Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

رات قطرہ قطرہ ڈھل رہی تھی اور اسپتال کی تاریک و سرد راہداریوں میں بھاگتی دوڑتی زندگی بھی اب مکمل سکوت پذیر تھی۔۔۔ اسی راہداری میں ایک جانب بنے کمرے میں موجود نفوس بستر پر دراز شخص پر نگاہیں جمائے ہوئے تھے۔۔۔۔ زرلش اور زرشالہ بھی اسامہ کے کہنے کے باوجود وہیں موجود شہباز کے ہوش میں آنے کی منتظر تھیں کہ زرشالہ کی آج رات کی ڈیوٹی تھی اور زرلش اسے یوں تنہا چھوڑ کر نہ جانا چاہتی تھی۔۔۔ زرشالہ خود بھی اس حالت میں اس کے ہاسٹل جانے کے حق میں نہ تھی۔۔۔ وہ تب سے لے کر اب تک بیسیوں بار آنسو بہا چکی تھی سو اس نے وارڈن کو فون کر کے اسے اپنے پاس ہی رکھ لیا تھا۔۔۔ اسامہ نے وادی میں کسی کو بھی اس حادثے کی بابت آگاہ نہ کیا تھا۔۔۔ حویلی میں خائستہ اور انتصار کی شادی کی تیاریاں چل رہی تھیں سو وہ اس وقت انہیں پریشان نہ کرنا چاہتا تھا۔۔۔۔ جانے یہ راز کب تک راز رہتا۔

ہولے ہولے رات کی سیاہی صبح کی سپیدی میں بدلنے لگی تو شہباز کے ساکت وجود میں حرکت ہوئی تھی۔۔۔۔ کچھ ہی دیر میں ڈاکٹر اس کا معائنہ کر کے اس کے متعلق تسلی بخش جواب دے کر وہاں سے جا چکے تھے۔۔۔ زرشالہ بھی راؤنڈ کیلئے نکل گئی تھی۔۔۔ اب اسامہ اور زرلش ہی اس کے پاس تھے۔۔۔ ایک کونے میں لگے صوفے پر بیٹھنے کی وجہ سے وہ ابھی تک شہباز کی نظروں سے اوجھل ہی تھی۔

”ڈرا دیا تھا تم نے تو یار! اب ٹھیک ہو ناں۔۔۔ کہیں درد تو نہیں ہو رہا۔“ ڈاکٹروں کے جاتے ہی اسامہ اس کی طرف لپکا تو شہباز نے اٹھ کر بیٹھتے نفی میں سر ہلایا تھا۔

”میں ٹھیک ہوں۔۔۔“ وہ مزید بھی کچھ کہتا مگر زرلش کے ایکدم اٹھتے ہی، آگے آ کر شہباز کے صحت مند بازو کو اپنے ہاتھ میں لے کر رونے پر وہ دونوں ہی ششدر رہ گئے تھے۔

”آپ کو کچھ ہو جاتا تو میں کبھی خود سے نظریں نہ ملا پاتی۔“ زرلش کی حرکت اور بات، دونوں ہی شہباز کیلئے ناقابل فہم تھیں۔۔۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا ہاتھ چھڑاتے، سوالیہ نظروں سے اسامہ کی طرف دیکھا تھا۔

”میں نے تو منع کیا تھا یار مگر یہ دونوں ہی یہاں سے نا جانے پر بضد تھیں۔ مجبوراً مجھے ان کو یہاں ٹھہرنے کی اجازت دینی پڑی۔“ اسامہ نے اس کی آنکھوں سے چھلکتی ناگواری پر جھٹ سے وضاحت کی جبکہ زرلش کا رونا ہنوز جاری تھا۔

”تمہارا دماغ درست ہے؟ جانتے ہو ناں کہ یہ کون ہیں اور ان کا یہاں رات بھر رکنا کیا مصیبت کھڑی کر سکتا ہے؟ آپ تو رونا بند کریں۔“ شہباز نے اسامہ کی بات پر برہمی سے کہتے، تیز لہجے میں روتی ہوئی زرلش کو بھی ٹوکا تو اس کے رونے میں مزید تیزی آئی تھی۔۔۔ اس کے چہرے پر پھیلتی گہری سنجیدگی پر اسامہ ہڑبڑا کر زرلش کی طرف مڑا تھا۔

”دیکھیں محترمہ! آپ ازراہ مہربانی اپنے ان بارش کی طرح بہتے آنسوؤں پر بند باندھ لیں وگرنہ یہ صاحب آپ کو اسی سیلاب میں ڈبونے سے بھی گریز نہیں برتیں گے۔“ اس قدر کبیدہ صورتحال میں بھی اسامہ کی اس قدر مضحکہ خیزی نے شہباز کو مزید برہم کیا مگر وہ اسے مکمل طور پر نظرانداز کئے، اپنی ہی کہے جا رہا تھا۔

”یہ گولی اگر مجھے لگی ہوتی تو میں اس درجہ خوبصورت دوشیزہ کے اپنے لئے آنسو بہانے پر خوشی سے اس حسینہ کو گلے بھی لگا لیتا مگر یہ ذرا زاہد مزاج بندہ ہے سو آپ اپنے یہ انمول نیر اس بےمہر انسان کیلئے ضائع نہ کریں۔“ اس کی گل افشانی پر زرلش نے روتے ہوئے یوں اسامہ کو دیکھا گویا اسے اس کی ذہنی حالت پر شبہ ہو۔

