Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

شہباز آج اسامہ کی ضد پر اس کے ساتھ رات کا کھانا کھانے کیلئے باہر آیا ہوا تھا۔۔۔ اس کا کہنا تھا کہ وہ خانساماں کے ہاتھوں کے کھانے کھا کھا کر اوب چکا ہے۔۔۔۔ شہباز بھی اس سے متفق تھا سو کچھ پس و پیش کے بعد وہ اس کے ساتھ چلا آیا۔۔۔ انتصار اپنے بابا سائیں کے بلاوے پر اپنے گاؤں گیا ہوا تھا۔۔۔ کچھ ہی دنوں میں اس کی اور خائستہ کی شادی متوقع تھی سو انہوں نے اسے کچھ خاص امور پر بات کرنے کیلئے بلا بھیجا تھا۔۔۔ وہ دونوں کھانے کی غرض سے ایک اطالوی طرز کے ریستوران میں آئے تھے مگر ہال میں پہنچنے سے پہلے ہی طائرانہ نگاہوں سے اردگرد کا جائزہ لیتے شہباز کی نظر ایک منظر پر جم سی گئی۔۔۔ راہداری کی دوسری طرف رہائشی کمرے بنے تھے سو وہاں لوگوں کی آمدورفت نہ ہونے کے برابر تھی۔

”صبح بابا جان کا فون آیا تھا۔۔۔ آنے کا پوچھ۔۔۔۔ ان لڑکیوں کو سچ میں اور کوئی کام نہیں آتا۔“ اسامہ نے بات کرتے کرتے شہباز کے رکنے پر، اس کی نظروں کا تعاقب کیا تو زرشالہ اور زرلش کو دیکھتے ہی وہ منہ میں ہی بڑبڑایا تھا۔

”آج ہم ان کی کوئی مدد نہیں کریں گے۔۔۔ چلو تم یہاں سے۔“ شہباز کے قدموں کا بدلتا رخ دیکھتے ہی اسامہ کو اپنی اس دن والی درگت یاد آئی تو اس نے فورا اسے روکنا چاہا مگر شہباز ان سنی کر کے اس طرف بڑھ گیا جہاں وہ مال والا شخص زبردستی زرشالہ کا ہاتھ تھام کر اسے اپنے ساتھ لے جانا چاہتا تھا۔۔۔ اسامہ بھی بلاارادہ اس کے پیچھے لپکا۔۔۔ زرشالہ مسلسل خود کو چھڑانے کی سعی کر رہی تھی جبکہ زرلش آنکھوں میں آنسو لئے مدد کی غرض سے اپنے اطراف میں نگاہیں دوڑا رہی تھی۔۔۔ ان لوگوں پر نظر پڑتے ہی ان دونوں نے اس کے چہرے پر ایک اطمینان کا رنگ ابھرتے دیکھا تھا۔۔۔ یہ یقیناً ان کی پچھلی ملاقاتوں کا ہی شاخسانہ تھا۔

”ہماری مدد کیجئے پلیز! یہ شخص ہمارے ساتھ زبردستی کر رہا ہے۔“ ان کو دیکھتے ہی وہ لپک کر اس جانب آئی تھی۔۔۔ شہباز نے اس کے سر پر ہاتھ رکھتے اسے تسلی دی اور آگے بڑھ کر ایک زوردار مکا اس شخص کے منہ پر جڑا تھا جو ایک کمرے کا دروازہ کھول رہا تھا۔۔۔ اس کے ارادے یقیناً نیک نہیں تھے۔

”منع کیا تھا ناں اس دن تمہیں کہ دوبارہ ان کو تنگ مت کرنا۔“ شہباز خاصے ٹھنڈے مزاج کا حامل شخص تھا مگر اس وقت اس کا غصہ عود کر آیا کہ وہ کسی بھی حال میں عورت کی تذلیل کا قائل نہ تھا۔

”اوئے ہیرو! زیادہ دادا گیری دکھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تجھے اس دن بھی کہا تھا کہ یہ میری منگ ہے۔۔۔ تو اپنی شکل گم کر یہاں سے۔“ شہباز کی بات کے دوران مقابل بھی سنبھل کر بولتا، یقیناً اسے پہچان چکا تھا۔۔۔ اس نے ایک بار پھر زرشالہ کا ہاتھ تھامنا چاہا تو زرلش فورا بول اٹھی۔

