Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel



رات کے آنچل پہ تنی روشن چاند کی چاندنی نے اپنے پر سمیٹ کر، راجہ آفتاب کو اپنی جگہ آنے کی نوید سناتے، کسی دوسرے دیس جانے کی ٹھانی ہی تھی کہ ہوا کے دوش پہ اڑتے بادلوں نے اس کے گرد گھیرا ڈالتے، اسے کچھ دیر مزید رکنے کا کہا تھا۔ چاندنی نے مسکرا کر ان دیوانوں کی اس پیشکش پر نفی میں سر ہلایا تھا گویا ان کی ناسمجھی پر مسکائی ہو۔ بھلا وقت پورا ہونے کے بعد بھی کوئی کہیں ٹھہر سکا ہے۔ وقت نہ خود کسی کیلئے ٹھہرا ہے اور نہ ہی اس نے کسی کو مزید ٹھہرنے کی مہلت دی ہے۔ چاندنی کے چھٹتے ہی جہاں چرند پرند نے اپنے رب کی حمد و ثنا شروع کی وہیں پانی کے بوجھ سے لدے بادلوں نے چاندنی کی جدائی میں گرج کر برسنا شروع کر دیا تھا۔ سوکھی خشک زمین نے آسمان سے گرتے ان قطروں سے خود کو سیراب کیا تھا۔ اس زمین پر بسنے والوں میں سے یہ بارش، کچھ کیلئے باعثِ رحمت تھی تو کچھ اسے وبال جان سمجھنے کی زحمت کر بیٹھے تھے۔
”کیا عذاب ہے، یہ بارش کو بھی ابھی آنا تھا؟“ کھڑکی میں کھڑی اس لڑکی نے ایک ادھیڑ عمر کی عورت کے اندر داخل ہونے پر، گلی میں جمع بارش کے پانی میں بھاگتے دوڑتے بچوں کو دیکھتے بےزاری سے کہا تھا۔ بارش ابھی بھی زوروں سے جاری و ساری تھی اور اس لڑکی کی کوفت بھی اپنے عروج پر تھی۔
”بری بات بیٹا یہ تو باران رحمت ہے، اس سے کیسا بیر پالنا۔ یہ بارش ہی تو سوکھی پڑی زمین کو اپنی جل تھل سے سیراب کرتی ہے۔“ انہوں نے اسے نرمی سے ٹوکتے پچکارنا چاہا تھا۔
”اور کچھ زمینیں ایسی کم ظرف ہوتی ہیں کہ اس پانی کو اپنے اندر سمونے کی بجائے اسے باہر اگل دیتی ہیں اور پھر دوسروں کی راہیں بھی کھوٹی کرتی ہیں۔“ اس نے تالاب بنی گلی کی طرف اشارہ کرتے، اسی بےزاری کے ساتھ کہا تھا۔
”ہو سکتا ہے کہ اس کی کوئی مجبوری آڑے آ گئی ہو جو اس نے اس پانی کو اپنی گود میں لینے سے انکار کر دیا ہو۔“ وہ عورت ابھی بھی اس لڑکی کو مثبت پہلو ہی دکھا رہی تھی جس کے چہرے پر واضح کوفت تھی۔
”بالکل ویسی ہی کوئی مجبوری جو ایک ماں کو اپنے نوزائیدہ بچے کو بےآسرا چھوڑنے پر اکسا دیتی ہے یا ایک باپ کادل پتھر بننے پر بھی کوئی نوحہ نہیں کہتی۔“ اس کے لہجے کی تلخی بتاتی تھی کہ وہ زندگی میں دھر آنے والے مصائب سے کافی نالاں تھی۔ کمرے میں موجود دوسری عورت نے کچھ کہے بنا صوفے پر پڑے اپنی ناقدری پر روتے، اس کے کاغذات کو سمیٹ کر ترتیب سے ایک فائل میں لگایا تھا۔ وہ یقیناً انٹرویو کیلئے نہ جا پانے کے نتیجے میں آنے والے غصے کی بدولت اس حال کو پہنچے تھے۔ انہوں نے اپنا کام مکمل کر کے تاسف سے اس کی پشت کو دیکھا جو گلی میں چھاجوں برستے مینہ کو دیکھ کم اور گھور زیادہ رہی تھی۔ وہ نفی میں سر ہلاتے کمرے سے نکل گئیں۔ وہ جانتی تھیں کہ اسے قنوطیت کا دورہ پڑ چکا ہے اور اسے اس وقت چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے جیسا تھا۔ بعد میں مزاج بحال ہونے پر اس نے رسان سے ان کی بات سن لینی تھی۔
________________

Leave a Comment