Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

کسی نے مجھ سے کہا ہے کہ ملنے آنا ہے
میں کیا بتاؤں مرا کس جگہ ٹھکانہ ہے

سنا تو ہوگا کبھی لا مکاں کے بارے میں
بس اس کے پاس ہی اپنا بھی آستانہ ہے

میں ایک عمر سے وحشت کے ساتھ رہتا ہوں
ترا تو اس سے تعارف بھی غائبانہ ہے

تمہارے پیر بھی آتے ہیں دست بوسی کو
مرا قلندروں کے ساتھ دوستانہ ہے

سنا ہے آج ہماری گلی سے گزریں گے
کچھ اس لئے بھی تو موسم ذرا سہانا ہے

مجھے ریاضی بھی آتی ہے خوب آتی ہے
یہ اور بات طبیعت کہ شاعرانہ ہے

اسے بھی رسموں رواجوں سے بیر ہے اشرف
مرا مزاج بھی بچپن سے باغیانہ ہے

اشرف علی اشرف
____________

شام ڈھلی تو ایک بار پھر خان حویلی کے بڑے سے ہال میں پررونق محفل جم گئی تھی۔ شہباز اورکزئی کا ارادہ قہوہ پینے کے دوران ہی نبیشہ اور بسام کی رخصتی کی بات کرنے کا تھا سو انہوں نے آج روز کی طرح اپنے سامنے کوئی کھاتہ رجسٹر نہیں کھولا تھا۔

”بابا خان! مادر مہر! مجھے آپ سب سے کچھ بات کرنی ہے۔“ نبیشہ کے ہاتھ سے قہوے کی پیالی لے کر سامنے دھرے میز پر رکھتے شہباز اورکزئی نے اپنی بات کا آغاز کیا تھا۔

”ہم سن رہے ہیں، تم کہو۔“ بابا خان نے گرم قہوے کی چسکی بھر کر پیالی میز پر رکھ کر، اس میں مزید گڑ ڈالتے، انہیں اپنی بات جاری رکھنے کا اذن دیا تو بسام اورکزئی نے ایک بےساختہ نگاہ کشمالہ کی کسی بات پر مسکراتی نبیشہ پر ڈالی تھی۔۔۔۔ وہ اس کے متوقع ردعمل کو سوچتے، نگاہوں کا رخ واپس موڑ کر، شہباز اورکزئی کی طرف متوجہ ہو گیا تھا۔۔۔۔ اسے پورا یقین تھا کہ وہ کوئی آواز تو ضرور بلند کرے گی مگر لاعلم تھا کہ ابھی کیسے اس کی آواز دب جانے والی تھی۔

”کتنا عرصہ ہو گیا ہے، اس حویلی میں جشن نہیں منایا گیا تو کیوں نہ کسی تقریب کا اہتمام کر لیا جائے۔“ شہباز اورکزئی نے ایک طائرانہ نگاہ پرسکون بیٹھی خائستہ پر ڈالتے، اپنی بات مکمل کی تھی۔۔۔ وہ اسکے بھڑک اٹھنے کے خدشے کے پیش نظر یکدم یہ بات نہ کرنا چاہتے تھے۔

”بات تو تمہاری ٹھیک ہے مگر خوشی منانے کی کوئی وجہ بھی تو ہونی چاہئے ناں!“ بابا خان نے کہتے ساتھ قہوے کا ایک اور گھونٹ بھرا تھا۔

”بسام اور نبیشہ کی رخصتی سے بڑھ کر خوشی کی بات اور بھلا کیا ہوگی۔۔۔ میرے خیال میں اب اس نیک کام میں مزید تاخیر نہیں ہونی چاہئے۔“ ان کی بات پر وہاں موجود نفوس کے چہروں پر مختلف تاثرات ابھرے تھے۔۔۔ مادر مہر اور بابا خان نے آپس میں نظروں کا تبادلہ کرتے، ایک چور نگاہ خائستہ کی طرف دوڑائی جو یہ الفاظ سنتے ہی ہاتھ میں پکڑی پیالی میز پر رکھ چکی تھی۔۔۔ مورے کا چہرہ تو ان کی بات سنتے ہی کھل اٹھا جبکہ نبیشہ کے چہرے کا رنگ سفید پڑا تھا۔۔۔ باقی سب خوشدلی سے تائیدی انداز میں سر ہلا رہے تھے۔

