Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

شہباز کے جانے کے بعد وہ چہرے پر ایک دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ بستر پر نیم دراز، آنکھیں موندے، جانے کن پرکیف سوچوں میں مگن تھا جب یکدم دروازہ کھلنے کی آواز پر وہ چونک کر اپنے خیالوں سے نکلتے، نووارد کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

”تم؟“ آنے والے کو دیکھ کر وہ ہڑبڑا کر بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے، حیرانی سے گویا ہوا تھا۔۔۔ چہرے کے تاثرات یکسر تبدیل ہو گئے تھے۔۔۔ نظریں اس کے پیچھے دروازے پر ٹکی تھیں گویا کسی کے آ جانے کا خدشہ ہو۔

”ادا شہباز، بابا خان کے ساتھ چہل قدمی کر رہے ہیں۔۔۔ ان کی واپسی اتنی جلدی ممکن نہیں۔۔۔ حویلی آ کر اسامہ کی صبح نو دس بجے سے پہلے نہیں ہوتی سو اب آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔“ اس کی نظروں کا رخ جانچتے، خائستہ اورکزئی نے گویا اسے خبرنامہ پڑھ کر سنایا تھا۔

”اس کے علاوہ بھی تو کوئی آ سکتا ہے خائس! آپ کو ایسے یوں بلادھڑک یہاں نہیں آنا چاہئے تھا۔“ انتصار کو ابھی بھی کسی کے آ جانے کی فکر تھی جبکہ جسے خیال ہونا چاہئے وہ مزے سے کھڑی تھی۔

”ضروری بات کرنی تھی مجھے۔۔۔ ویسے میرے حصے کے جملے آپ نے ادا کر دیئے ہیں۔“ خائستہ نے اس کی بات کو شوخی سے ہوا میں اڑایا تھا۔

”ضروری بات کیلئے اتنا خطرہ مول لینے کی کیا ضرورت تھی۔۔۔ اگر ابھی شہباز آ جائے تو کیا سوچے گا وہ؟“ انتصار کی فکر ہنوز برقرار تھی جبکہ اس کی بات پر خائستہ کے چہرے کے زاویے بگڑے تھے۔۔۔ اس کے نزدیک وہ بلاوجہ اتنی جرح کر رہا تھا۔

”اب میں اپنی بات بولوں یا آپ نے مزید کوئی درس دینا ہے؟“ خائستہ کے نروٹھے پن سے کہنے پر بےساختہ ایک دلفریب مسکراہٹ نے انتصار کے چہرے کا احاطہ کیا۔۔۔ وہ ایک گہرا سانس بھرتے، اس کی طرف متوجہ ہوا تھا۔

”ناراض کیوں ہوتی ہو خائس جاناں! مجھے بس ہم دونوں کی نیک نامی بہت عزیز ہے۔۔۔ میں نہیں چاہتا کہ کوئی مضبوط رشتہ بننے سے پہلے ہماری ذرا سی لغزش، ہماری عزت پر کوئی آنچ لائے۔“ انتصار نے اسے گہری نگاہوں کے حصار میں رکھتے، اپنا موقف بیان کیا تو خائستہ نے بھی سمجھنے والے انداز میں سر ہلا دیا تھا۔

”ہماری محبت کو ایک جائز رشتے کا مقام مل جائے، اسی لئے میں نے یہاں آنے کی جسارت کی ہے۔۔۔ آپ نے کہا تھا کہ آپ اپنے بابا سے ہمارے متعلق بات کرنے والے ہیں تو پھر اس معاملے میں تاخیر کیوں؟ آپ کو علم بھی ہے کہ میں کس اذیت میں ہوں۔۔۔ میں نے چچا خان کو بابا خان سے میرے اور اسامہ کے رشتے کی بابت بات کرتے سنا ہے۔۔ میرے پاس آپ کا نمبر بھی نہیں تھا کہ حویلی سے ہی فون کر کے آپ کو کچھ بتا سکتی۔“ اسے ساری صورتحال سے آگاہ کرتے خائستہ اورکزئی کی آنکھوں میں در آنے والے آنسو، انتصار کی اذیت کا موجب بنے تھے۔

