شام کے سائے گہرے ہورہے تھے پرندے اپنے گھروں کو واپس لوٹ رہے تھے۔
شاہ حویلی میں ہر طرف سکوت چھایا ہوا تھا۔
ملازمین کام کرکے اپنے کوارٹرز کو واپس جاچکے تھے۔
شاہ حویلی میں صوفے پر اکیلی رائنہ بیگم اپنے ساتھی کو یاد کرتے بیٹوں کے انتظار میں بیٹھیں تھیں۔
آج ہوئے فیصلے پر ان کا دل رنجیدہ ہوا تھا۔
شاہ حویلی میں گاڑیاں داخل ہونے پر وہ اپنی جگہ سے اُٹھیں۔
کچھ ہی دیر میں سیاہ عبایا میں ارحام کے ساتھ لڑکی آتی نظر آئی تھی۔
“یہ۔۔تمہارے ساتھ کیوں آئی ہے؟ ارحاب کہاں ہے؟” رائنہ بیگم فکرمندی سے بولیں۔
“ماں وہ نکاح کے بعد وہیں کسی کو ہارٹ اٹیک آیا تھا جس کو شاید بھائی جانتے ہیں اس لیے وہ فاتح بھیا کے ساتھ ہاسپٹل گئے ہیں۔” ارحام نے انہیں وضاحت دی۔
“خوش آمدید بیٹی۔” رائنہ بیگم نے آگے بڑھ کر انابیہ کا استقبال کیا۔
انابیہ کے کانوں میں اپنے بابا کی ہدایت گونجی تھی۔
انابیہ نے احتراماً ان کے ہاتھ کا بوسا لیا۔
“یہاں تم نقاب اتار سکتی ہو۔” رائنہ بیگم نے محبت سے کہا۔
انابیہ نے ان کے کہنے پر نقاب اتارا ایک پل کو وہ اسے تکتی ہی رہ گئیں۔
“ماں آپ بھی حیران ہوگئیں بھابھی کا حسن دیکھ کر۔” ارحام نے رائنہ بیگم کو چھیڑا۔
“چپ کر نالائق۔” رائنہ بیگم ہوش کی دنیا میں لوٹتیں اسے سناگئیں۔
“بہت پیاری اور معصوم ہو افسوس ہے قسمت نے تمہارے ساتھ اتنا برا سلوک کیا، دعا ہے جلد یہ خوبصورت آنکھیں خوشی سے چمکیں گی۔” رائنہ بیگم نے حسرت سے انابیہ کی آنکھوں کی طرف دیکھتے دعا دی۔
“ماں اب بھابھی کو بھائی کا کمرہ دکھادیں۔” ارحام نے انابیہ کی تھکان کا احساس کرتے رائنہ بیگم کو کہا۔
“وہ ونی میں آئی ہے ارحاب کے کمرے میں نہیں اس کی جگہ حویلی کے پیچھے بنے گاٹیج میں ہے۔” حویلی میں داخل ہوتے مظہر شاہ نے بآواز بلند کہا۔
“دادا جان وہ انسان ہے کوئی جانور نہیں جو اس کھنڈر میں رہے گی۔” ارحام ان کی بات پر غصہ ہوتے بولا۔
“ارحام۔۔چپ۔” رائنہ بیگم ارحام کے یوں بولنے پر خوفزدہ ہوتیں اسے ٹوک گئیں۔
“ہم رات کا کھانا بنالیتے ہیں۔” رائنہ بیگم بات بدلتیں انابیہ کا ہاتھ پکڑ کر کچن میں چلی گئیں۔
ارحام کا موڈ سخت خراب ہوچکا تھا وہ خود پر ضبط کرتا حویلی کے پچھلے حصے میں آیا جہاں وہ بوسیدہ کاٹیج تھا جو اس کے باپ کے مرنے کے بعد بند کر دیا گیا تھا۔
“بابا کاش آپ یہاں ہوتے۔” ارحام کے دل سے صدا اُبھری تھی۔
ارحام وہاں کی بجلی جلاتا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا جہاں ہر طرف جالے لگے ہوئے تھے۔
کانچ ہر طرف بکھرے پڑے تھے اور فرش و دیوار پر سالوں پرانا خون لگا ہوا تھا۔
وہاں کانچ کی میز پر مٹی سے لدھے پدھے کاغذات پڑے تھے جن پر بھی خون کے چھینٹے تھے۔
وہیں صوفے پر چاکو دھنسا ہوا تھا جس کے قریب نیچے پین پڑی تھی۔
اس پین پر بڑے بڑے حروف میں ”دی گریٹ حیدر شاہ“ لکھا ہوا تھا۔
وہاں ہر طرف چوہے دوڑوں میں تھے جیسے کسی ریس میں حصہ لے لیا ہو۔
اس کمرے میں ناک جلادینے والی بدبو مچی ہوئی تھی۔
