Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

وادی کرم پر دن چڑھتے ہی سورج کی کرنیں اطراف میں پھیلے گھنے جنگل میں بھی چھن چھن کر گرنے لگی تھیں۔۔ درختوں کے وسیع سلسلے کے بیچ بنے راستے پر تیزی سے دوڑتی جیپ میں اس وقت تین نفوس کی موجودگی کے باوجود بھی مکمل خاموشی چھائی تھی۔۔۔ شہباز اورکزئی لب بھینچے، تیزرفتاری سے جیپ آگے بڑھائے جا رہا تھا۔ اس کے ساتھ براجمان اسامہ بھی خلاف معمول خاموشی تھا جبکہ پچھلی سیٹ پر بیٹھے انتصار کے چہرے پر پھیلی سنجیدگی، اس کے ذہنی خلفشار کی غماز تھی۔۔۔ وہ تینوں ناشتہ کرتے ہی شکار کیلئے روانہ ہو چکے تھے۔۔۔ شہباز شاید حویلی میں یہ بات زیر بحث نہیں لانا چاہتا تھا سو بنا کسی بازپرس کے وہ ناشتہ کرتے ہی وہ وہاں سے نکل آیا تھا۔۔۔ انتصار مسلسل آنکھوں ہی آنکھوں میں اسامہ کو بات شروع کرنے کا کہہ رہا تھا۔۔۔ بالآخر اسے اس پر ترس آ ہی گیا اور اس نے شہباز کو مخاطب کیا تھا۔

”شہباز!“ اسامہ نے اس کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھتے، اسے پکارا تو یکلخت اس کا پیر بریک پر پڑا اور جیپ کے رکتے ہی وہ ایک جھٹکے سے اپنی جانب کا دروازہ کھول کر نیچے اتر گیا تھا۔۔۔ وہ دونوں بھی اس کی تقلید میں نیچے اتر آئے تھے۔

”شہباز!“ اس بار انتصار نے اسے مخاطب کرنے کی جرات کی جو اپنے ہاتھ اضطرابی انداز میں اپنے چہرے اور بالوں پر پھیر رہا تھا۔

”خائ۔۔۔ میری بہن صبح ہمارے کمرے میں کس کی ایما پر آئی تھی؟“ شہباز نے ان دونوں کی طرف سے رخ موڑتے، خائستہ کا نام لیتے لیتے رک کر، دھیمے مگر سرد لہجے میں استفسار کیا۔۔۔ یہی دوٹوک انداز اس کی شخصیت کا خاصہ تھا۔۔۔ وہ کبھی بھی گھما پھرا کر بات کرنے کا عادی نہیں رہا تھا۔

”میں اسے بتانا چاہتا تھا کہ جلد ہی بابا سائیں ہمارے رشتے کی بات کرنے والے ہیں۔“ انتصار نے سر جھکاتے، ساری زمہ داری اپنے سر لے لی۔۔۔ اس کی آواز سرگوشی سے زیادہ نہ تھی۔۔۔ وہ دونوں بمشکل اسے سن پائے تھے۔

”اگر یہی بات تھی تو تم دونوں لڑ کیوں رہے تھے؟“ شہباز نے ایک گہرا سانس بھرتے، اپنے سابقہ انداز میں ہی استفسار کیا تھا۔۔۔ وہ اگر انتصار کی طبیعت سے واقف نہ ہوتا یا صبح بابا خان سے اس بابت بات نہ ہوئی ہوتی تو وہ اب تک اس کا گریبان تھام چکا ہوتا مگر اب معاملہ مختلف نوعیت کا تھا۔۔۔ انتصار کا ایک جملہ ہی اسے باور کروا گیا کہ اس کی مرضی میں اس کی بہن کی مرضی بھی شامل تھی اور خائستہ کی خوشی سے بڑھ کر اس کیلئے کچھ نہیں تھا۔۔۔ اس وقت کب، کیوں، کیسے، یہ سب سوال لایعنی تھے کہ بات اب بڑوں میں تھی اور شہباز اپنے الفاظ واپس لینے والوں میں سے نہ تھا۔۔۔ وہ تو خود ہی انتصار کے حق میں فیصلہ سنا چکا تھا۔

”میں جانتا تھا، انتصار کے جذبات کے بارے میں اور صبح بابا جان کو خائستہ کیلئے انکار کر کے، مجھے اپنے حصے سے دیس نکالا مل چکا ہے سو میں اپنی بھڑاس اس پر نکال رہا تھا۔“ اسامہ نے شہباز کے تاثرات جانچتے، گول مول بات کی جبکہ انتصار ہنوز سر جھکائے کھڑا تھا۔۔۔۔ شہباز نے ایک طائرانہ نگاہ اسامہ پر ڈالی مگر کہا کچھ نہیں، وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبا تھا۔

“شہباز! میں معذرت خواہ ہوں یار کہ میری وجہ سے تمہاری دل آزاری ہوئی۔“ چند پل مزید خاموشی کی نذر ہوئے تو انتصار نے اپنی تمام تر ہمتیں مجتمع کرتے، اس کے سامنے آ کر رکتے، ندامت آمیز لہجے میں اپنی بات کہی تھی۔۔۔ شہباز نظروں کا رخ موڑتے، چند ثانیے اسے دیکھتا رہا تھا۔

