Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel

کمرے میں پہنچتے ہی ان تینوں نے شکر کا کلمہ پڑا۔۔۔ ان میں سے دو نے نبیشہ کے بستر کو اپنا مسکن بنایا جبکہ وہ صوفے کی طرف بڑھ گئی۔۔۔ وہ لوگ اپنے تئیں مصیبت کو خیر باد کہہ آئی تھیں مگر اصل پیشی تو ابھی باقی تھی۔

”بچ گئے آج تو ورنہ مجھے تو لگا تھا کہ آج اپنی کلاس پکی ہے۔“ آبگینے نے گرنے کے سے انداز میں بیڈ پر چت لیٹتے، باآواز بلند تبصرہ کیا تھا۔
”میں اب کسی بھی خفیہ کارروائی میں آپ لوگوں کا ساتھ نہیں دوں گی۔“ کشمالہ نے بھی ناک پھلاتے، اس کے برابر جگہ سنبھالی تھی۔ ان دونوں کی گفتگو سے بےنیاز نبیشہ لب بھینچے اپنے ناخن کا جائزہ لینے میں مصروف تھی جو کہ آدھے سے زیادہ اکھڑ گیا تھا اور خون بھی کافی تیزی سے بہہ رہا تھا۔ اسے یقیناً ڈاکٹر کی ضرورت تھی مگر اس وقت کسی کو بھی چوٹ کے متعلق بتانے کا مطلب تھا سب کے لمبے چوڑے سوالوں کے جواب دینا اور اس وقت اس میں اس سب کی سکت نہ تھی۔ ابھی تک تو وہ بس بمشکل خود پر قابو پاتے درد برداشت کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
”یار یہ تو کافی گہرا زخم آ گیا۔ میں حمود کو بلاتی ہوں۔“ اس کی طرف سے کوئی بھی جواب نہ پا کر آبگینے نے اس سمت نگاہ دوڑائی تو اس کے خون آلود پائوں کو دیکھتے، تیزی اٹھ کر اس کے پاس چلی آئی اور اب وہ اس کا زخم دیکھتے پریشان ہو اٹھی تھی۔ کشمالہ بھی اس کے پاس آن بیٹھی تھی مگر اس کی نظریں سفید سنگ مرمر کے فرش پر لکیر بناتے خون کے نشانات پر تھیں جو کہ دروازے تک جا رہے تھے اور اس کا مطلب تھا کہ یہ لکیر ساری راہداری میں بھی موجود تھی۔ وہ جائزہ لینے کی غرض سے فوراً سے پیشتر اٹھ کر دروازے کی طرف بڑھی مگر دروازہ کھولتے ہی وہ اپنی جگہ ساکت رہ گئی۔۔۔ بسام کا دستک کیلئے اٹھتا ہاتھ فوراً نیچے گرا تھا۔
”ہاں بلاؤ اس بی بی سی کو تاکہ جس کو نہیں بھی پتا چلنا وہ بھی سنانے آ جائے۔ میں پاؤں دھو کر آتی ہوں۔“ وہ تیزی سے کہتے، اٹھنے کی کوشش میں کراہتے ہوئے، لڑکھڑا کر واپس گری تھی۔
”سنبھل کر، لالہ آپ؟“ اس کو تھامتی آبگینے اپنے بڑے بھائی کو سپاٹ تاثرات کے ساتھ دروازے میں ایستادہ دیکھ یکدم بوکھلا اٹھی تھی۔ نبیشہ نے بھی فوراً رخ موڑ کر اسے دیکھا جو کہ اپنی سرد نگاہیں اسی پر گاڑھے ہوئے تھا۔ یکدم اسے جھرجھری سی آئی اور وہ فوراً نظروں کا زاویہ بدل گئی تھی۔ کشمالہ تو دروازہ کھولتے ہی نو دو گیارہ ہو چکی تھی۔ 
”چادر لے کر آؤ دونوں باہر فوراً، میں گاڑی میں ہوں۔“ بےتاثر لہجے میں کہتا وہ وہیں سے واپس مڑ گیا تھا۔ اس کے چہرے سے اس وقت اس کے تاثرات کا اندازہ لگانا مشکل تھا مگر ان دونوں کو ہی یقین تھا کہ اب تو شامت پکی ہے۔ آبگینے نے سو کی رفتار سے بھاگ کر اس کی الماری میں سے دو چادریں نکالیں اور اگلے پانچ منٹ میں ان کی گاڑی حویلی کا مرکزی پھاٹک پار کر رہی تھی۔ وہ لوگ گاڑی تک آتی ہوئیں ملازمہ کو راہداری میں سے خون صاف کرتا ہوا دیکھ چکی تھیں اور انہیں اپنے سوال کا جواب بھی مل چکا تھا کہ بسام کو کیسے پتا چلا چوٹ کا؟ نبیشہ کا دل بےساختہ اپنا سر پیٹنے کو چاہا تھا۔۔۔ کیا ضروری تھا کہ یہی شخص اس کی مدد کو آتا۔۔۔ کلینک پہنچنے تک گاڑی میں خاموشی چھائی رہی تھی۔ نبیشہ بھی متوقع بےعزتی کے ڈر سے پیر میں اٹھنے والی درد کی ٹیسوں کو نظرانداز کرنے کی کوشش میں لب بھینچے ہلکان ہوتی جا رہی تھی مگر درد اب حد سے سوا ہونے لگا تھا، نتیجتاً کچھ آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر رخساروں پر پھیل گئے تھے۔
”چلو آؤ!“ گاڑی کلینک کے باہر رکنے پر آبگینے نیچے اتر کر اب دوسری جانب سے اسے باہر آنے میں مدد دے رہی تھی۔ تب تک بسام بھی اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر آ چکا تھا۔
”آہ!“ پاؤں زمین پر ٹکاتے ہی ضبط کے باوجود بھی نبیشہ درد سے ہلکا سا کراہ اٹھی تھی۔ بسام نے بےساختہ اس کی طرف دیکھا جس کے سرخ عارضوں پہ سایہ فگن نم لرزتی پلکیں اسے ٹھٹھکنے پر مجبور کر گئی تھیں۔ اس نے بھرپور توجہ سے اس کی طرف پیش قدمی کی تھی۔
”میں ٹھیک ہوں۔“ بسام نے پاس آ کر اسے دوسری جانب سے تھامنے کی کوشش کرنا چاہی مگر نبیشہ کے بولتے ہی وہ اپنے حواسوں میں واپس لوٹا تھا۔ چہرے پہ چھائی فکر نے فوراً سے پہلے سرد لبادہ اوڑھا تھا، میٹھا درد جگاتے جذبات کی جگہ انا نے پھن پھیلائے تھے۔ مسکرانے کو مچلتے ہونٹ سختی سے آپس میں بھنچے تھے۔ ہوا میں معلق بازو کو پشت پر باندھتے، وہ تیزی سے اندر کی طرف بڑھ گیا تھا۔ آبگینے نے بس ایک گہرا سانس بھرنے پر اکتفا کیا تھا کہ وہ دونوں ہی لاعلاج تھے۔ ایک رج کے ڈھیٹ تو دوسرا بلا کا انا پرست! اس نے تمام سوچوں کو جھٹکتے نفی میں سر ہلایا تھا۔
……………………………

Leave a Comment