اسے اپنا کمرہ اچھا لگا تھا، صاف ستھرا، ایک ٹیبل جس پر ضرورت کا ہر سامان حاضر تھا اور اس کے لئے کرسی تھی۔ وہ گھوم پھر کر دیکھ رہی تھی جب انٹرکام کی آواز سن کر چونک کر ٹیبل پر دیکھنے لگی جہاں وہ بھی موجود تھا۔ اس نے منہ بناتے ہوئے اٹھا کر کان سے لگایا جہاں سے اس کی بھاری سحر انگیز آواز گونجی۔۔
“میرے آفس میں تشریف لائیں۔۔!” وہ انٹرکام رکھ کر ٹیبلیٹ لے کر اس کے آفس میں داخل ہو گئی۔ نظر داہنے طرف گلاس وال پر پڑی جہاں سے باہر کا کچھ بھی نظر نہیں آرہا تھا، وہ حیران ہو گئی کہ یہ کیسا گلاس وال ہے۔۔؟
“بیٹھ جائیں اور میرے میٹنگ شیڈول بنائیں۔۔!!” وہ کرسی پر بیٹھ کر ٹیبلیٹ آن کر کے وہ جو جو بتاتا گیا ٹائپ کرتی گئی۔۔
“افف اتنا ٹف شیڈول۔۔!!” وہ ایک بار چیک کرتے ہوئے خود ہی بڑبڑاہٹ کے انداز میں کہتی اٹھ کھڑی ہوئی۔وہ سن کر بھی انجان بنتے ہوئے اسے روک دیا۔ وہ ابھی اس سے کچھ کہتا کہ اس سے پہلے ہی ایک ماڈرن سی لڑکی اجازت لے کر داخل ہوئی تھی۔ اسے سامنے دیکھ کر پہلے وہ چونک گئی پھر اسے حقارت آمیز نظروں سے دیکھتی فائل ٹیبل رکھتے ہوئے ایک ادا سے اپنا بال جھٹکتی اسے زہر سے بھی زیادہ بری لگی۔۔
“سر اس پر آپ کے سائن چاہیے۔۔!!” زوحان نے ایک بار بھی سر اٹھا کر اسے دیکھنے کی زحمت نہیں کی۔۔
“سر آپ کو کافی بنا کر دوں۔۔؟” وہ مسکرا کر اس سے پوچھ رہی تھی جبکہ پیچھے کھڑی شمامہ نجانے کیوں جل کر خاک ہوئی تھی۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ وہ اس لڑکی کو اٹھا کر کمرے سے باہر پھینک دے۔۔
“نو مس زارا، آپ دوسری فائل جلدی کمپلیٹ کر کے لے آئیں۔۔!!” وہ سنجیدگی سے ہدایت دے کر سامنے اسے ابھی تک کھڑے دیکھ کر پہلے حیران ہوا پھر اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر اپنی مسکراہٹ بمشکل روکتے ہوئے ایک ایبرو اوپر اٹھائے پوچھنے لگا کہ کیا ہوا۔۔؟ وہ نفی میں سر ہلاتی باہر نکل گئی۔۔
“ہاہاہاہاہاہا۔۔! مطلب کہ محترمہ جیلس بھی ہوتی ہیں۔۔؟” وہ قہقہہ لگاتے ہوئے ریموٹ اٹھا کر سامنے والی وال سے بلائنڈز ہٹاتے ہوئے اسے دیکھنے لگا جو اپنے کمرے میں پہنچ کر کرسی پر بیٹھی اپنی مٹھیوں کو بار بار بھینچ رہی تھی۔ اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر وہ بےاختیار مسکراتے ہوئے انٹرکام اٹھا کر ایک بار پھر اسے بلایا۔۔
وہ بڑبڑاتے ہوئے اٹھی تھی اور لڑکھڑاتے ہوئے پیروں سے اس کے آفس میں اجازت لے کر داخل ہوئی۔ وہ اس کے آنے سے پہلے ہی ریموٹ اٹھا کر اس وال کو دوبارہ پہلے جیسے کر چکا تھا۔۔
“کافی بنانی آتی ہے۔۔؟” اس کے آتے ہی وہ تھکے ہوئے لہجے میں پوچھتا اسے چونکا گیا۔۔
“نہیں۔۔!” اس کے اتنے صاف جواب کی امید اسے نہیں تھی۔۔
“وہاں کافی میکر ہے چلیں میں سکھا دیتا ہوں۔۔!!” کونے میں پڑے کافی میکر کی طرف اسے بھیجتے ہوئے وہ نرمی سے مخاطب ہوا تھا۔۔
