Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

خان حویلی پر ایک روپہلی صبح اتری تو اس کے باغیچے میں لگے درختوں پہ ڈیرا ڈال کر رہنے والے پنچھی بھی خواب خرگوش سے بیدار ہو کر، اپنے رب کی کبریائی بیان کرنے لگے تھے۔۔۔ ہلکی ہلکی خنک ہوا، شبنم کے قطروں سے گیلی گھاس اور اوس کے موتیوں سے نم پیڑ پودے، دیکھنے والی آنکھوں کو تراوٹ بخش رہی تھیں۔

سیاہ ٹراؤزر پہ سیاہ ہی آدھی آستین کی شرٹ پہنے، بھاگنے کے دوران کانوں میں لگے کن فون سے سورۃ یسین کی تلاوت سنتا، بسام اورکزئی بھی اس ماحول میں اپنے رگ و پے میں ایک سکون سا اترتا محسوس کر رہا تھا۔

وہ حویلی کا مرکزی پھاٹک عبور کر کے اندر داخل ہوا تو نظر سیدھی ایک جانب لگے گھاس کے قطع پر کسرت کرتے شہباز اورکزئی پر جا ٹھہری۔۔۔ بسام نے ایک ستائشی نگاہ ان پہ دوڑائی جو اس عمر میں بھی خود سے کئی سال چھوٹے بھتیجوں کو خاصا مشکل مقابلہ دیتے تھے۔۔۔ بسام حویلی میں سب سے زیادہ ان کے قریب تھا۔۔۔ چند پل ادھر کھڑے ہو کر گہرے سانس بھرتے، اس نے سورۃ مکمل ہونے کا انتظار کیا اور پھر تلاوت مکمل ہوتے ہی وہ کن فون اتار کر اپنے ٹراؤزر کی جیب میں اڑستا، شہباز اورکزئی کی طرف بڑھ گیا تھا۔

”صبح بخیر چاچا خان!“ ان کے نزدیک رکتے، بسام نے انہیں صبح کا سلام کیا تو وہ کسرت روک کر، مسکراتے ہوئے اس کے گلے لگے تھے۔

”رات کو لگتا ہے کافی دیر سے واپسی ہوئی؟“ بسام پچھلے کچھ دنوں سے اپنے کسی ذاتی کام کے ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی خریداری کیلئے اسلام آباد گیا ہوا تھا جہاں سے کل ہی اس کی واپسی ہوئی تھی۔

”جی خان چاچا! بس مشینری کی روانگی کی تیاریاں مکمل کروانے میں تھوڑی تاخیر ہو گئی تھی سو دیر سے واپسی کی راہ لے سکا۔۔۔ آپ سنائیں کیسے ہیں؟ پیچھے حویلی میں سب خیریت رہی؟“ بسام نے انہیں تفصیل سے آگاہ کرتے، موضوع بدلا تھا۔

”سب خیریت ہی رہی، تم سنائو کہ کیا چل رہا ہے آج کل؟“ شہباز اورکزئی نے ایک گہرا سانس ہوا کے سپرد کرتے، سرسری سے لہجے میں کہہ کہہ کر اس سے استفسار کیا تو بسام کھٹک سا گیا۔۔۔ وہ اس بار سے پہلے جب بھی وادی سے باہر جاتا تھا تو اس کی واپسی پر شہباز اورکزئی اسے تفصیل سے حویلی کے بارے میں آگاہ کرنے کے عادی تھی۔۔۔ ان کی اس کتھا میں نبیشہ کی کسی بے وقوفی کا ذکر ضرور ہوتا تھا سو اب یہ چار لفظی جواب اسے ٹھٹھکانے کو کافی تھا۔

“خیریت چاچا خان؟ آج سے پہلے تو آپ نے کبھی یوں ایک جملے میں بات ختم نہیں کی۔۔۔ کچھ ہوا ہے کیا؟” بسام ان کا خون تھا، وہ کیسے نہ ان کی پریشانی بھانپتا۔۔۔ جواباً انہوں نے بحث کو عبث جان کر، اسے کل رات ہوئے واقعہ کی تمام تر تفصیل سے آگاہ کر دیا البتہ خائستہ کی طبیعت خرابی کا اصل موجب اس سے مخفی رکھ کر انہوں نے اسے بابا خان کی داستان سے ہی جوڑ دیا تھا۔ کتنے ہی لمحے بسام کچھ بول ہی نہ پایا۔۔۔ اس نے پورے دل سے نبیشہ کا درد محسوس کیا۔۔۔ اس کے مطالبات کچھ اتنے غلط بھی نہ تھے۔۔۔ اسے ماضی جاننے کا پورا حق تھا۔۔۔۔ یکایک وہ ایک فیصلہ لے گیا تھا۔

