Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


اس گھر سے بہت دور ایک انتہائی پوش علاقے میں بنے گھر میں بھی ایک ننھی لڑکی بارش کو دیکھتے ہی چلا اٹھی تھی۔۔۔۔ جہاں آسمان سے برستا پانی کسی کی کوفت کی وجہ تھا تو وہیں اس گھر میں موجود اس گڑیا کیلئے وہ کھیل کا سامان تھا اور یہی زندگی ہے، کہیں شوخ تو کہیں تلخ!

”واؤ! بارش۔ بگ بی میں آج کہیں نہیں جاؤں گی، پلیز آپ سنبھال لیجیے گا۔“ سدا کی بارش کی رسیا مصفیٰ نے اپنے بھیا کے کندھے سے لٹکتے فرمائش کی اور پھر بھاگ کر اسی کے کمرے سے ملحقہ ٹیرس پہ برستی بارش میں گول گول چکر لگانے لگی تھی۔ وہ جو واشروم سے نکلتے وقت گیلا جوتا اندر ہی اتار آتا تھا کہ کمرے میں کہیں ذرا سا بھی پانی نہ پھیلے، پور پور بھیگتی اپنی چھٹکی کو محبت پاش نظروں سے دیکھنے لگا جو ابھی شڑاپ شڑاپ کر کے اس کے سارے کمرے کو گیلا کرنے کے بعد ہی اپنے کمرے میں جانے والی تھی اور اسے کوئی فکر ہی نہ تھی۔
”مصفی چندا! زیادہ دیر نہیں بھیگنا، پتا ہے نا کہ پھر کیا ہوگا؟“ کچھ پل بہن کی معصومیت کو شفقت سے نہارتے، وہ اسے ہدایت دیتا، اپنا بریف کیس اٹھا کر کمرے سے نکل گیا تھا۔
”صبح بخیر مام ڈیڈ!“ وہ ناشتے کی میز پر آتے، اپنے والدین کو سلام کرتا اپنی مخصوص جگہ سنبھال چکا تھا۔ ان دونوں نے ہی نظر بھر کر اپنے خوبرو بیٹے کو دیکھتے دل ہی دل میں اس کی نظر اتاری تھی، جس کا کسرتی وجود سفید شرٹ کے ساتھ کالی پتلون اور سیاہ ہی ٹائی میں کافی حد تک نمایاں ہو رہا تھا۔ سیاہ کوٹ جو کہ ادھر آنے سے پہلے اس کے بازو پر دھرا تھا وہ اب کرسی کی پشت پر سلیقے سے ٹکا تھا۔ نفاست سے جمے اس کے ہلکے گھنگریالے سیاہ بال، اس کی کشادہ پیشانی پہ درج اس کی خوش بختی کو واضح کرتے نظر آ رہے تھے۔ وہ اس شہر کا ایک جانا مانا وکیل تھا جو کہ نہایت قلیل عرصہ میں ہی اپنی ذہانت و قابلیت کا سکہ جما چکا تھا۔ روزانہ سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اس کی لا فرم میں اپنے کیسز لے کر آتے جن میں سے وہ صرف وہی کیس لیتا جس میں اسے یقین ہوتا تھا کہ مدعی سچ بول رہا ہے۔ وہ آج تک ایک آدھ کیس ہی ہارا تھا اور وہ بھی مدعی کے پیچھے ہٹ جانے کی وجہ سے ورنہ اس نے جس بھی کیس میں ہاتھ ڈالا، اسے پایہ تکمیل تک پہنچا کر ہی دم لیا تھا۔
”مصفی نہیں آئی ابھی تک؟“ سربراہی کرسی پر براجمان انتصار بنگش نے استفسار کیا تھا۔
