھار بارش کی صورت اختیار کر گئی تھی۔

“میرے خیال سے ادھر رک کر، بارش کے تھمنے انتظار کر لینا چاہئے۔” اسعاد نے ایک چھتر کی طرف  اشارہ کرتے، منعام کو اپنے ساتھ آنے کا کہا تھا۔
وہ دونوں اس وقت ان اماں جی کے بیٹے سے ملاقات کیلئے آئے تھے جسے سات دن کی جسمانی ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تھا۔ گو کہ یہ کیس منعام ہی دیکھ رہی تھی مگر یہ اس کی ان کے ساتھ جیل میں پہلی باضابطہ ملاقات تھی سو اسعاد اس کو مختلف چیزوں سے آگاہی دینے کے خیال سے اس کے ساتھ آ گیا تھا۔ وہ لوگ جیل کی طویل راہداری عبور کر کے احاطے میں موجود اسعاد کی گاڑی کی طرف بڑھ رہے تھے جب ایک دم آ جانے والی تیز بارش نے انہیں کسی سائے کے نیچے تک جانے پر مجبور کر دیا۔

”کیا مصیبت ہے؟“ منعام نے کوفت بڑی نظروں سے آسمان سے برستے پانی کو دیکھتے، زیرلب خودکلامی کی مگر آواز کچھ کم بھی نہ تھی۔۔۔ اس کی بڑبڑاہٹ سن کر اس سے ذرا فاصلے پر کھڑے، مصفی کو سوچتے، اسعاد نے اچھنبے سے اسے دیکھا۔۔۔ اسے حیرت ہوئی کہ کیا کوئی بارش کو بھی مصیبت کہہ سکتا ہے اور وہ بھی ایک لڑکی!

“لگتا ہے آپ کو بارش کچھ خاص پسند نہیں ہے؟“ اسعاد کے سوال پر منعام نے چونک کر اسے دیکھا تھا۔

”مجھے بارش سرے سے ہی پسند نہیں ہے۔“ منعام نے اپنی بیزاری چھپانے کی ذرا بھی کوشش نہ کی۔۔۔ اس نے صاف گوئی کا اعلی مظاہرہ کیا تھا۔

“حیرت ہے لڑکیوں کو تو بہت پسند ہوتی بارش۔۔۔۔ میری چھوٹی بہن تو دیوانی ہے ایسے موسم کی۔” اسعاد کو واقعتاً ڈھیر ساری حیرت نے گھیرا تھا۔

”میرا بچپن سے بارش سے چھتیس کا آکڑہ رہا ہے۔۔۔ میں نے ہمیشہ سے بارش برسنے پر اپنی اماں کو کبھی چھت کی طرف بھاگتے تو کبھی جگہ جگہ برتن رکھتے ہی دیکھا ہے تاکہ چھت سے ٹپکتا پانی گھر کا باقی سامان خراب نہ کر دے سو ایسے میں مجھے بارش سے کوئی لگاؤ کیونکر ہوتا جبکہ وہ بارش ہمارا گھر سے نکلنا بھی محال کر دے۔“ منعام نے سادہ سے لہجے میں اس کی بات کی تردید کر دی۔۔۔ اسعاد نے کھوجتی نگاہوں سے اسے دیکھتے، اس کے چہرے پر کوئی ملال یا احساس کمتری ڈھونڈنا چاہا مگر اس کا چہرہ ہر طرح کے تاثرات سے پاک تھا۔۔۔ اس کا لہجہ بھی کسی قسم کے جذبے سے مبرا تھا گویا اسے اس سب سے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو۔

”لگتا ہے کافی مشکل زندگی گزاری ہے آپ نے؟“ جانے اسعاد نے تبصرہ کیا تھا یا سوال۔۔۔۔ وہ سمجھ نہ سکی۔