”یہ شخص جھوٹ بول رہا ہے۔۔۔ یہ ہماری پھپھو کا بیٹا ہے اور اپنے رشتے سے انکار پر ہم سے زبردستی بدلہ لینا چاہتا ہے۔“ زرلش نے روتے ہوئے کہا تو ان دونوں کی بےساختہ نظر زرشالہ کی طرف گئی جو آج خلاف معمول خاموش تھی اور اس کی آنکھوں میں چمکتے آنسوؤں نے عجیب طرح سے ان پر اثر کیا تھا۔۔۔ اس شخص نے اب کی بار زرلش کو اپنے ساتھ گھسیٹنا چاہا تو شہباز نے آگے بڑھ کر اس شخص پر مکوں کی بارش کر دی۔۔۔ اسامہ نے ہوٹل سیکیورٹی کو کال کر کے شہباز کو کندھوں سے تھاما جبکہ وہ شخص مسلسل جوابی وار کی کوشش میں ناکام ہوتے منہ سے مغلظات بکنے لگا۔۔۔۔۔ شہباز کو پیچھے کرتے اسامہ نے بھی اس کی بکواس سن کر غیرارادی طور پر اسے دو ہاتھ جڑ دیئے۔۔۔ شور کی آواز پر ایک دو مزید لوگ بھی وہاں آ گئے تھے۔۔۔ ذلت و اہانت کے احساس کے تحت دونوں لڑکیوں کی آنکھوں سے سیل رواں تھا۔

”ایک بار کا تجربہ کافی نہیں تھا آپ کیلئے جو دوبارہ تنہا محافظوں کے بغیر نکل آئیں۔“ سیکیورٹی کے آتے ہی شہباز ان سے بات کرنے لگا تو اسامہ نے سسکیاں بھرتی زرلش کو مخاطب کیا۔۔۔ لاشعوری طور پر اس کا لہجہ خاصا سخت ہو گیا تھا۔

”محافظ ہیں ہمارے ساتھ مگر وہ باہر ہیں جبکہ اس شخص نے ہمیں اندر گھیرا تھا۔“ یہ جواب آنسو پونچھتی زرشالہ نے دیا۔۔۔ آج کے واقعہ نے اسے بھی ہلا کر رکھ دیا تھا سو اس کے لہجے کی تیزی کہیں دور جا سوئی تھی۔۔۔ اسامہ نے کچھ کہنا چاہا مگر شہباز کی مداخلت پر وہ چپ ہو رہا۔۔۔ وہ ان سب کو مینجر کے آفس میں چلنے کا کہہ رہا تھا کہ پولیس کچھ ہی دیر میں پہنچنے والی تھی اور وہ لوگ اب بنا بیان دیئے کہیں نہ جا سکتے تھے۔۔۔ اس سے پہلے کہ وہ راہداری عبور کرتے، دو سیکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ چلتے اس شخص نے یکدم ہی ایک اہلکار کی جیکٹ سے جھانکتا لوڈڈ پستول نکال کر، کسی کے کچھ بھی سمجھنے سے پہلے، اس کا رخ اپنے سے دو قدم آگے چلتے شہباز کی طرف موڑ کر لبلبی دبا دی تھی۔

”شہباز!“ اسامہ کی پکار اور دونوں لڑکیوں کی چیخیں بےساختہ تھیں۔۔۔ سیکیورٹی اہلکاروں نے جھٹ اس سے پستول چھین کر اسے گردن سے دبوچ لیا۔۔۔ شومئی قسمت کہ وہ شخص مار کھا کر ہی ادھر موا ہو چکا تھا سو اس کا بنا کسی نشانے کے گولی چلانا کام آ گیا اور گولی شہباز کے دائیں بازو میں پیوست ہوئی تھی۔
اگلے آدھے گھنٹے میں شہباز کو اسپتال پہنچا دیا گیا تھا۔۔۔۔ ضروری کاروائی مکمل کر کے زرلش اور زرشالہ بھی وہاں پہنچ گئیں اور اب زرشالہ ضد کر کے، اس کا آپریشن کرنے والے ڈاکٹروں میں شامل تھی جبکہ زرلش باہر لگے صوفوں میں سے ایک پر بیٹھی، بڑی مشاقی سے آنسو بہانے کا کام جاری رکھے ہوئے تھی۔۔۔ اسامہ گاہے بگاہے اس پر نظریں دوڑاتے، اسے کچھ کہنے کو لب کھول کر واپس بھینچ لیتا۔۔۔ اس نے صرف انتصار کو اس واقعہ کی اطلاع دی تھی۔۔۔ زرلش کی گریہ و زاری برداشت سے باہر ہوئی تو وہ اس سے کچھ فاصلے پر بیٹھتے، اسے مخاطب کر گیا۔