”وہ آج نہیں جائے گی۔“ اسعاد بنگش نے کانٹے میں پھنسا انڈے کا ٹکڑا منہ میں ڈالتے، گویا کسی خبرنامہ کی شہہ سرخی پڑھی تھی۔ زرش بنگش نے ایک ناراض نظر اس کے چہرے پر ڈالتے، دوسری پرشکوہ نظر اپنے شریکِ حیات پر ڈالی جو کہ کندھے اچکا کر رہ گئے۔۔۔ وہ اچھے سے جانتے تھے کہ بہن کے معاملے میں وہ کسی کی بھی نہیں سنے گا۔ مصفی کچھ کہے اور اسعاد نہ مانے یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ وہ تو پہلے ہی رم جھم برستی بارش کو دیکھتے ہی جان گئے تھے کہ آج ان کی لاڈلی سب بھول کر بس بارش میں بھیگنے کا شوق پورا کرے گی۔
”اسعاد بیٹا! تمہارا حد سے زیادہ لاڈ پیار اس کیلئے مشکلات پیدا کر دے گا۔ اسے اپنی ہر بات منوانے کی عادت پڑتی جا رہی ہے۔“ زرش نے دبے دبے لفظوں میں اسے سمجھانا چاہا تھا کہ یوں اس کی ہر بات ماننا مناسب نہیں۔
”مام! آپ کیوں فکر کرتی ہیں؟ جانتی تو ہیں کہ اس نے کبھی ایسی فرمائش کی ہی نہیں جو کہ مجھے لگے کہ پوری نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی یہ بےضرر معصوم خواہشات پوری کر کے مجھے خوشی ملتی ہے۔ جس دن لگا کہ اس کی کوئی خواہش ضد کا روپ دھار کر اس کیلئے نقصان کا باعث بن رہی ہے تو اسے اسی پل ٹوک دوں گا۔ ویسے بھی اب سردی کی آمد آمد ہے تو پھر آپ جانتی ہیں کہ اسے گرمیوں سے پہلے یہ موقع نہیں ملے گا تو میں نے اسے منع نہیں کیا۔“ اسعاد نے ہاتھ میں پکڑا کانٹا پلیٹ میں رکھتے، اپنے سامنے بیٹھی ماں کا ہاتھ اپنے مضبوط مردانہ ہاتھ میں تھام کر، اس کا ہاتھ نرمی سے سہلاتے، رسانیت سے اپنی بات مکمل کی تھی اور یہ سچ ہی تھا کہ مصفی کی خواہشات فی الحال معصوم ہی ہوا کرتی تھیں۔
”وکیل صاحب! آپ سے کوئی جیت سکتا ہے بھلا؟“ زرش نے اس کے ہاتھ پر چپت لگاتے کہا تھا۔
”پوائنٹ ٹو بھی نوٹڈ!“ اس کے شرارت سے کہنے پر وہ دونوں ہی محفوظ ہوتے ہنس پڑے تھے۔ 
”شاہدہ! چھوٹی بی بی کیلئے ابلا ہوا انڈا اور سوپ تیار کر کے لے جائیے گا اوپر کچھ ہی دیر میں اور ان سے کہئیے گا کہ بگ بی کا حکم ہے کہ سارا ختم کرے۔“ اسعاد نے نیپکن سے منہ صاف کرتے میز سے برتن سمیٹتی ملازمہ کو ہدایات دینے کے ساتھ ہی کرسی کی پشت پر پڑا اپنا کوٹ اٹھا کر پہنا تھا۔ اس کی اس قدر فکرمندی پر باقی نفوس کے چہرے پر مسکراہٹ ابھری تھی۔ اسعاد جانتا تھا کہ بارش میں زیادہ دیر بھیگنے سے اس کی چھٹکی کی طبعیت خراب ہونے کا خدشہ ہے سو وہ ایک دورانیہ متعین کرتے ہوئے حفاظتی تدابیر کا بھی انتظام کر رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں وہ لوگ آگے پیچھے گھر سے نکل چکے تھے۔
…………………………

Leave a Comment