“مس زارا ابھی ہی تو آپ سے کافی کا پوچھ رہی تھیں پی لیتے۔۔!!”وہ کہہ تو نارمل انداز میں ہی رہی تھی لیکن اس کی جلن وہ بخوبی سمجھ رہا تھا۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ نمودار ہوئی جسے اس نے لبوں کو بھینچ کر روک لیا۔۔
“آپ میری پرسنل سیکریٹری ہیں، مس زارا نہیں اور ویسے بھی مجھے اپنی بیوی کے ہاتھوں کی کافی چاہیے۔۔!!”وہ آخری بات دھیرے سے بولتا ہوا اٹھ کر اس کے پاس گیا اور کافی بنانے کا طریقہ بتانے لگا۔۔
بیس منٹ بعد وہ اسے کافی دے کر اس کے ساتھ میٹنگ میں شرکت کرنے کے لئے میٹنگ روم میں جانے لگی۔ وہ اس کی وجہ سے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا جبکہ پورا آفس ہی اپنے ہینڈسم باس کے پیچھے چلتی اس لڑکی کو دیکھ کر حیران تھے۔۔
شرجیل میٹنگ روم میں پہلے ہی سے تھا۔ شمامہ کو کچھ بھی نہیں کرنا پڑا کیونکہ سب کچھ شرجیل دیکھ رہا تھا۔ وہ ایک کرسی پر بیٹھی زوحان سعید کو دیکھ رہی تھی۔۔
گوری رنگت اور جس پر سجی بھوری شیو، آنکھوں میں ایک خاص چمک جو کسی کو بھی اپنی طرف کھینچ سکتی تھی۔ نیوی بلو کوٹ پینٹ، مضبوط کلائی میں گھڑی پہنے وہ بہت ہی زیادہ ہینڈسم لگ رہا تھا۔ وہ اس وقت سب کچھ بھولی تھی۔ اس کی نظریں خود پر محسوس کر کے زوحان نے چہرہ اوپر اٹھائے اسے دیکھا جو کرسی پر بیٹھی انہماک سے اسے دیکھنے میں بزی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ نمودار ہوئی۔۔
“مس شمامہ میٹنگ ختم ہو چکی ہے۔۔!!” سب کو اس کی طرف متوجہ دیکھ کر وہ بےاختیار پکار بیٹھا۔۔
سب لوگ کمرے سے نکلنے لگے تھے وہ اس کی آواز سن کر حواس میں لوٹتے فوراً اپنے چہرے پر ہاتھ پھیرا۔۔
“افف۔۔! نجانے کیا سوچ رہے ہوں گے میرے بارے میں۔۔؟ مجھے اس طرح سے انہیں دیکھنے کی کیا ضرورت تھی۔۔؟”وہ خود کو ڈپٹتی ہوئی شرمندگی سے چہرہ جھکائے ہوئے ٹیبلیٹ اٹھا کر کمرے سے باہر نکل گئی۔۔
“پہننے اوڑھنے تک کی تمیز نہیں ہوتی اور لوگ منہ اٹھا کر اتنے بڑے بڑے آفس میں پہنچ جاتے ہیں۔ ارے ساتھ چل نہیں سکتی تھی تو سیکریٹری بننے کی ضرورت ہی کیا تھی۔۔!!”وہ اپنے روم کے قریب ہی تھی جب کسی کی جلی کٹی آواز سن کر واپس مڑی جہاں مس زارا ایک کولیگ سے کہہ رہی تھی۔ اس کی آنکھیں فوراً نم ہو گئیں تھیں حالانکہ اسے اب تک ایسی باتیں سننے کی عادت ہو جانی چاہیے تھی۔۔
وہ بنا کچھ کہے کمرے میں داخل ہو کر گرنے کے انداز میں کرسی پر بیٹھ گئی۔ سچ ہی تو کہہ رہی تھی وہ کہ اس کے ساتھ چل نہیں سکتی تھی تو اس کی زندگی میں کیسے داخل ہو گئی۔۔؟ کیوں انہوں نے ایک ہی ملاقات میں اس سے شادی کا فیصلہ کر لیا۔۔؟ ہمدردی۔۔! ہاں ہمدردی ہی ہو سکتی ہے اور کچھ بھی نہیں۔۔
وہ اپنے بہتے ہوئے اشکوں کو بےدردی سے رگڑ کر صاف کرتے ہوئے گردن ٹیبل پر رکھ لی۔ ابھی اسے کتنی رسوائیوں کا سامنا کرنا باقی تھا۔۔
٭٭٭٭٭٭
Man Angan Mein Deep Jale by Sana Sufiyan Khan Episode 3

Pages: 1 2