”زرلش پلیز!“ اسامہ کے لہجے میں پنہاں التجا، اس کے آنسوؤں کو مزید تقویت بخش گئی۔

”آج آپ لوگ نہیں ہوتے تو نجانے ہمارے ساتھ کیا ہو جاتا؟ وہ شخص بارہا ہمارے ساتھ دست درازی کی کوشش کر چکا ہے مگر بابا جان ہماری سنتے ہی نہیں۔۔۔ تراہ جان کا ڈر نہ ہوتا تو وہ ہمیں گھر سے ہی نہ نکلنے دیتے۔۔۔ بابا جان نے کبھی مجھے پیار نہیں کیا۔۔۔ مورے کو بھی وہ اپنی نفرت کی بھینٹ چڑھا چکے ہیں۔۔۔ اس شخص کو بھی انہی کی شہ ملی ہوئی ہے۔۔۔ تراہ دلشاد نے ہی مجھے اس شخص سے بچا کر اس رشتے سے انکار کیا تھا اور آج بھی اس شخص کی ہٹ دھرمی پر زری نے اسے خوب سنائیں تو وہ زبردستی پر اتر آیا۔۔۔ یہ جو محافظ باہر کھڑے ہیں ناں، ان میں سے بھی آدھے اس کے وفادار ہیں۔“ اسامہ کی آنکھوں میں اس کی باتوں پر واضح سرخی ابھری تھی۔

”تم فکر مت کرو۔۔۔ اب تم محفوظ ہاتھوں میں ہو۔“ اسامہ نے اس کا سر تھپک کر کہتے، اسے تسلی دی تھی۔۔۔ اسی اثنا میں آپریشن تھیٹر کا دروازہ کھلا اور تکان زدہ سی زرشالہ باہر آئی تھی۔

”وہ اب ٹھیک ہیں۔۔۔ گولی نکال دی ہے۔۔۔ بروقت امداد مل جانے کے باعث زیادہ نقصان نہیں ہوا۔۔۔ کچھ ہی دیر میں انہیں کمرے میں منتقل کر دیں گے۔“ زرشالہ نے ان کی سوالیہ نظروں کا مفہوم سمجھتے ہی انہیں ایک ہی سانس میں ساری صورتحال سے آگاہ کر دیا تھا۔۔۔ اس کی بات پر ان دونوں نے ہی تشکر بھرا سانس لیا تھا۔۔۔ اب وہ لوگ ازسر نو اسامہ کے ساتھ آج والے واقعہ پر بات کر رہی تھیں جبکہ اسامہ کا غصہ ساتویں آسمان کو چھو رہا تھا۔
__________

چھوڑ جانے پہ پرندوں  کے مذمت کی ہو
تم نے دیکھا ہے کبھی پیڑ نے ہجرت کی ہو
جھولتی شاخ سے چپ چاپ جدا ہونے پر
زرد پتوں نے ہواؤں سے شکایت کی ہو
اب تو اتنا بھی نہیں یاد کہ کب آخری بار
دل نے کچھ ٹُوٹ کے چاہا کوئی حسرت کی ہو
ایسا ہمدرد تِرے بعد کہاں تھا، جس نے
لغزشوں پر بھی مِری کُھل کے حمایت کی ہو
دل شکستہ ہے، کوئی ایسا ہنر مند بتا
جس نے ٹوٹے ہوئے شیشوں کی مرمت کی ہو
شب کے دامن میں وہی نور بھریں گے احمد
جن چراغوں نے اندھیرے سے بغاوت کی ہو
___________