”خائس جاناں! یوں رو تو مت ناں۔۔۔۔ میں تمہارے چہرے پر سدا خوشی دیکھنے کا خواہاں ہوں اور تم آنسو بہا رہی ہو۔۔۔ اسامہ کی فکر مت کرو۔۔۔ وہ جانتا ہے ہمارے بارے میں اور بابا سائیں، بابا خان سے بات کر چکے ہیں۔۔۔۔ وہ جلد ہی باقاعدہ رشتہ لے کر آنے والے ہیں۔“ انتصار نے بےساختہ اضطراری انداز میں اس کی طرف بڑھتے، اسے تسلی دی تھی۔۔۔ جی تو چاہا کہ اس پھول سی لڑکی کو خود میں سمو کر اس کے آنسو اپنی انگلیوں سے چن لے مگر وہ ایک مناسب فاصلے پر ہی رک گیا کہ اپنی محبت کی تقدیس کی ہزیمت اسے گوارا نہ تھی۔

”آپ سچ کہہ رہے ہیں؟“ خائستہ نے جھٹ سرخ ڈوروں سے سجی آنکھیں اٹھا کر، انتصار کی مشکل مزید بڑھائی تھی۔

”سو فیصد! اب یوں اپنے نینوں کے وار سے گھائل کرو گی تو میرے لئے خود پہ قابو رکھنا مشکل ہو جائے گا۔“ انتصار نے اس کے سوال کی تصدیق کرتے، زومعنی انداز میں کہا تو خائستہ کی پلکیں لرز کر اس کے نینوں کے کٹوروں پر سایہ فگن ہو گئیں۔۔۔ گلابی عارض کسی ان دیکھے احساس کے تحت دہک اٹھے تھے۔۔۔ انتصار نے نہایت دلجمعی سے یہ خوش کن نظارہ آنکھوں کے رستے اپنے دل و دماغ پر نقش کیا تھا۔

”کیا ہو رہا ہے یہاں؟“ اس سے پہلے کہ خائستہ کچھ کہتی، دروازہ کھول کر اندر آتے اسامہ کے سوال نے ایک پل کیلئے ان دونوں کو ہی ششدر کر دیا تھا۔

”اسامہ! تم آج جلدی کیسے جاگ گئے؟“ ایک دو پل بعد انتصار نے خود کو سنبھال کر اس سے سوال کیا تھا۔

”تمہارا مطلب ہے کہ میں سویا رہتا اور تم یہاں پیار و محبت کی پینگیں بڑھانے میں لگے رہتے۔“ اسامہ کے جواب اور اس کے چہرے کے ناقابلِ فہم تاثرات نے ان دونوں کو ہی ٹھٹھکا دیا تھا۔

”اسامہ! تم غلط سمجھ رہے ہو۔“ انتصار کے اشارے پر دروازے کی طرف جاتی خائستہ اس کی بات پر واپس پلٹتے، اپنے ازلی اکھڑ انداز میں اس سے مخاطب ہوئی تھی۔

”میں جو بھی سمجھ رہا ہوں، وہ بالکل درست سمجھ رہا ہوں۔۔۔ اب بس شہباز کو سب سمجھانے کی دیر ہے اور پھر تم لوگوں کا کھیل ختم۔“ اسامہ کے جواب نے دنگ کھڑے انتصار کو ہوش کی دنیا میں لا پٹخا تھا۔

”اسامہ! کیا ہو گیا ہے تمہیں۔۔۔ تم بنا پوری بات جانے، یوں ہمارے ساتھ کوئی زیادتی نہیں کر سکتے۔۔۔ خائس تم جاؤ یہاں سے۔“ انتصار نے کڑے تیوروں کے ساتھ اسے گھرکتے، خائستہ کو وہاں سے جانے کا کہا تھا۔۔۔ وہ جانتا تھا کہ ان دونوں کا یوں تنہا ایک کمرے میں ہونا انتہائی غیر مناسب تھا مگر وہ کسی کو اپنے کردار پر انگلی اٹھانے کی اجازت بھی نہ دے سکتا تھا اور وہ بھی تب جب وہ ایک حلال رشتے کا متمنی تھا۔

