Ishq Ant Kamal (Love Is Forever) by Saira Naz Complete Novel


”کیسے لگی یہ چوٹ؟“ ہسپتال سے واپسی پر کچھ دیر کی خاموشی کے بعد بسام کی سرد آواز گاڑی میں گونجی تھی۔ نبیشہ نے بنا کچھ کہے سر سیٹ کی پشت سے ٹکا لیا تھا۔ اس کا اس وقت کسی بھی بات کا جواب دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا اور کوئی اس کی مرضی کے بغیر اسے بلوا نہ سکتا تھا۔ آبگینے نے ایک خائف نظر اس پر ڈالتے، بیک مرر سے نظر آتیں اپنے بھائی کی آنکھوں میں جھانکا تھا اور ان سے چھلکتی سرد مہری پر وہ تیزی سے نظر جھکا گئی۔ اسے پتا تھا کہ اب اسے ہی سارے سوالوں کے جواب دینے ہیں۔
”وہ اس کا پاؤں راہداری کے ستون سے ٹکرا گیا تھا۔“ اس نے تھوک نگل کر، خشک پڑتے گلے کو بنشکل تر کرتے جواب دیا تھا۔
”کونسی راہداری؟“ ایک اور سوال داغا گیا تھا۔ لہجے کا ٹھنڈا پن ہنوز برقرار تھا گویا وہ بڑے ضبط سے سوال کر رہا ہو۔
”پچھلے صحن کی۔“ اس نے ایک بار پھر منمناتے ہوئے جواب دیا جبکہ دل ہی دل میں وہ اس وقت کو کوسنے لگی جب نبیشہ کا ساتھ دینے کی حامی بھری تھی مگر وہ یہ بھی جانتی تھی کہ وہ ایسے ٹلنے والی بھی نہ تھی۔۔۔۔ وہ اپنے کسی کام میں اسے شامل نہ کرے، ایسا تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔
”ادھر کیا کرنے گئی تھیں تم لوگ بھری دوپہر میں؟“ ہر سوال کے ساتھ اس کے لہجے میں مزید سختی در آتی جا رہی تھی۔
”وہ نبیشہ کو کچھ کام تھا۔“ اس نے مجرموں کی طرح سر جھکا کر جواب دیا تھا۔ اس کے جواب پر بسام نے ایک سخت نگاہ بےنیازی سے آنکھیں موند کر بیٹھی نبیشہ پر ڈالی تھی۔
”اگلی بار تم لوگ مجھے اس حصے کی طرف دیکھتی بھی نظر آئیں تو آنکھیں نکال دوں گا۔“ اس کے سختی سے کہنے پر آبگینے نے جھٹ اثبات میں سر ہلا دیا جبکہ اصل مجرم ابھی بھی ڈھیٹوں کی طرح سر نیہوڑے پڑی تھی۔ اتنا تو اسے علم ہو ہی گیا تھا کہ وہ ان کی سرگرمیوں سے اچھے سے واقف ہے۔
”دھیان کدھر ہوتا ہے تمہارا جو چلتے ہوئے اتنا بڑا ستون نظر نہیں آیا؟“ ان کے گھر واپسی تک کشمالہ سب کو یہی بتا چکی تھی کہ وہ تینوں سامنی راہداری میں چہل قدمی کرتے ہوئے باتیں کر رہی تھیں تو نبیشہ کا پاؤں راہداری میں بنے ستون سے ٹکرا گیا اور اب مادر مہر اس سے بازپرس کرتی نظر آ رہی تھیں۔ ان کی بات پر بسام نے ایک تیز نگاہ ٹھس بیٹھی نبیشہ پر ڈالی اور لب بھینچے تیز تیز قدموں سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اسے رہ رہ کر اس چھٹانک بھر کی لڑکی کی ہٹ دھرمی پر طیش آ رہا تھا جو ہر بار کبھی انجانے میں تو کبھی جان بوجھ کر اس کے غصے کو ہوا دے جاتی تھی۔ نجانے کیوں اسے ہر چیز کی ٹوہ لینے کا اس قدر شوق تھا کہ وہ حویلی کے باقی مکینوں کی طرح سکون سے نہ رہ سکتی تھی۔ وہ ہر دوسرے دن کوئی نہ کوئی پنگا کر رہی ہوتی اور بسام سے اپنے غصے پر قابو پانا مشکل ہو جاتا تھا۔ وہ صرف بابا خان اور چاچا خان کی وجہ سے بچی ہوئی تھی ورنہ بسام اب تک اسے سیدھا کر چکا ہوتا مگر وہ جانتا تھا کہ ان دونوں کی بےجا حمایت نے ہی اسے سر چڑھا رکھا ہے کہ وہ اب منہ زور ہونے لگی تھی۔ وہ خود کو پرسکون کرنے کیلئے کمرے میں ادھر سے ادھر ٹہلنے کے سے انداز میں چکر کاٹ رہا تھا اور باہر نبیشہ منہ پر چُپی کا تالا ڈالے سب کو صرف سن رہی تھی جبکہ سارے جوابات دینے کا مرحلہ کشمالہ اور آبگینے نپٹا رہی تھیں۔
……………………………..

Leave a Comment