”چاچا خان! مجھے لگتا ہے کہ اب یہ رخصتی ہو جانی چاہئے۔“ اس کے یکلخت کہنے پر شہباز کے چہرے کے تاثرات فورا بدلے۔۔۔ فکر کی جگہ مسرت نے لے لی تھی۔

”مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ ادی مشرہ تو خوش ہو جائیں گی لیکن حتمی فیصلہ نبیشہ سے پوچھ کر ہی لیا جائے گا۔“ شہباز اورکزئی کی بات پر بسام کے پھیلے لب سکڑے تھے۔۔۔ ذہن کے پردے پر آخری ملاقات کا منظر لہرایا جو کہ ذرا بھی خوشگوار نہ تھا۔۔۔۔ نبیشہ سے پوچھنے کا مطلب وہ جانتا تھا۔۔۔ یعنی کہ ایک نیا محاذ کھولنا!

”چاچا خان! اس کی رضامندی کی بات ہے تو پھر میں ہاں کے انتظار میں ہی بوڑھا ہو جائوں گا۔“ اندرونی خلفشار پر بمشکل قابو پاتے، اس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا تھا۔

”اب ایسی بھی بات نہیں ہے۔۔۔ ہماری بیٹی بہت سمجھدار اور فرماں بردار ہے۔۔۔ میں آج ہی بابا خان سے بات کرتا ہوں۔“ شہباز اورکزئی کی بات پر بسام کا جی چاہا کہ وہ انہیں اس دن کے واقعہ اور  نبیشہ کے مطالبے کی بابت آگاہ کر دے مگر جانے کیا سوچ کر وہ چپ ہو رہا۔۔۔ اسے علم ہی نہ تھا کہ ان سے یہ سب چھپا کر وہ کتنی بڑی غلطی کرنے جا رہا ہے۔
___________

کرم ایجنسی کے مضافات میں صبح اترتے ہی تمام چرند و پرند اپنے رب کی حمد و ثنا کہنے لگے تھے۔۔۔ شہباز اورکزئی بھی آج کل حویلی میں ہی تھا سو وہ نماز کے بعد لیٹنے کی بجائے چہل قدمی کی غرض سے حویلی کے وسیع و عریض دالان میں نکل آیا تھا۔۔۔ وہ پائیں باغ کی جانب آیا تو ہاتھ میں تسبیح لئے، ننگے پاؤں گھاس پر چلتے جہانداد اورکزئی کو دیکھ کر وہ چہرے پر ایک ہلکا سا تبسم لئے ان کی طرف چلا آیا تھا۔

”صبح بخیر بابا خان!“ ان کے قریب پہنچ کر اس نے مؤدبانہ انداز میں ان پر سلامتی بھیجی تھی۔۔۔ تسبیح کے دانے گراتے جہانداد اورکزئی نے سر کے اشارے سے اسے جواب دے کر، اسے اپنے ساتھ چلنے کا اشارہ کیا تھا۔

”انتصار نہیں جاگا ابھی؟“ تسبیح مکمل کر کے، اسے جیب میں ڈالتے انہوں نے انتصار کے متعلق استفسار کیا جو اس بات ان دونوں کے ساتھ ہی وہاں آیا تھا۔

” وہ نماز کے بعد دوبارہ لیٹ گیا تھا۔“ مؤدبانہ انداز میں ان کی بات کا جواب دیتے، وہ چوں چوں کرتی چڑیوں کی طرف متوجہ ہوگیا۔

”پڑھائی کیسی چل رہی ہے؟“ شہباز کے ساتھ ننھی چڑیوں کو دانہ ڈالتے، انہوں نے پھر سے ایک سوال کیا تھا۔

”اچھی جا رہی ہے۔“ شہباز کو ان کا انداز غیرمعمولی لگا، یوں جیسے وہ کسی اور بات کیلئے تمہید باندھ رہے ہوں۔

”اچھی بات ہے۔۔۔ آگے کے بارے میں کیا سوچا ہے تم نے؟“ ہاتھ میں پکڑا باجرہ چہکتی چڑیوں کی طرف اچھالتے، انہوں نے ہنوز اپنی سنجیدگی برقرار رکھتے ہوئے پوچھا تھا۔

”میں مزید تعلیم کیلئے باہر جانا چاہتا ہوں۔“ ان کی بات کی گہرائی جانے بنا شہباز نے اپنا ارادہ ظاہر کیا تھا۔