”مجھے کیا ہوا۔۔۔ مجھے میرے باپ نے صبح صبح جگا کر، اپنی تایا زاد سے شادی سے انکار کرنے پر سخت سست سنا کر فی الحال اپنے حصے سے بےدخل کر دیا ہے سو ابھی تو مجھے بس اسی کمرے میں پناہ مل سکتی ہے۔“ اسامہ کے مسکراتے لہجے میں مکمل کی گئی بات پر ان دونوں نے ہی ناسمجھی سے اسے دیکھا اور چند ثانیوں بعد اس کی بات کا مطلب سمجھتے، انتصار اس پر پل پڑا تھا۔

“خبیث انسان! تو ہمارا مذاق بنا رہا تھا۔۔۔ گھٹیا آدمی آج تیری خیر نہیں۔“ اسامہ کی گردن دبوچتے انتصار نے کہتے ساتھ ہی اس کے پیٹ میں ایک ہلکا سا مکا جڑا تھا۔

”ہاہاہا! شکل دیکھی تھی آئینے میں اپنی۔۔۔ کیسی ہوائیاں اڑی تھیں۔۔۔ آہ!“ اسامہ نے قہقہہ لگا کر ہنستے، اس کی ٹانگ کھینچنی چاہی مگر اس بار پڑنے والا گھونسہ اسے کراہنے پر مجبور کر گیا۔۔۔ ایک کونے میں کھڑی خائستہ ان دونوں کو گتھم گتھا دیکھ کر اپنے منہ پر ہاتھ رکھ گئی۔۔۔ وہ تو ابھی تک اسامہ کی بات کا مفہوم ہی نہ سمجھ پائی تھی۔

”یہ کیا کر رہے ہو تم دونوں؟“ خائستہ کا سکتہ اپنے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آتے شہباز کی آواز پر ٹوٹا تھا۔

”ادا! ناشتہ کر لیں آ کر۔“ اسے دیکھتے ہی خائستہ نے بنا سوچے سمجھے کہہ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی جبکہ شہباز، خود کو دیکھ کر سیدھے کھڑے ہونے والے اپنی دوستوں کی طرف متوجہ ہوتے، کچھ کچھ معاملے کی تہہ تک پہنچ گیا تھا کیونکہ انتصار کی موجودگی کے باعث وہ اس کے ساتھ مردان خانے میں ناشتہ کرنے والا تھا جس کے لگ جانے کی اطلاع پر ہی وہ انتصار کو بلانے کیلئے اپنے کمرے میں واپس آیا تھا۔۔۔ گو کہ انتصار کا اس کے گھر کی خواتین سے کوئی پردہ نہ تھا مگر کچھ چیزوں میں پھر بھی وہ احتیاط کا قائل تھا۔۔۔ انتصار کی ہی وجہ سے وہ اپنے بیرونی راہداری میں موجود کمرے میں ٹھہرا ہوا تھا جبکہ اس کا ایک کمرہ حویلی کے اندر بھی تھا سو خائستہ کا اس کے اس کمرے تک آنا اسے ٹھٹھکانے کیلئے کافی تھا۔

”ہم ناشتے کے بعد اس سب پر بات کریں گے۔“ خائستہ کے نکلتے ہی اسامہ کو کچھ کہنے کیلئے منہ کھولتا دیکھ کر شہباز نے ہاتھ اٹھا کر کہتے، اسے ٹوک دیا۔۔۔ اس کی حد درجہ سنجیدگی پر ان دونوں نے بھی کچھ کہنے سے گریز برتا اور اس کی تقلید میں چپ چاپ باہر کی طرف بڑھ گئے تھے۔
________

