Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

خان حویلی میں بسام اور نبیشہ کے ساتھ ساتھ سہیم اور آبگینے کی شادی کی تیاریاں بھی شروع ہو چکی تھیں۔۔۔۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ نبیشہ کی سنجیدگی میں حد درجہ اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ خائستہ کا رویہ اور ماضی کی حقیقت جاننے کی جستجو اسے کسی طور چین نہ لینے دیتی تھی۔۔۔ اس دن کی تلخ کلامی کے بعد سے نبیشہ کی پوری کوشش تھی کہ اس کا اپنی ماں سے سامنا کم سے کم ہو۔۔۔ بھلے سے وہ دل سے خوش نہ تھی مگر وہ یہ بھی نہیں چاہتی تھی کہ کسی بھی قسم کی بدمزگی کی صورت میں حویلی کا ماحول خراب ہو کیونکہ وہ اپنے ساتھ اپنے دونوں بہترین دوستوں آبگینے اور سہیم کی خوشی بھی مانند نہ پڑنے دینا چاہتی تھی۔۔۔ وہ دونوں ہی اس کی تنہائیوں اور اداسیوں کے ساتھی رہے تھے۔۔۔ سہیم اسے اپنی چھوٹی بہن مانتا تھا اور وہ اپنے بھائی کی خوشی پھیکی نہیں کر سکتی تھی۔۔۔ ابھی بھی وہ اندر خائستہ کی سب لوگوں میں موجودگی کے باعث اٹھ کر باہر دالان کی سیڑھیوں پر بیٹھی آن تھی۔۔۔ کچھ دیر قبل ہی مورے سب کو شہر سے نبیشہ اور آبگینے کیلئے لائے گئے جوڑے دکھا رہی تھیں۔۔۔ خائستہ نے بہت شوق سے آبگینے کے ہر جوڑے کی تعریف کی جبکہ نبیشہ کیلئے لائے گئے ملبوسات انہوں نے یوں پرے کئے جیسے کسی بچھو نے انہیں ڈنگ مار دیا ہو۔ وہ ان کے مزید بھڑکنے کے خیال سے ہی وہاں سے اٹھ کر یہاں آ کر بیٹھتے، ڈوبتے سورج کی نارنجی کرنوں پر نگاہیں جمائے جانے کس سوچ میں مگن تھی۔

”کیا دیکھ رہی ہو؟“ اس کے یوں غیر محسوس انداز میں اٹھ کر باہر آ جانے پر اس کے پیچھے آتے سہیم نے اس سے کچھ فاصلے پر براجمان ہوتے ہوئے پوچھا تھا۔

”دیکھ رہی ہوں کہ ہر عروج کو زوال ہے۔۔۔ یہ ڈوبتا سورج اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ بالآخر ہر سفر کا اختتام ہے تو پھر میری جستجو اور تکلیف کو کوئی کنارہ کیوں نہیں ملتا؟“ نبیشہ کے لہجے کا زخمی پن ایک پل کیلئے سہیم کو بھی لاجواب کر گیا تھا۔

”چندا! اداس کیوں ہوتی ہو؟ یہ آزمائشیں تو انسانی زندگی کا حصہ ہیں۔۔۔ وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔۔۔ تمہاری زندگی میں اگر کچھ رشتوں کی کمی ہے تو اللہ پاک نے متبادل کے طور پر تمہیں اور بہت سے رشتوں سے نوازا ہے۔۔۔ تم جو نہیں ہے، اس پر اداس ہونے کی بجائے، جو میسر ہے اس پر خوش تو ہو کر دیکھو۔“ سہیم نے رسان اسے سمجھانا چاہا۔۔۔ جانتا تھا کہ وہ اس وقت قنوطیت کے زیرِ اثر ہے سو وہ نرم لہجے سے اسے رام کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔

”میں کب خوش نہیں ہونا چاہتی مگر میرے باپ سے ہوا انجانا گناہ ہر بار میرے راستے کی رکاوٹ بن جاتا ہے۔۔۔ میں جس بھی راہ چلوں، ہر موڑ پر ان دیکھا ماضی حائل ہے۔۔۔ میں کروں تو کیا کروں؟“ نبیشہ آج پہلی بار بسام کے بعد کسی اور کے سامنے بھی اپنے جذبات عیاں کر رہی تھی ورنہ وہ ہمیشہ سے اپنے احساسات چھپا کر رکھنے کی عادی تھی۔۔۔ وہ ہمیشہ ایسے کسی موقع پر خاموشی اختیار کر کیا کرتی تھی مگر اب اس کے گرد چڑھا خول چٹخنے لگا تھا۔۔۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی شاید کہ ہر گزرتے دن کے ساتھ خائستہ کی زبان کے نشتروں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ شاید ان دونوں کی اذیت ہی حد سے سوا ہونے لگی تھی۔

”تم تو بہت بہادر ہو گڑیا تو پھر یہ ناامیدی کی باتیں کیوں کرتی ہو۔۔۔ آزمائشوں بھری شب کتنی ہی طویل کیوں نہ ہو، اس کا اختتام ایک روشن سویرے پر ہی ہوتا ہے۔“ سہیم نے اسے اس کیفیت سے نکالنے کی ہر ممکن کوشش کی تھی مگر بےسود!

” کہیں ایسا نہ ہو کہ میری آزمائشوں کا سلسلہ میری موت کے ساتھ ہی ختم ہو اور پھر روز قیامت ہی مجھے کسی روشن سویرے کی نوید سنائی جائے۔۔۔ تب جب میں اپنے باپ کا گریبان تھام کر اس سے سوال کر سکوں۔۔۔ مجھے تو بس اب اسی بات کی امید ہے۔“  اس کی بات پر سہیم کے ساتھ وہاں سے گزرتے بسام کا دل بھی سکڑ کر پھیلا تھا۔۔۔ اس نے تو کبھی نبیشہ کو اتنا مایوس نہیں دیکھا تھا تو پھر کیونکر اس کی امید اندھیروں میں ڈوب رہی تھی۔۔۔ نبیشہ اپنی بات مکمل کر کے وہاں رکی نہیں تھی۔۔۔ پلٹ کر پیچھے کھڑے بسام کو دیکھتے، وہ بس پل بھر کو رکی اور پھر تیزی سے اس کے ساتھ سے ہو کر گزرتے، راہداری میں گم ہو گئی تھی۔

”لالہ آپ!“ سہیم نے بھی مڑ کر دیکھا تو بسام کو وہاں موجود پا کر وہ اٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اب وہ بسام کے استفسار پر اسے سارا واقعہ بتا رہا تھا جسے سنتے اس کا دل بھی درد سے بھر گیا۔۔۔ اب اسے ہی کچھ کرنا تھا۔۔۔ وہ یوں اپنی متاع جاں کو سسکتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا تھا۔
_________

Leave a Comment