“انتصار! اگر میں تمہارے کردار سے واقف نہ ہوتا تو تم اس وقت میرے سامنے زندہ نہ کھڑے ہوتے۔۔۔ امید ہے کہ آئندہ احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے گا۔“ شہباز نے اس بار قدرے نرم لہجے میں کہا تو انتصار بےساختہ اس سے لپٹ گیا۔۔۔ شہباز نے بھی اس کے گرد اپنے مضبوط و توانا بازوؤں کا جال باندھا تھا۔

”ویسے ابھی بھی کچھ نہیں بگڑا۔۔۔ یہ لے بندوق اور اڑا دے اس کا بھیجا۔۔۔ کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوگی۔“ ان دونوں کو ایک دوسرے سے لپٹے دیکھ کر، اسامہ نے جیپ سے بندوق نکال کر شہباز کی طرف بڑھاتے مضحکہ خیزی سے کہا تو انتصار نے اسے ایک تیز گھوری سے نوازا تھا۔

”ایک گولی تیرے خالی دماغ میں بھی گھسا دیتا ہوں۔۔۔ تو نے بھی تو مجھے بےخبر رکھا ناں۔“ شہباز نے اسے دیکھتے، مصنوعی سنجیدگی سے کہا تو اسامہ نے ڈرنے کی اداکاری کرتے، جھٹ بندوق اپنے پیچھے چھپائی تھی۔۔۔ چند پل بعد ہی ان لوگوں کے فلک شگاف قہقہے اس پرہول جنگل کے گہرے سناٹوں کو چیر کر، دور دور تک پھیلتے محسوس ہو رہے تھے۔۔۔ ان کے گرد زمین پر چلتے حشرات الارض، ہوا میں اڑتے پنچھیوں، بلند و بالا درخت، پھلدار پیڑوں اور پھولدار پودوں نے مسکرا کر ان کے خوش باش چہروں کو دیکھا، جن کی دوستی کو جانے کس کی نظر لگنے والی تھی۔
___________

اگر وہ پوچھ لیں ہم سے، تمہیں کس بات کا غم ہے؟
تو پھر کس بات کا غم ہے؟ اگر وہ پوچھ لیں ہم سے
___________

نبیشہ اپنی زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کی بات کا جواب دے کر جو تکلیف محسوس کر رہی تھی، وہ پچھلی تمام تکالیف سے بڑھ کر تھی۔۔۔ تیزی سے امڈتے آنسوؤں کو ہاتھ کی پشت سے رگڑتی، وہ اپنے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کرنے کو ہی تھی کہ بسام نے ہاتھ بڑھا کر اسے ایسا کرنے سے روک دیا۔۔۔ نبیشہ نے ایک آدھ بار مزاحمت کرتے کوشش کی کہ وہ دروازہ بند کر سکے مگر بسام نے اس کی اس لاحاصل کوشش کو ناکام کر دیا تھا۔

”نبیشہ!“ وہ ہار مان کر دروازہ ادھ کھلا چھوڑتی، پلٹ کر دونوں ہاتھوں میں اپنا چہرہ چھپا گئی تھی، جب بسام کی نرم پکار اس کا دل مزید گداز کر گئی۔

”ایسے رو مت پلیز! مجھے تکلیف ہو رہی ہے۔“ اسے یوں زاروقطار روتے دیکھ کر بسام کا دل سچ میں چھلنی ہو رہا تھا۔۔۔ وہ بہت باہمت تھی اور خان حویلی کے مکینوں نے شاذونادر ہی اسے آنسو بہاتے دیکھا تھا، کجا کہ یوں شدت سے اس کا رونا۔۔۔ نبیشہ بھی اپنی زندگی میں دونوں بار اسی ایک شخص کے سامنے ہی ٹوٹ کر بکھری تھی جو اس کے نزدیک اس حویلی کا سب سے سرد مزاج مکین تھا۔

”نبیشہ پلیز!“ اسے چپ نہ ہوتے دیکھ کر بسام نے اس کے کندھے پر ایک ہاتھ رکھتے، التجائیہ انداز میں اسے پکارا تو وہ گال رگڑتی، ایک جھٹکے سے اس کی طرف مڑی تھی۔

”کہا تھا میں نے کہ مجھے بتا دیں کہ سچ کیا ہے؟ مجھ سے کہہ کیوں نہیں دیتے کہ میرے باپ کی وہ کون سی خطا تھی جس کی سزا ہوش سنبھالنے سے لے کر آج تک میری ماں مجھے دیتی آئی ہیں مگر ان کا دل نہیں بھرتا۔۔۔۔ آخر ایسا کون سا راز ہے جو مجھے ہی دفن کرنے کے درپے ہے۔“ زخمی لہجے میں پوچھے گئے اس کے یہ سوال بسام کا دل چیر گئے تھے۔۔۔ اس نے بےساختہ روتی ہوئی نبیشہ کو دونوں کندھوں سے تھام کر، خود سے قریب کیا تھا۔