منعام نے اپنے کہے کے مطابق دو ہی پیشیوں میں شائنہ کو بےقصور ثابت کر کے اسے ناصرف باعزت بری کروا لیا بلکہ اس نے شائنہ کی رضامندی سے اس پولیس افسر کے خلاف اپیل بھی دائر کر دی تھی جس نے وقت کیلئے مختص قانون سے صرف نظر برتتے، اسے بےوقت گرفتار کیا تھا۔۔۔ اس کیس نے عدالتی حلقوں کے ساتھ ساتھ سیاسی حلقوں میں بھی منعام کی مقبولیت میں خاصا اضافہ کیا تھا۔۔۔ اس کے دلائل اور اسعاد کی رہنمائی نے اس کی جیت میں ایک اہم کردار ادا کیا تھا۔۔۔ پچھلے کچھ عرصے سے ان کی فرم کافی کیسز جیتی تھی سو اسعاد نے اس ہائی پروفائل کیس کے جیتنے کی خوشی میں اپنی پچھلی تمام کامیابیوں پر بھی خوشی منانے کا سوچا تھا۔۔۔ اس نے فرم کے تمام وکلا اور ملازمین کیلئے ایک پرتکلف ضیافت کا اہتمام کیا تھا۔۔۔ منعام بھی کچھ پس و پیش کے بعد اس تقریب کا حصہ بننے کیلئے تیار ہو گئی کہ اس جیت کا سہرا اسی کے سر جاتا تھا۔۔۔ اسعاد اس وقت رات کے کھانے سے فراغت کے بعد حسب معمول اپنے گھر والوں کے ساتھ براجمان انہیں کل کی تقریب کے مندرجات سے آگاہ کر رہا تھا جبکہ اس کا اصل مطمع نظر کچھ اور ہی تھا۔

”ڈیڈ! آپ کی اگر کوئی میٹنگ ہے تو اسے ابھی سے ہی منسوخ کروا دیں کیونکہ کل آپ لوگوں کو بھی میرے ساتھ پارٹی میں چلنا ہے۔“ اسعاد نے انہیں اس کیس کے متعلق بتاتے ہوئے اچانک سے کہا تو انتصار بنگش کے ساتھ ساتھ زرش نے بھی چونک کر اسے دیکھا کہ وہ تو ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی کو الگ رکھنے کا قائل تھا تو پھر اب یہ کیوں؟ کچھ انتصار بنگش کاروباری حلقوں میں جانے جانے کے باوجود بھی بہت کم کسی تقریب میں شرکت کرتے تھے سو اسعاد کی اس فرمائش پر ان کی حیرت بجا تھی۔

”خیریت! کل کی تقریب میں ایسی کیا خاص بات ہے جو ہمیں بھی چلنے کا کہہ رہے ہو۔۔۔ تم جانتے تو ہو کہ تمہارے ڈیڈ بہت کم ایسی تقریبات میں جانا پسند کرتے ہیں۔“ زرش نے حیرت بھرے لہجے میں استفسار کیا تو اسعاد کے چہرے پر ایک نہایت دلفریب مسکراہٹ ابھری تھی۔

”مام! میں جانتا ہوں کہ ڈیڈ کو اس طرح کی تقریبات میں جانے کا کوئی شوق نہیں ہے مگر میں پھر بھی چاہتا ہوں کہ آپ لوگ میرے ساتھ چلیں۔“ اسعاد نے ابھی بھی گھما پھرا کر ہی بات کی تھی۔۔۔ ہر بات دوٹوک انداز میں کرنے والے کو اس وقت جانے کیوں اپنے دل کی بات کہنا کچھ مشکل لگ رہا تھا۔

”چلتے ہیں مام! کیا خبر بگ بی نے کوئی لڑکی پسند کر رکھی ہو، جس سے ہمیں ملوانا چاہتے ہیں۔“ مصفی نے اسے چھیڑنے والے انداز میں کہہ کر انجانے میں ہی اس کی مشکل آسان کی تھی۔

”کیا پتا، یہ سچ ہو!“ اسعاد نے بھی اسی کے انداز میں مسکراہٹ دبا کر کہتے ان سب کو ہی حیران کیا تھا۔