وہ تہی دست بھی کیا خوب کہانی گر تھا
باتوں باتوں میں مجھے چاند بھی لا دیتا تھا

ہنساتا تھا مجھ کو تو پھر وہ رُلا بھی دیتا تھا
کر کے وہ مجھ سے اکثر وعدے بُھلا بھی دیتا تھا

بے وفا تھا بہت مگر دل کو اچھا لگتا تھا
کبھی کبھار باتیں محبت کی سُنا بھی دیتا تھا

کبھی بے وقت چلا آتا تھا ملنے کو
کبھی قیمتی وقت محبت کے گنوا دیتا تھا

تھام لیتا تھا میرا ہاتھ کبھی یوں ہی خود
کبھی ہاتھ اپنا میرے ہاتھ سے چھڑا بھی لیتا تھا

عجیب دھوپ چھاؤں سا مزاج تھا اُس کا
معتبر بھی رکھتا تھا نظروں سے گرا بھی دیتا تھا
____________

یوں تو سارا سال کراچی میں موسم معتدل و مرطوب ہی رہتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا عموما موسم سرما سے زیادہ واسطہ نہیں پڑتا مگر پھر بھی کبھی کبھی خنک و سرد ہوا وہاں کے مکینوں کا مزاج پوچھنے کو آن موجود ہوتی ہے۔
یہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا جب کراچی کی نم آلود فضا میں ہلکی ہلکی خنکی گھلی تھی۔۔۔ سورج راجہ نے آج بحیرہ عرب کے پانیوں سے ساز باز کر کے آسمان پہ اگنے سے معذرت کرتے، سرد ہواؤں کو اپنی راجدھانی قائم کرنے کا اذن دے دیا تھا۔

منعام کی آج اسعاد کی معیت میں ایک کلائنٹ کے ساتھ میٹنگ تھی۔۔۔ اس نے ان اماں جی کے بیٹے کا کیس خاصی خوش اسلوبی سے نپٹا کر اپنی پوزیشن مزید مستحکم کر لی تھی اور اس کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے اسعاد نے اگلا کیس اسے اپنے ساتھ لڑنے کی پیشکش کی تھی تاکہ وہ مزید قانونی باریکیوں سے متعارف ہو سکے۔۔۔ یہ ایک خاصا ہائی پروفائل کیس تھا اور اس میں انہیں دفاع کی کرسیوں پر بیٹھنا تھا۔۔۔ ان کی ملزمہ کا تعلق ایک جاگیردار خاندان سے تھا جس پر ایک سیاسی شخصیت کے قتل کا الزام لگا تھا۔۔۔۔ اسی سلسلے میں آج ان کی اس خاتون کے شوہر کے ساتھ میٹنگ تھی جو کہ اس خاتون کے شوہر کی ایما پر ان کے دفتر کی بجائے ایک ریستوران میں رکھی گئی تھی۔

”افراسیاب لغاری کے ساتھ میری بیوی کے دوستانہ مراسم تھے۔۔۔ وہ شائنہ کے والد کے دوست کا بیٹا تھا اور دونوں ایک ہی جامعہ میں زیرتعلیم رہے تھے۔۔۔۔ اس نے شائنہ کو شادی کی پیشکش بھی کی تھی جس سے اس نے منع کر دیا کہ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔۔۔ اس کے بعد ہی وہ پیچھے ہٹ گیا اور اس نے شائنہ سے دوستی بھی ختم کر دی۔“ وہ لوگ ایک معروف ریستوران کے بزنس کیفے میں بیٹھے متعلقہ لڑکی کے شوہر کا بیان سن رہے تھے۔۔۔ منعام پوری توجہ سے ساری بات سنتی، اپنے ہاتھ میں پکڑی ڈائری میں اہم نکات درج کرتی جا رہی تھی جبکہ اسعاد کے انداز میں بےنیازی کا عنصر نمایاں تھا گویا اسے یہ سب کہانی معلوم ہو یا پھر شاید وہ منعام کی قابلیت پرکھنا چاہتا تھا۔