”میں پڑھائی کے متعلق نہیں پوچھ رہا۔۔۔ مجھے تمہارے پڑھنے پر کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ بھلے سے ساری زندگی پڑھتے رہو۔۔۔ ہمارا اشارہ تمہاری خانگی زندگی کی طرف ہے۔۔۔ تم سے چھوٹا شاہ زیب بھی جلد ہی باپ بننے والا ہے اور خائستہ کیلئے بھی دو ایک لوگوں نے پوچھ رکھا ہے سو ہم چاہتے ہیں کہ خائستہ کے ساتھ ساتھ تمہارے فرض سے بھی سبکدوش ہو جائیں۔۔۔ تمہیں اگر کوئی لڑکی پسند ہے تو کہو ورنہ ہم بخوشی یہ زمہ داری نبھانے کو راضی ہیں۔“ جہانداد اورکزئی نے اس بار تفصیل سے اسے واضح الفاظ میں اپنی بات سمجھائی تھی۔۔۔ یہ سب کہتے ہوئے انہیں اندازہ ہی نہ تھا کہ وہ سب لوگ واقعی زندگی بھر کیلئے ایک سبق سیکھنے والے تھے۔

”میں نے اس بارے میں ابھی کچھ سوچا ہی نہیں۔۔۔ آپ مجھے بس یہ ڈگری مکمل کرنے تک کا وقت دے دیں۔۔۔ خائس جاناں کیلئے کن لوگوں نے پوچھا ہے آپ سے؟“ شہباز نے اپنے مخصوص نپے تلے انداز میں کہہ کر ان سے استفسار بھی کیا تھا۔

”اسامہ کیلئے بھی کہا ہے تمہارے چچا نے اور امین بنگش کا بھی فون آیا تھا، وہ لوگ آنا چاہ رہے ہیں انتصار کیلئے۔۔۔ وہ دونوں ہی تمہارے بہترین دوست ہیں اور شاید تم ان دونوں کے بارے میں ہم سے زیادہ اچھے سے جانتے ہو سو ہم تمہاری رائے کو ضرور اہمیت دیں گے۔“ جہانداد اورکزئی کی بات پر شہباز کے چہرے پر کسی سوچ کے سائے لہرائے تھے۔

”بابا خان! میں نہیں جانتا کہ آپ کے دماغ میں کیا چل رہا ہے یا آپ اس نہج پر کیا سوچتے ہیں لیکن بات اگر میری رائے کی ہے تو روایات کی رو سے دیکھا جائے تو اسامہ ہمارا خون ہے اور اس کا حق پہلے بنتا ہے مگر عادات و اطوار کے تناظر میں دیکھیں تو انتصار کا پلڑا بھاری ہے۔۔۔ اسامہ کی طبیعت میں لاابالی پن ہے جبکہ انتصار اس کی نسبت سمجھدار ہے۔ میرے لئے وہ دونوں ہی اہم ہیں اور دونوں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے مگر بات یہاں خائستہ کی زندگی کی ہے تو میں انتصار کے حق میں فیصلہ دوں گا لیکن اس سب سے پہلے میں چاہتا ہوں کہ ہم خائس سے پوچھ لیں کہ وہ کیا چاہتی ہے کیونکہ یہ اس کی زندگی ہے سو فیصلے کا اختیار بھی اسی کے پاس ہونا چاہئے۔“ شہباز کے مفصل جواب پر جہانداد اورکزئی نے تائیدی انداز میں سر ہلایا تھا۔۔۔ نجانے کیوں انہیں اپنی سب اولادوں میں اپنا یہ بردبار سا بیٹا سب سے زیادہ پسند تھا۔۔۔۔ اس کی وجہ شاید اس کی معاملہ فہمی تھی کہ وہ بچپن سے ہی کبھی بھی، کسی بھی معاملے میں فورا ردعمل نہیں دیتا تھا بلکہ اس بات کے ہر پہلو پر غور کرنے کے بعد ہی وہ اپنی رائے دیا کرتا تھا۔

”ٹھیک ہے ہم تمہاری مادر کو خائس کی رائے لینے کا کہہ دیتے ہیں۔۔۔ تم بھی ایک بار اپنے دوستوں کو ٹٹول لو۔۔۔ آج کا کیا ارادہ ہے؟ زمینوں پر چلو گے؟“ جہانداد اورکزئی نے اسے ہدایت کرتے ہی موضوع گفتگو بھی بدل دیا تھا۔

”بہت بہتر بابا خان! انتصار شکار پر چلنے کا کہہ رہا تھا۔“ ان کی بات پر سر ہلا کر کہتے، وہ انہیں اب اپنے شکار کے منصوبے سے آگاہ کر رہا تھا۔۔۔ جہانداد اسے شکار کو لے کر کچھ ہدایات دینے لگے تھے۔۔۔۔ ان کے اردگرد پھیلی چڑیاں پیٹ بھرتے ہی اڑان بھر کر اپنے رب کی کبریائی بیان کرتے ہوئے، اپنے رزق کا وسیلہ بنے انسانوں کیلئے بھی محو مناجات تھیں۔۔۔ درحقیقت خان حویلی والوں کو جلد ہی ان دعاؤں کی ضرورت پڑنے والی تھی۔
__________

Leave a Comment