لیکن پھر بھی یہ جگہ ارحام کو سکون دیتی تھی کیونکہ یہاں کہیں نا کہیں اس کے بابا کی یادیں تھیں۔
رائنہ بیگم نے رات کا کھانا بنانے کا بہانہ بنایا تھا انابیہ کو وہاں سے ہٹانے کے لیے۔
“بیٹی مجھے معاف کردینا یہاں یہی سب ہوتا ہے، لیکن بیٹا آج رات تمہیں ایسے ہی کاٹنی پڑے گی کیونکہ میں ابا جان کی نافرمانی نہیں کرسکتی کل میں سب صاف کروادوں گی۔” رائنہ بیگم مجبور تھیں کیونکہ وہ کم عمری میں اس خاندان میں آئیں تھیں جہاں بس مردوں کی جی حضوری ہی سکھائی گئی تھی۔
“مجھے کسی سے کوئی شکوہ نہیں ہے۔” انابیہ نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
“یہاں پیچھے سے دروازہ ہے تم وہاں چلی جاٶ اگر پھر ابا جان نے دیکھا تو طعنے دیں گے میں کوشش کروں گی کے ارحام کے ہاتھ کھانا بھجوادوں۔” رائنہ بیگم نے راستہ بتایا۔
رائنہ بیگم کی آخری بات نے انابیہ پر واضع کردیا تھا کے وہ یہاں کسی طور سکون سے نہیں رہ سکے گی۔
انابیہ بحث کیے بغیر چپ چاپ ان کے بتائے گئے راستے پر چلتی حویلی کے پیچھے بنے گاٹیج کی طرف چلی آئی تھی جہاں کی لائٹس پہلے ہی آن تھیں۔
انابیہ نے ڈرتے ڈرتے کاٹیج میں قدم رکھا ہی تھا کے چوہا اس کے پیر کے اوپر سے چلا گیا جس نے اسے چیخنے پر مجبور کردیا۔
ارحام اس کی چیخ سن کر ہوش کی دنیا میں لوٹا تھا۔
“معاف کردینا۔” ارحام نے اس کی حالت دیکھتے کہا۔
“آج کے دن ہر شخص مجھ سے معافی کیوں مانگ رہا ہے آخر۔” انابیہ کی ٹون تبدیل ہوئی تھی۔
“لگتا ہے پہچان چُکی ہو۔” ارحام کے چہرے کے تاثرات میں بھی تبدیلی آئی تھی۔
“ہاں اُسی رات دیکھتے پہچان گئی تھی۔” انابیہ نے اس کی بات کی تصدیق کی۔
“میں شرمندہ ہوں ہر بار میری وجہ سے برا ہوتا ہے تمہارے ساتھ۔” ارحام نے شرمندگی سے کہا۔
“نہیں بلکہ تمہاری ٹائمنگ ہی غلط ہوتی ہے ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہو جہاں میرے ساتھ غلط ہونا یقینی ہوتا ہے۔” انابیہ نے ایک میٹھا طنز کیا۔
“ہاں شاید ایسا ہی ہے۔” ارحام نے اس کی بات پر سوچتے ہامی بھری۔
“ویسے یہاں یہ سب؟” انابیہ نے اطراف میں دیکھتے سوال کیا۔
“یہاں میرے بابا کا قتل ہوا تھا۔” ارحام کا چہرہ بجھ گیا۔
انابیہ ایک دم شاک میں آگئی تھی۔
“اب پوچھوگی پھر بھی یہاں آکر کیوں بیٹھا ہوں تو بتادوں جب میرا دل اداس ہوتا ہے میں یہاں اپنے بابا سے بات کرنے چلا آتا ہوں۔” ارحام نے اس کی آنکھوں میں موجود سوال پہلے ہی پڑھ لیا۔
انابیہ بھی ارحام کے قریب زمین پر بیٹھ گئی۔
“روحان نے کہا تھا ارحام سے کہنا مجھے معاف کردے بس وہ محبت کی رو میں بہک کر خودغرض بن گیا تھا۔” انابیہ نے روحان کے الفاظ یاد کرتے ارحام کو مخاطب کیا۔
“میں نے اس کی ہر غلطی معاف کردی ہے۔” ارحام نے زندہ دلی سے جواب دیا۔
“اس نے مجھے کہا تھا آج ہماری کار سے ہوا ایکسیڈنٹ اس کی دعا کی قبولیت ہے، وہ دعا کررہا تھا کے اس کی مجھ سے ملاقات ہو تاکے وہ مجھ سے معافی مانگے، وہ کہ رہا تھا میرے رونے کی آواز اسے سونے نہیں دیتی تھی۔” انابیہ کی آنکھوں سے آنسوں پھسل کر اس کے گالوں پر بہہ گئے۔