”پچھلے کچھ عرصہ سے سیاست میں اس کا نام لیا جانے لگا تو ایک تقریب میں ہماری دوبارہ اس سے ملاقات ہوئی تھی جہاں اس کی شائنہ سے کسی بات کو لے کر بحث ہوئی تھی اور پھر ہفتہ بعد ہی اس کی موت کی خبر منظر عام پر آ گئی۔“ اس کی بات جاری تھی جب منعام ایکدم بول اٹھی۔

”سر! کیا آپ کی بیوی نے اس تکرار کے دوارن کوئی ایسی بات کی تھی جو ان پر شک کی گنجائش پیدا کر سکے؟“ منعام کے سوال پر داہنے ہاتھ کی دو انگلیاں ہونٹوں پر ٹکا کر بیٹھے اسعاد کی آنکھوں میں ایسا تاثر ابھرا کہ گویا وہ اس کی جانب سے اسی سوال کا منتظر ہو۔

”جی اس نے غصے میں اسے یہی کہا تھا کہ اگر اس نے دوبارہ ایسی کوئی بات کی تو وہ اس کی جان لے لے گی۔“ اس کا جواب بالکل ویسا ہی تھا جیسا کہ اس قسم کی صورتحال میں لوگوں کا عمومی ردعمل ہوتا ہے۔ منعام نے سر ہلا کر اپنی ڈائری میں کچھ لکھا اور پھر وہ دوبارہ اس کی طرف متوجہ ہوئی تھی۔

”آپ مجھے وہ وجہ بتائیں گے جو مسز شائنہ کے بھڑکنے کا باعث بنی؟“ منعام نے اگلا سوال بھی اسعاد کی توقع کے عین مطابق کیا تھا۔

”جی! اس شخص نے شائنہ کو مجھے چھوڑ کر اپنے پاس آنے کی پیشکش کی تھی جس سے انکار پر اس نے اسے ایک انتہائی نازیبا عمل پر اکسایا تو شائنہ اس کا گریبان تھام گئی۔“ مقابل نے بنا ردوکد کے اسے جواب دیا تھا۔

”پھر کیا ہوا؟“ ایک بار پھر سامنے کھلے صفحہ پر کچھ لکھ کر منعام نے اسے مزید بولنے کا اذن دیا تھا۔

”میں شائنہ کو زبردستی وہاں سے لے آیا اور پھر اس دن کے بعد سے ہماری دوبارہ اس سے ملاقات نہیں ہوئی۔۔۔  ہم لوگ اس کے قتل سے اگلے دن رات کا کھانا کھا رہے تھے جب پولیس شائنہ کی گرفتاری کے حکم نامے کے ساتھ ہمارے گھر کے دروازے پر موجود تھی۔“ اس کی اس بات نے ایک بار پھر منعام کو بولنے پر اکسایا تھا۔

”کیا آپ بتا سکتے ہیں کہ کیا وقت تھا جب پولیس نے آپ کی بیوی کو گرفتار کیا؟“ منعام کے سوال پر اس شخص نے بتایا کہ رات آٹھ سے نو کے درمیان کا وقت تھا تو وہ جھٹ اپنے موبائل کے ساتھ لگی۔

”سر! کیا آپ جانتے ہیں کہ ضابطہ فوجداری، دفعہ 46 کے تحت، شام چھ بجے کے بعد اور صبح چھ بجے سے قبل پولیس کسی بھی خاتون کو گرفتار نہیں کر سکتی، خواہ اس نے کتنا ہی سنگین جرم کیوں نہ کیا ہو۔۔۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو گرفتار کرنے والے پولیس افسر کے خلاف مقدمہ درج کیا جا سکتا ہے، جس کے تناظر میں اس کی نوکری بھی خدشے میں پڑ سکتی ہے۔“ منعام کی بات پر سامنے بیٹھے شخص نے بےساختہ نفی میں سر ہلایا تو وہ خود بھی تاسف سے سر ہلا گئی۔