”میرا یقین کرو نبیشہ! یہ تکلیف اس اذیت کے آگے کچھ بھی نہیں جو تمہیں سچ جان کر ہوگی۔“ بسام نے ایک ہاتھ سے اس کا سر سہلاتے ہوئے کہہ کر، اسے ایک بار پھر ماضی کا تعاقب کرنے سے روکا تھا۔۔۔ آج ایک بار پھر نبیشہ کی تکلیف کا احساس اسے اپنے خول سے باہر نکلنے پر مجبور کر گیا تھا۔

“ایک بیٹی کیلئے اسکی ماں کی نفرت سے زیادہ باعث اذیت اور کیا ہوسکتا ہے بھلا!“ نبیشہ بھی ہمیشہ کی طرح بضد رہی۔۔۔ بسام کے دل نے کہا کہ وہ اسے بتائے کہ ایک باپ کی بدکرداری، اس کی اولاد کیلئے کسی گالی سے کم نہیں ہوتی مگر یہ اسے انگاروں پر گھسیٹنے کے مترادف تھا جبکہ حقیقت یہ تھی کہ بسام اورکزئی بھلے سے اظہار نہیں کرتا تھا مگر نبیشہ اورکزئی کا ایک آنسو بھی اس کے دل کو مضطرب کرنے کو کافی ہوتا سو وہ کیونکر اسے اتنی اذیت دینے کا سوچ سکتا تھا۔

”میں یہ تمہیں نہیں بتا سکتا کیونکہ اس سوال کا جواب بہت بھیانک ہے۔“ بسام کی بات پر نبیشہ کی خودسری عود کر آئی جو صرف بسام کیلئے ہی مختص تھی۔۔۔ کسی اور کے سامنے اس نے کبھی اس کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔

”آپ کچھ بھی کہہ لیں مگر میں بھی حقیقت جانے بغیر آرام سے نہیں بیٹھوں گی۔۔۔۔ سچ بھلے ہزار پردوں میں ہی کیوں نہ چھپا ہو، وہ ایک نہ ایک دن تو سامنے آ ہی جاتا ہے اور میں یہ کر کے ہی رہوں گی۔“ یکلخت اپنے گرد بنا بسام کے بازوؤں کا حصار توڑتی، وہ چٹخ کر بولی تو اس کی ہٹ دھرمی کے اس مظاہرے پر بسام کو بھی اپنا ضبط ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا تھا۔

”تمہاری یہی ضد ہر بار ہمارے بیچ حائل ہو جاتی ہے۔۔۔ ہم تمہارے دشمن نہیں ہیں جو تم ہماری بات سنتی ہی نہیں۔۔۔ تم نے اگر اب کوئی بھی الٹی سیدھی حرکت کرنے کا سوچا تو میں بہت برے طریقے سے پیش آؤں گا تمہارے ساتھ۔۔۔ تم بس چپ چاپ رخصتی کی تیاری کرو۔“ بسام تو اس کی ہمت بندھانے کی غرض سے اس کے پیچھے آیا تھا مگر ہر بار کی طرح اس بار بھی بات بننے کی بجائے بگڑنے کے درپے تھی۔

“کسی خوش فہمی میں مت رہئے گا۔۔۔ میں نے اگر ہاں کی ہاں کی ہے تو صرف مورے کی وجہ سے۔۔۔ آپ کو اگر لگتا ہے کہ رخصتی کروا کر آپ مجھے سچائی جاننے سے روک لیں گے تو یہ آپ کی خام خیالی ہے۔۔۔ میں ہر حال میں یہ کر کے ہی رہوں گی۔“ نبیشہ کی بات پر بسام نے تلملاتے ہوئے، اس کے دونوں بازو اپنے ہاتھوں میں جکڑے تھے۔۔۔ اس بار اس کی گرفت میں پہلے جیسی نرمی مفقود تھی۔

”میری بھی ایک بات کان کھول کر سن لو، تمہارے سچائی جاننے کی ضد میں اگر اس حویلی کے کسی ایک مکین کو بھی کوئی ایذا پہنچی تو میں اپنے ہاتھوں سے تمہاری جان لوں گا اور جو تکلیف تم خود کو دو گی، اس کا حساب بھی تمہیں الگ سے دینا ہوگا۔۔۔ میں تمہیں کبھی خود کو اذیت دینے کی اجازت نہیں دوں گا۔۔۔ ہرگز بھی نہیں!“ بسام نے آگ برساتے لہجے میں ایک بار پھر اسے تنبیہ کی اور ایک جھٹکے سے اسے آزاد کرتا، وہ لمبے لمبے ڈگ بھر کر وہاں سے چلا گیا تھا۔۔۔۔ پیچھے کھڑی نبیشہ ساکت و جامد سی اس کے کہے لفظوں کا مطلب سمجھنے کی کوشش کرنے لگی کہ اس نے کس پیرائے میں یہ بات کی تھی۔۔۔ جو بھی تھا مگر وہ اپنے ارادے کو مزید مستحکم کر چکی تھی۔۔۔ اگلے آنے والے دن جانے اب کیا قیامت لانے والے تھے۔
___________

Leave a Comment