وہ تینوں ایک ساتھ حال میں داخل ہئے تھے وہ وائیٹ سوٹ پر بلیک کوٹ پہنے ہوے تھا اور زونیشہ کو گود میں لیے وہاں پہنچتے ہی زونیشہ اس کی گود سے اتر گئی تو وہ بھی سب سے ملنے لگا انزر کی فیملی کے ساتھ بیٹھ گیا ” زونی کافی کلوز ہوگئی ہے ضرار کے ” بھابھی نے انزر سے کہا جو ضرار کو زونیشہ کے پیچھے جاتا دیکھرہی تھی ” ہاں بھابھی ضرار کا اس میں بہت بڑا ہاتھ ہے وہ اسے ایک پل خد سے دور نہیں ہونے دیتے” وہ مسکراتی بولی تو وہ بھی مسکرائیں وہ رات کو بار بار کروٹیں بدلرہی تھی اسے زونیشہ کے بنا نیند ہی نہیں آرہی تھی جو محترمہ ضد کرکے نانی کے ساتھ چلی گئی تھی ” انزر کم آن یار صبح لے آئیں گے زونی کو تم پریشان مت ہو” وہ اسے ساتھ لگاتا بولا ” کیا کروں ضرار مجھے اس کے بنا نیند ہی نہیں آرہی آپ بتائیں کیا کروں ” وہ بے بسی سے بولی ” کرنے کو تو بہت کچھ ہے اگر آپ چاہیں تو” وہ اس کے گال پر انگلی پھیرتے مسکرایا ” مثلن کیا ؟” وہ اس کا ہاتھ ہٹاتی بولی ” زونی کی خواہش پوری کرنی ہے نا تم جانتی ہو میں اس کی کوئی بات نہیں ٹالتا ” وہ مسکراہٹ دباتا بولا ” کون سی خواہش” وہ نا سمجھی سے سے دیکھنے لگی ” اسے بھائی چاہے نا” وہ معصومیت سے بولا اور ابھی وہ سمجھتی کے وہ اس پر ہاوی ہوا وہ اسے گھورتی رہہ گئی ضرار نے اس کے چہرے پر جھکتے اس کی پیشانی چومی اور لائیٹ مدھم کرکے اس پر اپنی محبت کی بارش برساتا رہا انزر پور پور بھیگتی رہی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