”ہمارے قانونی استحصال کی ایک بڑی وجہ ہی یہی ہے کہ ہماری عوام اپنے حقوق سے نابلد ہے۔۔۔ آج کا دور اپنی حفاظت آپ کا دور ہے اور خود کو محفوظ رکھنے کیلئے یہ بےحد ضروری ہے کہ ہم ان حقائق سے آگاہ ہوں۔۔۔ خیر چھوڑیں، آپ آگے بتائیں کہ کیا ہوا؟“ منعام کی بات پر اسعاد نے بھی آنکھوں میں ایک محظوظ کن سا تاثر لئے اسے دیکھا تھا۔۔۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ اس کی ذہانت کا قائل ہوا تھا جو اس میدان میں بھلے سے ہی کچھ ماہ پہلے اتری تھی مگر ایسی کئی معلومات اس کی انگلیوں کی نوک پر دھری تھیں۔

”آپ کو کیا لگتا ہے مس منعام کہ اس شخص کی باتوں میں کس قدر سچائی ہے؟“ کچھ دیر بعد وہ شخص وہاں سے چلا گیا تو اپنی ڈائری میں کچھ نکات پر نظر دوڑاتی منعام نے اسعاد کے سوال پر نگاہیں اس کی طرف موڑی تھیں۔

”مسز شائنہ کو لے کر اس نے جو بھی کہا وہ یقینا سب سچ ہے کیونکہ اگر انہوں نے افراسیاب لغاری کو مارنا ہی ہوتا تو وہ ایک ہفتہ تک انتظار نہ کرتیں۔۔۔ ویسے بھی سر، پہلی بات تو یہ ہے کہ جس طرح سے اس شخص کا قتل کیا گیا ہے، وہ کسی شاطر دماغ کی سوچی سمجھی اختراع ہی لگتی ہے کیونکہ غصے میں کئے جانے والے قتل میں اس طرح کی باریکیوں کا دھیان نہیں رکھا جاتا، جیسی اس معاملے میں سامنے آئی ہیں۔۔۔ بالفرض مسز شائنہ نے اگر اتنی منصوبہ بندی کر کے ہی قتل کرنا ہوتا تو وہ کبھی بھی اپنی چین جائے وقوعہ پر نہ چھوڑتیں۔۔ ایسا دو ہی صورتوں میں ممکن ہے کہ مجرم ہڑبڑی کا شکار ہوگیا پھر کسی اور کو پھنسانے کی کوشش کی جا رہی ہو۔۔۔ دوسرا، مسز شائنہ کے بیان کے مطابق وہ دونوں میاں بیوی قتل کی رات شہر میں موجود ہی نہ تھے سو زیادہ امکان تو یہی ہے کہ مسز شائنہ ایک آدھ پیشی میں ہی باعزت بری ہو جائیں گی۔“ اس کی تفصیلی بات پر اسعاد کی آنکھوں میں واضح ستائش ابھری تھی۔

”مس منعام! مجھے اس وقت یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں ہو رہی کہ میں آپ کی ذہانت سے متاثر ہوا ہوں۔۔۔ آپ کی قوت مشاہدہ کمال کی ہے۔“ اسعاد نے خوشدلی سے کہتے منعام کو مسکرانے پر مجبور کر دیا۔۔۔ اس نے سر کی ہلکی سی جنبش سے یہ داد وصول کی تھی۔

”آپ کی مسکراہٹ بہت پیاری ہے۔“ اگلے ہی پل اسعاد کے بےساختہ کہنے پر منعام کی مسکراہٹ یکلخت سمٹی تھی۔

”شکریہ!“ وہ یک لفظی جواب دے کر پانی کا گلاس منہ سے لگا گئی۔۔۔ اسعاد بھی اپنی بےاختیاری پر حیران ہوتا، سیدھا ہو کر بیٹھتے، بیرے کو اپنی طرف بلانے لگا۔