”تم نے تو میرے دل کی بات کر دی ہے شہباز! میں تو دل و جان سے ان لمحوں کا انتظار کر رہی ہوں جب میں اپنے بچوں کو ایک ساتھ خوش باش دیکھ سکوں گی۔“ ادی مشرہ کی بات پر خائستہ کے چہرے کا رنگ بدلا تھا۔

”تو بس پھر ٹھیک ہے، ہم جلد ہی دونوں بچوں کی رائے جان کر، اس بارے میں کوئی فیصلہ کرتے ہیں۔“ بابا خان کی بات پتھر پر ضرب لگنے جیسے تھی جو خائستہ کو چٹخنے پر مجبور کر گئی۔

”ادی مشرہ! آپ کیوں اپنے بیٹے کے ساتھ دشمنی پر آمادہ ہیں؟“ اس سے پہلے کہ کوئی اور کچھ کہتا، خائستہ کے کاٹ دار لہجے میں پوچھے گئے سوال پر ایک پل کو ہال میں سناٹا سا چھایا تھا۔

”تم کہنا کیا چاہتی ہو خائس؟“ سوال ادی مشرہ سے ہوا تھا تو جواب بھی ادھر سے ہی آیا تھا۔

”اس کے باپ کے کرتوت جاننے کے باوجود بھی آپ اسے اپنی بہو بنانا چاہتی ہیں۔۔۔ کل کو یہ بھی وہی کرے گی جو اس کے باپ نے کیا تو پھر کیا کریں گی آپ؟“ خائستہ کے سوال انی کی طرح نبیشہ کے دل میں پیوست ہوتے، اس کی آنکھوں کو لہو رنگ کر گئے تھے۔۔۔ اس کی بات پر ادی مشرہ کے چہرے پر بھی ایک سایہ سا لہرایا تھا۔

”یہ تم کیسی باتیں کر رہی ہو خائس؟ وہ تمہاری بھی بیٹی ہے۔۔۔ کیا تم اپنی بیٹی کو خوش نہیں دیکھنا چاہتیں؟“ اس بار سوال مادر مہر نے پوچھا مگر ان کا لہجہ خائستہ کے تلخ لہجے کے برعکس نرم تھا۔

”نہیں ہے یہ میری بیٹی! یہ اپنے بھگوڑے باپ کی بیٹی ہے۔۔۔ مجھے نہیں دیکھنی اس کی خوشیاں!“ سفاکیت کی حد تک سرد لہجے میں کہی گئی بات نے ان سب کے ہی دلوں پر وار کیا تھا۔۔۔ بسام نے بےچینی سے پہلو بدلا کہ خائستہ کا احترام واجب تھا وگرنہ اس کے دل میں بہت سے الفاظ، جملوں کی صورت ڈھل کر، اس کے منہ سے ادا ہونے کو ادھم مچا رہے تھے۔

”تم اسے اپنی بیٹی ماننا نہیں چاہتیں تو مت مانو مگر یہ بھی مت بھولو کہ وہ ہماری نئی پیڑی کی سب سے بڑی بہو ہے۔۔۔ وہ پچھلے تین سالوں سے میرے بسام سے منسوب ہے اور میں کسی کو بھی اپنی بہو کی دل آزاری کی اجازت نہیں دوں گی، پھر چاہے وہ اس کی ماں ہی کیوں نہ ہو۔“ ادی مشرہ کی بات پر جہاں باقی سب نے طمانیت بھرا سانس لیا وہیں خائستہ کے چہرے پر ایک استہزائیہ مسکراہٹ ابھری تھی۔

”آپ غلطی کر رہی ہیں ادی مشرہ!“ خائستہ نے ایک بار پھر انہیں اپنے ارادے سے باز رکھنا چاہا تھا۔

”بالکل بھی نہیں! میں بس یہ جانتی ہوں کہ وہ میری بیٹی اور بہو ہے اور اس وقت یہی فیصلہ بہترین ہے۔“ آج پہلی بار ادی مشرہ نے اس کی طبیعت کے خراب ہو جانے کے بارے میں نہیں سوچا تھا کہ اپنے بیٹے کی خوشی انہیں بہت عزیز تھی۔۔۔ باقی سب خاموشی سے انہیں بات کرتا دیکھ رہے تھے کہ وہ ان دونوں کی مائیں تھیں، جن کی زندگی کا فیصلہ لیا جا رہا تھا۔

”اس کے خون میں وفا نہیں ہے ادی مشرہ! دیکھنا یہ بھی عین وقت پر بھاگ جائے گی اپنے بھگوڑے۔۔۔۔“ خائستہ کی بات ابھی پوری بھی نہ ہوئی تھی کہ یکدم نبیشہ بول اٹھی۔۔۔۔ بالآخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تھا۔