”آسان تو اب بھی نہیں ہے۔“ منعام کی بات پر اسعاد ایک بار پھر تعجب میں گھرا۔۔۔ کچھ تو تھا اس لڑکی میں جو وہ بار بار ٹھٹھک رہا تھا۔۔۔ ہر بات پر اس کا بےتاثر انداز گویا اسے کوئی فرق ہی نہ پڑتا ہو، اس کی شاید یہی عادت اسعاد کو اپنی طرف متوجہ کر رہی تھی۔۔۔ اسے وہ لڑکی کوئی پہیلی لگتی اور وہ لاشعوری طور پر اس کی ذات میں دلچسپی لینے لگا تھا۔

”یہ شکوہ ہے یا شکایت؟“ اسعاد ہاتھ کے ہاتھ اپنی الجھن سلجھا لینا چاہتا تھا۔۔۔ مینہ ابھی بھی زوروں سے برس رہا تھا

”حقیقت ہے۔۔۔ میری باتوں سے اکثر لوگوں کو ایسا لگتا ہے کہ میں ناشکری ہوں جبکہ میرے نزدیک حقیقت پسندی اور شکووں میں بہت فرق ہے۔۔۔ جو دوسروں کو شکایت لگتی ہے، میرے نزدیک وہ میری زندگی کی تلخ سچائیاں ہیں۔۔۔ بات صرف اتنی سی ہے کہ میں ان تلخیوں کو لوگوں سے چھپا کر نہیں رکھتی۔۔۔ میرے لئے جو سچ ہے، وہ سب کے سامنے ہے۔۔۔ مجھے بناوٹی پن سے نفرت ہے اور لوگوں کا اپنے اصل کو ہزار پردوں میں چھپاکر مقابل سے ملنا، میرے نزدیک ناپسندیدہ ترین فعل ہے۔“ منعام نے اس کی الجھن بھانپتے، اب کی بار خاصی وضاحت سے جواب دیا تھا۔

”میری ایک نصیحت ہے منعام کہ ہمیشہ یونہی رہنا۔۔۔ سچ کا سامنا کرنے والی۔۔۔ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ لوگ جو اپنی سچائی کے ساتھ جیتے ہیں۔۔۔ جنہیں دوسروں کے سامنے خود کو اجاگر کرنے کیلئے مادی سہاروں کی ضرورت نہیں پڑتی۔۔۔ یہ بہت نادر خوبی ہے۔۔۔ تم اسے مت گنوانا۔“ اسعاد کے مخلصانہ مشورے پر منعام آج ایک عرصہ بعد کھل کر مسکرائی تھی۔۔۔ اسعاد کو نجانے کیوں اس کی یہ مسکراہٹ بہت بھلی لگی۔۔۔۔ یوں جیسے بارش میں ہی قوس قزح ابھر آئی ہو۔

”شکریہ سر! میرے ایک استاد بھی ہمیشہ یہی کہتے تھے۔۔۔ ان کا کہنا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ کوئی جوہری اس ہیرے کی پہچان کر ہی لے گا۔“ منعام کی ادھوری بات بھی اسعاد کو پورا مفہوم سمجھا گئی۔۔۔ اس بار کھل کر مسکرانے کی باری اسعاد کی تھی۔۔۔ وہ پچھلے تین ماہ سے اس کی لا فرم میں کام کر رہی تھی اور آج اسعاد کو یہ ماننے میں کوئی تامل نہ ہوا کہ وہ لڑکی ذہین ہونے کے ساتھ ساتھ زیرک بھی تھی۔

”میرے خیال سے اب ہمیں چلنا چاہئے۔“ بنا مزید کوئی بات کئے، اسعاد یہ کہہ کر اسے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کر کے آگے بڑھ گیا۔۔۔ چھاجوں برستا مینہ اب ہلکی پھلکی پھوار کی صورت ہی باقی تھا۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں دھوپ چمکنے لگی تو آسمان پہ بنتی قوس قزح خوش رنگ لمحوں کی نوید لے کر اتر آئی تھی۔
___________

Leave a Comment