”کیا میں بل دیکھ سکتی ہوں؟“ اسعاد کے اشارے پر باوردی بیرا بل لے کر آیا تو منعام کے سوال نے اسے اچھنبے میں ڈالا۔۔۔ وہ کچھ کہتے کہتے رک کر، سر اثبات میں ہلاتا ہاتھ میں پکڑی چمڑے کی بل بک اس کی طرف بڑھا گیا۔

”سر! کیا آپ جانتے ہیں کہ سیریز ایکٹ، 1887 کے مطابق آپ ملک کے کسی بھی ہوٹل میں جا کر پانی مانگ سکتے ہیں۔۔۔ ہوٹل خواہ چھوٹا ہو یا پانچ ستارہ، وہ آپ کو منع نہیں کر سکتے۔۔۔ آپ کو روکنے کی صورت میں آپ کی شکایت پر اس ہوٹل کا لائسنس منسوخ ہو سکتا ہے۔“ منعام کی بات پر جہاں اسعاد ایک بار پھر مسکرا اٹھا، وہیں پاس کھڑے بیرے کا چہرے کا رنگ اڑا تھا۔

”اپنے مینجر کو بلاؤ۔“ منعام نے اسے جانے کا عندیہ دے کر، بل بک واپس اسعاد کی طرف بڑھائی تھی۔

”میں خود کئی سالوں سے وکالت کر رہا ہوں مگر میں نے آج تک کسی ہائی پروفائل وکیل کو بھی اتنی چابک دستی سے اپنی عام زندگی میں قانونی شقوں کو لاگو کرتے نہیں دیکھا۔۔۔ آپ بہت الگ ہیں مس منعام!“ اسعاد نے ایک نئے سرے سے اپنے تاثرات کا اظہار کیا کہ وہ واقعی اس سب سے خاصا حیران ہو رہا تھا جبکہ منعام یوں مسکرائی کہ گویا اس کی بات سے محظوظ ہوئی ہو۔

”سر! لوگ ہمارے پاس انصاف دلانے کی امید پر آتے ہیں اور میرا ماننا ہے کہ جب تک ہم لوگ خود اپنے حقوق کیلئے آواز نہیں اٹھا سکتے، تب تک ہم کسی دوسرے کی داد رسی بھی نہیں کر پائیں گے۔۔۔ ہم اپنی حق تلفی برداشت کر کے کیسے کسی اور کے حق کیلئے لڑ سکتے ہیں؟“ منعام کی بات کے دوران ہی اس ریستوران کا مینجر وہاں آ گیا تو اسعاد کو کچھ کہنے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔

”ایسی ذہین عورتیں گھروں میں ہی رہیں تو بہتر ہے۔” پندرہ منٹ کی بحث کے بعد جب منعام اپنے علاوہ اس وقت وہاں موجود دوسرے کسٹمرز کو بھی مفت پانی کی سہولت مہیا کر کے اسعاد کے ساتھ وہاں سے نکلی تو پیچھے کھڑے مینجر کی بڑبڑاہٹ نما اس سرگوشی میں بےبسی اور ستائش کا عنصر برابر مقدار میں موجود تھا۔۔۔۔ اسکے علاوہ بھی باقی لوگ توصیفی نگاہوں سے اسے جاتا ہوا دیکھ رہے تھے جو انہیں ان کے بہت سے حقوق سے آگاہی دے کر وہاں سے نکلی تھی۔

“مس منعام! مجھے آج تک کسی نے پوری زندگی اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کہ اس ایک دن میں آپ نے کر دیا ہے۔” منعام کو دفتر کی گاڑی میں اسکی منزل کی طرف روانہ کر کے اپنی گاڑی کی طرف بڑھتے اسعاد کے چہرے پر یہ سوچتے، ایک جاندار مسکراہٹ ابھری تھی۔۔۔ اپنی مام کی خواہش پوری کرنا شاید اب اتنا بھی مشکل نہ تھا۔
___________

Leave a Comment