“تم کیوں رو رہی ہو اس میں تمہارا قصور نہیں تھا۔” ارحام نے اس کو روتے دیکھ کہا۔
“نہیں رو رہی ہوں اس لیے کے میرے رونے سے اسے تکلیف ہوئی ہے، اس کی دعا قبول ہوئی لیکن میری کیوں نہیں ہوئی پھر۔” انابیہ کے رونے میں شدت آگئی تھی۔
“تمہاری کونسی دعا تھی؟” ارحام نے نرمی سے پوچھا۔
“ارحاب حیدر شاہ سے پھر کبھی سامنا نہ ہو۔” انابیہ نے بھیگے لہجے میں کہا۔
“اوہ ہاں میں یہی جاننا چاہتا تھا بھائی تمہیں کیسے جانتے تھے؟” ارحام کو یاد آیا تھا ہاسپٹل میں ارحاب نے پہلے ہی اسے پہچانا تھا۔
“وہ ہماری ملاقات ہوچکی ہے پہلے دو بار اور دونوں بار اس کھڑوس نے میری بے عزتی کی ہے۔” انابیہ نے ایسا منھ بنایا جیسے کڑوے بادام کھالیے ہوں۔
“اور کبھی سامنا نہ ہونے کی وجہ؟” ارحام نے اس کی پہلے والی بات کو لیکر پوچھا۔
“کل صبح گھر والوں سے بحث ہوئی تھی ڈرائیونگ کرنے پر پھر یونی میں پہلے تمہارا بھائی ٹکرایا اتنا بدتمیز کے میری کتابیں اٹھانے میں مدد بھی نہیں کی اور جب کلاس کے دروازے پر پہنچی وہ ہی ٹیچر کی جگہ کھڑا تھا اوپر سے اتنا روڈلی کلاس میں نہ آنے کا کہا، پھر جب میں درخت کے نیچے بیٹھی رو رہی تھی تب آیا تھا پھر میرے رونے میں مزید اضافہ ہوا پھر اس نے۔۔مجھے سینے سے لگاکر چپ کروایا تھا۔” انابیہ بولتے بولتے آخر میں جھجھکتے بتایا۔
“کیا؟بھائی نے تمہیں سینے سے لگاکر چپ کروایا؟” ارحام کے لیے یہ بات کافی نئی تھی۔
“ہاں، پلیز اب اس کے آگے یہ بات مت کرنا۔” انابیہ اس کی اکسائیٹمنٹ دیکھ احتیاطً بولی۔
“نہیں بولوں گا لیکن ہاں اس کا مطلب ہے تمہیں یہاں سونا نہیں پڑے گا۔” ارحام نے خوش ہوتے کہا۔
“میں سمجھی نہیں۔” انابیہ نے ناسمجھی سے کہا۔
“دیکھو یہ عام بات نہیں ہے اس سے پہلے بھائی نے صرف ماں کو سینے سے لگایا ہے مطلب تم اس کے لیے قیمتی ہو، سو آج چھپ کر تم ان کے کمرے میں سونے جاسکتی ہو۔” ارحام نے جیسے اس کی بیوقوفی پر سر پیٹ لیا۔
“لیکن آپ کی والدہ نے تو کہا کے کھانا بھی مشکل سے ملے گا۔” انابیہ نے شکوہ کناں لہجے میں کہا۔
“ان کی بات دل پر مت لو وہ بہت اچھی ہیں بس ڈرتیں ہیں۔اگر وہ تمہیں وہاں سے نہ لے جاتیں تو دادا جان مزید تمہارا دل دُکھاتے۔” ارحام نے اس کی غلط فہمی دور کی۔
“ابھی دوسروں کو آنے دو ایسا تنگ کریں گے تمہیں بس پوچھو مت اس کے لیے خود کو تیار رکھنا۔” ارحام نے اسے آنے والے وقت کے لیے خبردار کیا۔
“اچھا اُٹھو اب چلتے ہیں۔” ارحام نے زمین سے اُٹھتے اس کی طرف ہاتھ بڑھایا۔
انابیہ اس کا ہاتھ پکڑتے اپنی جگہ سے اُٹھی وہ دونوں بچتے بچاتے ارحاب کے کمرے تک پہنچ گئے۔
“واٶ! کتنا امیزنگ کمرہ ہے۔” انابیہ ہونقوں کی طرح کمرے کو دیکھتے بولی۔
“چلو اب آرام کرو۔” ارحام اسے کمرے میں چھوڑ کر وہاں سے چلا گیا۔
انابیہ بہت زیادہ خوش ہوئی تھی اتنے اچھے بیڈ کو دیکھ کر مزے سے اس پر سوگئی لیکن ارحاب حیدر شاہ کی خوشبو اسے محسوس ہورہی تھی۔
Ishq Ki Baazi by Hadisa Hussain Episode 8

Pages: 1 2