”نہیں ہوں میں اپنے باپ جیسی! میں نہیں بھاگوں گی۔۔۔ کبھی بھی نہیں بھاگوں گی۔۔۔ یہ جن سے آپ بات کر رہی ہیں ناں۔۔۔ انہوں نے مجھے تب سنبھالا تھا جب میری اپنی ماں ایک بےوفا کاسوگ مناتے ہوئے، اپنی ممتا بھلا بیٹھی تھی۔۔۔ میں بھاگنا بھی چاہوں تو بھی نہیں بھاگ سکتی کہ اپنی مورے کیلئے نبیشہ اورکزئی کی جان بھی حاضر ہے۔۔۔ سنا آپ نے نہیں ہوں میں اپنے باپ جیسی۔۔۔ میں نہیں بھاگوں گی۔۔۔ مجھے ان کا ہر فیصلہ قبول ہے۔“ اتنے سالوں میں آج پہلی بار نبیشہ کی آواز اپنی ماں کے سامنے اٹھی تھی۔۔۔ اس کے لہجے کی مضبوطی آخر میں لرزش میں بدلی تو اپنی بات مکمل کرتے ہی وہ برسنے کو بےتاب نگاہوں کو چھپانے کی غرض سے ہال سے باہر کی طرف بھاگ گئی تھی۔۔۔ بسام بےساختہ اٹھ کر اس کے پیچھے لپکا تھا۔۔۔ آج پہلی بار خائستہ اپنی عادت کے برخلاف بات سننے پر چیخنے کی بجائے خاموشی سے نبیشہ کو جاتا دیکھ رہی تھی۔۔۔ آبگینے نے بھی نبیشہ کے پیچھے جانا چاہا مگر بھائی کو ہال سے نکلتا دیکھ کر وہ اپنی جگہ پر جمی رہی۔

”سنبھل جائو خائس، اس سے پہلے کہ تمہاری بیٹی کے صبر کا چھلکتا پیمانہ مزید لبریز ہو کر اس کی خوشیوں کو راکھ کا ڈھیر بنا دے۔“ تاسف سے نفی میں سر ہلاتے، مادر مہر نے اپنی بیٹی کو نصیحت کی تھی جو خاموشی سے اٹھ کر وہاں سے چل دی تھی۔

”بابا خان! میں چاہتی ہوں کہ یہ رخصتی اسی ماہ میں انجام پا جائے۔“ ادی مشرہ نے خائستہ کے منظر سے ہٹتے ہی ان سے اپنی خواہش کا اظہار کیا تھا۔

”میں بھی ادی مشرہ کی بات سے اتفاق کرتا ہوں۔۔۔ ہم سب جانتے ہیں کہ خائس کے ساتھ برا ہوا لیکن تئیس سال بہت ہوتے ہیں کسی کا غم منانے کیلئے۔۔۔ ہم کب تک اس کی طبیعت کے خیال سے اپنے بچوں کی خوشیوں سے منہ موڑتے رہیں گے۔۔۔ برسوں پہلے نقصان صرف اس کا نہیں ہوا تھا۔۔۔“ شہباز اورکزئی اپنی بات کہتے کہتے رک کر بابا خان کو دیکھنے لگے تھے۔

”ٹھیک ہے! شاہزیب ہم چاہتے ہیں کہ بسام کے ساتھ ساتھ سہیم اور آبگینے کی بھی شادی کر دی جائے۔۔۔ کیا تمہیں کوئی اعتراض ہے؟“ بابا خان نے شہباز اورکزئی کی بات سے اتفاق کرتے، اپنے چھوٹے بیٹے کو مخاطب کیا۔۔۔۔ وہ دونوں بھی بچپن سے ہی ایک دوسرے سے منسوب تھے۔

”مجھے منظور ہے بابا خان!“ شاہزیب کی ہاں پر وہ لوگ کچھ دیر پہلے ہوا واقعہ بھلا کر، اس ضمن میں مزید معاملات طے کرنے لگے کہ وہ لوگ خائستہ کی باتوں کو نظر انداز کرنا سیکھ چکے تھے۔۔۔۔ آج کے قصے میں نئی بات نبیشہ کا چٹخنا تھا اور اسے سنبھالنے کو بسام اورکزئی ہی کافی تھا۔
____________

Leave a Comment