”آپ مذاق کر رہے ہیں ناں بگ بی؟“ مصفی کو تو یقین ہی نہ آیا تھا کہ ایسا کچھ اسعاد نے کہا ہے جبکہ ان کے والدین بھی حیران نظروں سے اسے دیکھ رہے تھے۔

”اس میں مذاق والی کیا بات ہے؟“ اسعاد نے اس کے بال کھینچتے، ابھی بھی مبہم سی بات کی تھی۔

”کون ہے وہ؟ اس کے والدین کیا کرتے ہیں؟“ اس کی بات پر زرش نے لڑکی کے متعلق استفسار کیا تو انتصار نے اس کے خاندان کے بارے میں مگر وہ ابھی کچھ بھی بتانے سے انکاری تھا۔

”اب یہ تو کل وہاں جا کر ہی پتا چلے گا کہ وہ کون ہے؟“ اسعاد نے مسکراتے لہجے میں کہا تو مصفی بھی شرارت سے مسکرا دی۔

”میں بتاتی ہوں کہ وہ کون ہے؟“ وہ آنکھیں پٹپٹاتی ہوئی گویا ہوئی تو اسعاد نے اسے ایک گھوری سے نوازا تھا۔

”یہ وہیں ہیں ناں جن کا ذکر آپ پچھلے آدھ گھنٹے سے کر رہے تھے ورنہ آج سے پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا کہ اسعاد بنگش نے کسی کی اتنی تعریف کی ہو اور وہ بھی خاص کر ایک لڑکی کی۔“ مصفی نے اپنی بات مکمل کر کے تائیدی نظروں سے اسے دیکھا تو وہ اس کے سر پر چپت رسید کر کے، بنا کچھ کہے سامنے لگی سکرین کی طرف متوجہ ہو گیا۔

”مصفی سچ کہہ رہی ہے ناں اسعاد! مجھے بتاؤ کہ وہ دکھنے میں کیسی ہے؟ تمہیں کب ملی؟“ اس کی خاموشی اور چہرے پر پھیلی مسکراہٹ نے زرش کے شک پر بھی یقین کی مہر لگائی تو وہ جھٹ اشتیاق بھرے لہجے میں گویا ہوئی تھی۔

”کل دیکھ لیجئے گا مام! امید ہے کہ آپ کو مایوسی نہیں ہو گی۔“ اسعاد نے دو جملوں میں ہی ساری بات سمیٹ دی کہ ابھی اس کا ارادہ ان لوگوں کو صرف منعام سے ملوانے کا تھا۔۔۔باقی کے مراحل وہ منعام سے بات کرنے کے بعد ہی طے کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔

”ہم تمہارے ہر فیصلے میں تمہارے ساتھ ہیں بیٹا مگر حسب نسب کا خیال رکھنا بھی بےحد ضروری ہے۔“ انتصار بنگش نے تائید کے ساتھ تنبیہ کرنا بھی ضروری سمجھا مگر اسعاد کا فلسفہ ان سے کچھ الگ تھا۔

”ڈیڈ! میرے نزدیک انسان کی پرورش بہترین ہونی چاہئے۔۔۔ حسب نسب کسی کے کردار کی ضمانت نہیں ہوتا۔۔۔ میں بہت سے اعلی نسب سے تعلق رکھنے والوں کو انسانیت کے مرتبے سے بھی نیچے گرتا ہوا دیکھ چکا ہوں۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ نچلے طبقے کے بہت سے لوگوں کو میں نے رواداری کی بےنظیر مثالیں قائم کرتے دیکھا ہے سو میرے لئے نسب سے زیادہ انسانی زندگی کا نصاب معنی رکھتا ہے، جس سے مرتب کردہ خطوط پر ایک انسان کی تربیت کی جاتی ہے۔“ اسعاد کی بات نے ان سب کو ہی لاجواب کیا تھا۔۔۔ زرش نے اپنے بیٹے کی اس قدر اعلی سوچ پر اسے ستائشی نظروں سے نہارا تو انتصار بنگش اس سے اختلاف رکھنے کے باوجود بھی چپ ہو گئے کہ وہ ایک بار اس لڑکی کو مل کر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہتے تھے۔
_________

Leave a Comment