”کیا ہوا زرلش؟ تم ایسے رو کیوں رہی ہو؟“ اسی اثنا میں زرشالہ کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی تو اسے یوں روتا دیکھ کر وہ جھٹ اس کی طرف آئی مگر اسکے سوال کا جواب کہیں اور سے آیا تھا۔

”محترمہ! میں آپ کو عقلمند سمجھتا تھا مگر آپ نے مجھے غلط ثابت کر دیا۔۔۔ آپ جانتی بھی ہیں کہ آپ کے اس امر کا خمیازہ کس کس کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔۔۔ مجھے آپ سے اس بےوقوفی کی امید نہیں تھی۔“ شہباز کے ناگواری اور برہمی سے کہنے پر وہ بازو پر دھرا اوور کوٹ اور ہاتھ میں پکڑا استھیٹو سکوپ پاس دھری کرسی پر پٹخنے کے انداز میں رکھتے ہوئے اس کی طرف مڑی تھی۔

”آپ کو ہم سے یوں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔“ زرشالہ نے تیوری چڑھا کر، اسے تیز نظروں سے گھورتے ہوئے تنک کر کہا تھا۔

”آپ کو بھی کوئی حق نہیں تھا یہاں رکنے کا۔۔۔ ابھی تو پہلی دشمنی کے آثار معدوم نہیں ہوئے اور آپ نئے سرے سے ان زخموں کو کھرچنا چاہتی ہیں۔“ شہباز بھی اسے کسی قسم کی رعایت دینے کے موڈ میں نہ تھا۔۔۔ وہ اپنے مضروب بازو کا درد مکمل فراموش کئے نئے پرانے کھاتے کھولنے پر آمادہ نظر آتا تھا۔۔۔ زرلش اپنے آنسو بھول کر ہونقوں کی طرح انہیں دیکھنے لگی جبکہ اسامہ تو کچھ کہنے کا موقع ہی تلاش رہا تھا۔

”لازمی نہیں کہ ہر جھگڑے کا اختتام دشمنی ہی ہو۔۔۔۔ بعض اوقات لڑائی کا انجام صلح بھی ہوتا ہے۔“ زرشالہ کا لہجہ اس بار قدرے دھیما تھا مگر شہباز متاثر دکھائی نہ دیتا تھا۔

”محترمہ! میں آپ کے مفروضوں پر کسی کی سلامتی خطرے میں نہیں ڈال سکتا لیکن ایک چیز میں اپنی تصحیح کر لیں کہ لڑائی کا اختتام تو صلح پر ہو سکتا ہے مگر انجام نہیں۔۔ انجام ہمیشہ خطرناک ہوتا ہے۔“ شہباز کی بات پر ایک بار پھر زرشالہ کی تیوری پر بل پڑے تھے۔

”آپ اس قابل ہی نہیں ہیں کہ آپ سے ہمدردی کی جائے۔“ اس نے جل کر کہتے کرسی سے اپنی چیزیں اٹھائی تھیں۔

”میرا بھی آپ کے بارے میں یہی خیال ہے۔“ شہباز نے تڑخ کر کہتے، اسے مزید غصہ دلایا تھا۔۔۔ وہ دونوں ہی مقام و حالات کا تعین کئے بنا، بس ایک دوسرے کو سالم نگل جانے کے درپے تھے۔

”خاتون! آپ ابھی تشریف لے جائیں۔۔۔ ہم اس موضوع پر بعد میں بات کریں گے۔“ معاملات مزید کشیدہ ہونے کے ڈر سے اسامہ نے زرشالہ کو کچھ کہنے کیلئے منہ کھولتا دیکھ کر بروقت مداخلت کی تو اس نے ان دونوں کو ایک تیز گھوری سے نوازتے، زرلش کا ہاتھ تھام کر باہر کی راہ لی تھی۔

”یہ سب کیا تھا شہباز؟“ ان کے نکلتے ہی، اسامہ اس کی طرف مڑا تھا۔

”یہ تم مجھے بتاؤ کہ کیا تھا یہ سب بلکہ کیوں تھا یہ سب؟“ شہباز نے بھی اسی کے انداز میں استفسار کیا تھا۔

”وہ ہماری پھپھی زاد تھی شہباز! وہ یہاں رک سکتی تھی۔“ اسامہ کی بات پر شہباز نے ایک گہرا سانس بھرا تھا۔

”مت بھولو کہ ہماری پھپھو ونی ہو کر اس خاندان میں گئی تھیں اور ان لڑکیوں کا یہاں رکنا ہم سب کی مشکلات مزید بڑھائے گا۔“ شہباز کی بات پر اسامہ ایک پل کو لاجواب سا ہوا تھا۔

”یہ بحث ابھی سمیٹ لو اور جا کر ڈاکٹر سے کہو کہ مجھے گھر جانا ہے۔“ شہباز کو بالآخر یاد آ ہی گیا کہ وہ کدھر موجود ہے اور پھر اس نے ڈسچارج لے کر ہی دم لیا تھا۔۔۔۔ دونوں لڑکیوں سے تاحال ان کی دوبارہ کوئی ملاقات نہ ہوئی تھی۔۔۔ جانے ان کی یہ احتیاط کیا رنگ لائے گی!
___________

Leave a Comment