Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel



خان حویلی پہ آج خلاف معمول اس وقت سورج اپنے پورے جوبن پہ تھا جو عام دنوں میں تو بادلوں کی منڈلیو‌ں کے ساتھ اٹھکیلیاں کیا کرتا تھا مگر آج شاید بادلوں سے اس کی کوئی ناراضگی چل رہی تھی جو وہ تنہا ہی آسمان پہ جلتا کڑھتا نظر آ رہا تھا۔۔۔ حویلی کے نفوس اس وقت زیادہ تر اپنے اپنے کمروں میں محو استراحت ہوتے تھے مگر آج وہاں تین وجود ایسے بھی تھے جو جاسوسوں کی طرح چوکنی نگاہوں سے چاروں اور کا جائزہ لیتے، ایک سمت بڑھ رہے تھے۔۔۔ ان کی دھیمی دھیمی بھنبھناہٹیں واضح کرتی تھیں کہ وہ تینوں صنف نازک سے تعلق رکھتی ہیں مگر ان کے ارادوں سے تاحال ہر کوئی ناواقف ہی تھا۔
”نُبیشہ کیوں اپنے ساتھ ساتھ ہماری جان کی بھی دشمن بنی ہوئی ہو؟ کوئی ادھر آ گیا ناں تو کسی کی بھی خیر نہیں۔“ آبگینے نے اس کے ساتھ چلتے، ادھر ادھر دیکھتے ہوئے، اسے ڈرانا چاہا تھا۔ انداز ایسا تھا کہ ابھی کسی کے آتے ہی بھاگ جائے گی مگر یہ بھی ایک اٹل حقیقت تھی کہ وہ اس کا ساتھ بھی نہیں چھوڑ سکتی تھی۔
”چپ کر کے چلو۔ کوئی ویسے آئے نا آئے مگر تمہارا یہ بھونپو سن کر ضرور آ جائے گا۔“ اس نے احتیاط سے چلتے، ایک چپت اس کے ہاتھ پر لگا کر، اسے خاموشی سے اپنے ساتھ چلنے کا اذن دیا تھا۔ وہ دونوں اس وقت سب کے آرام کا وقت ہونے کے باعث ایک خفیہ مشن پر نکلی ہوئی تھیں اور ان کے ساتھ اس حویلی کی سب سے چھوٹی اور لاڈلی کشمالہ بھی تھی جس کا کام ان کی سرگرمی کے دوران راہداریوں پر نظر رکھنا تھا۔
”جنگلی!“ اس نے اپنا ہاتھ سہلاتے زیرِ لب کہا تھا۔ وہ لوگ اب مطلوبہ مقام تک پہنچ چکی تھیں اور نبیشہ ہاتھ میں پکڑے چابیوں کے بڑے سے گچھے میں سے ایک ایک کر کے دروازے پر پڑے تالے میں چابی گھسا کر اسے کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ چھ سے سات چابیاں لگانے کے بعد بھی اسے ابھی تک کامیابی حاصل نہ ہوئی تھی۔ مزید دو تین ناکامیوں کے بعد اب نبیشہ کی جھنجھلاہٹ غصے میں بدلنے لگی تھی۔
”کیا کر رہی ہو؟ مرواؤ گی کیا؟“ اس نے زور سے ہاتھ میں پکڑے گچھے کو دروازے پر مارا تھا جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی آواز ماحول پر چھائے سناٹے میں کافی گونجی تھی۔ تبھی آبگینے نے اسے ایک دھپ لگاتے تنبیہ کی تھی۔
”پتا نہیں یار کونسا خزانہ دفن ہے اس کمرے میں جو اسے یوں سینت سینت کر رکھا ہے۔ میرا نام بھی نبیشہ اورکزئی ہے، میں پتا کر کے ہی رہوں گی کہ اس کمرے کی آخر کیا کہانی ہے؟“ وہ اب غصے سے بڑبڑاتے ہوئے مزید تندی سے چابیاں لگانے لگی تھی۔ اس کی جلد غصہ کرنے کی یہی عادت بہت بار اسے نقصان بھی پہنچا چکی تھی مگر وہ تاحال  اپنی اس عادت پر قابو پانے سے قاصر تھی۔ وہ اب طیش بھرے انداز میں چابیاں لگا رہی تھی مگر تالا بھی ایسا ڈھیٹ تھا کہ کھل کر نہ دے رہا تھا۔
”بسام لالہ، بسام لالہ اسی طرف آ رہے ہیں۔“ گچھے میں اب چار سے پانچ چابیاں ہی باقی تھیں جب کشمالہ پھولے ہوئے سانس کے ساتھ ملک الموت کی طرح ان کے سروں پر نازل ہوئی تھی۔ کسی سے نہ ڈرنے والی نبیشہ کے ہاتھ بھی اس نام کی پکار پر کانپے تھے۔ وہ کسی طور اس مشن کی کامیابی سے پہلے پکڑی نہ جانا چاہتی تھی سو ان دونوں کو اشارہ کرتے اس نے خود بھی پچھلے دروازے کی طرف دوڑ لگا دی جو کہ باہر پچھلے دالان میں کھلتا تھا اور رہائشی حصے میں آنے کیلئے انہیں پچھلی جانب سے پوری حویلی کا چکر کاٹ کر آنا تھا۔ بھاگتے بھاگتے نبیشہ کا پاؤں آخری راہداری کے ستون سے ٹکرا گیا، تصادم زوردار تھا جس کے نتیجے میں یقیناً اس کے انگوٹھے پر چوٹ لگی تھی، شاید ناخن ٹوٹ گیا تھا مگر اس وقت پیر کا معائنہ کرنے سے زیادہ جان بچا کر نکلنا ضروری تھا۔ اس کی رفتار میں کمی کے باعث کشمالہ اور آبگینے نے دونوں جانب سے اس کے ہاتھ پکڑ کر دوڑ لگا دی کہ ایک کی پیشی کا مطلب تھا سب کی سزا جو کہ انہیں کسی صورت منظور نہ تھی مگر ہونی کو کون ٹال سکتا ہے۔ جب قسمت میں بےعزتی لکھی ہو تو پھر کون بچائے آپ کو! اس ستون سے ٹکرانے کے بعد اس کے منہ سے نکلنے والی اس کی ہلکی سی چیخ بھی کافی دور تک گونجتے ہوئے، اس جانب آتے بسام کے شک پر یقین کی مہر لگا چکی تھی۔ وہ پچھلی جانب جانے کی بجائے واپس مڑ گیا تھا مگر اس کے رہائشی حصے کے داخلی دروازے تک پہنچنے سے پہلے ہی وہ تینوں نبیشہ کے کمرے میں پہنچ چکی تھیں۔ بسام فوراً اس کے کمرے میں جانے کی بجائے کچن کی طرف آیا اور وہاں موجود ملازمہ کو کچھ ہدایات دیتا وہ اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس کے چہرے پر پرسوچ شکنوں کا ایک جال سا بچھا تھا گویا وہ کسی گہری سوچ و تشویش میں مبتلا ہو۔
……………………..

Leave a Comment