سویرا کی کوششوں نے رنگ لانا شروع کیا اور احتشام پر طاری اداسی کا کھول چٹخ کر جھڑنے لگا۔
اب وہ دھیرے دھیرے واپس پہلے والا احتشام بننے لگا تھا۔ اور اب سویرا کے ساتھ سیشنز کے لیے ولید کو یاد دہانی نہیں کرانی پڑتی تھی بلکہ مقرر دن پر احتشام خود ہی بخوشی تیار ہو کر طے شدہ جگہ پر پہنچ جاتا تھا۔ جسے دیکھ کر سب سے زیادہ ولید خوش تھا۔
اور اسی خوشی میں آج وہ سویرا کی فرمائش پوری کرنے گھر آگیا تھا جسے دیکھ کر سویرا کی والدہ رخشندہ یعنی ولید کی پھوپھو نہایت خوش ہوئیں اور اس کی خوب آؤ بھگت میں مصروف ہوگئیں۔ اتفاق سے سویرا کے والد سرفراز صاحب کسی کام کے سلسلے میں شہر سر باہر گئے ہوئے تھے تو ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ جب کہ سویرا کا بھائی راحیل اپنی بیگم اور ننھے بیٹے کے ساتھ ایک دعوت پر جا رہا تھا جو گرم جوشی سے مل کر روانہ ہوگیا۔ اب ڈائننگ ٹیبل پر بس رخشندہ، سویرا اور ولید موجود تھے۔
”بس پھوپھو میں کھا چکا ہوں۔“ ولید نے روکنا چاہا۔
”ہاں سب دیکھ رہی ہوں میں کہ تم کتنا کھا چکے ہو۔“ انہوں نے بھی ایک نہ سنتے ہوئے پلیٹ میں دوبارہ قیمہ نکال دیا جو برابر والی کرسی پر ہی بیٹھی تھیں۔ وہ بے بسی سویرا کو دیکھ کر رہ گیا جو مقابل بیٹھی ان سب سے محظوظ ہو رہی تھی۔
”میری تو کبھی اتنی خاطر نہیں کی آپ نے امی جتنی بھتیجے کی کر رہی ہیں؟“ سویرا نے مصنوعی طنز کیا۔
”جب شادی کے بعد گھر آؤ گی تب تمہاری بھی خاطر کر دیا کروں گی۔“ ان کے پاس بھی جواب تیار تھا۔
”اور میرا بھتیجہ آیا بھی تو اتنے سالوں بعد ہے، بتا کر آتا تو میں اس کی پسند کا کچھ بنا لیتی۔“ انہیں تھوڑا ملال ہوا۔
”یہ سب بھی بہت اچھا ہے پھوپھو۔“ ولید نے ان کا ملال کم کیا۔
”ہاں رحمٰن بھائی کو بھی میرے ہاتھ کا بنا قیمہ مٹر بہت پسند تھا۔“ وہ مرحوم بھائی کو یاد کرکے مسکرائیں۔
”کبھی کبھی ان کی بہت یاد آنے لگتی ہے، دل کرتا تھا تم سے مل لوں لیکن تم بھی رابطے میں نہیں تھے، بلکہ اگر سویرا کی اتفاق سے ملاقات نہ ہوتی تو ہمیں کبھی پتا چلتا ہی نہیں کہ تم اسی شہر میں ہو۔“ وہ مزید کہنے لگیں۔
”بھائی بھابھی کے انتقال کے بعد جب تمہاری کفالت کا مسلہ اٹھا تھا اور میں نے یہ ذمہ داری لینے سے انکار کردیا تھا کیا تم اس وجہ سے ہم سے اب تک ناراض ہو بیٹا؟“ انہوں نے خدشے کے تحت پوچھ لیا۔
”نہیں پھوپھو، ایسی کوئی بات نہیں ہے۔“ اس نے فوری متوجہ ہو کر نفی کی۔
”بیٹا میں خود بھی تمھیں اپنے ساتھ رکھنا چاہتی تھی لیکن تمہارے پھوپھا کے آگے میری کبھی چلی نہیں، اور تب ہمارے معاشی حالات بھی اتنے اچھے نہیں تھے اسی لئے تمہارے پھوپھا بھی اپنی جگہ ٹھیک تھے، اب تو خیر سے راحیل ڈاکٹر بن گیا ہے تو کچھ بہتری آگئی ہے، اور تمھیں سلمان بھائی کے پاس چھوڑنے کی وجہ یہ ہی تھی کہ ان کی حالت کافی مستحکم تھی جس سے تمھیں کوئی مسلہ نہیں ہوتا، ہو سکے تو مجھے معاف کر دینا بیٹا۔“ وہ خود ہی وضاحت دیتی آب دیدہ ہوگئیں۔
”ارے میری پھوپھو جان آپ کو اتنی صفائیاں دینے کی ضرورت نہیں ہے، مجھے آپ کے خلوص پر کبھی شک نہیں ہوا، میں آپ کی حالت سمجھتا ہوں، آپ پریشان نہ ہوں، یہ سب تو بس میری لاپرواہی تھی جو مجھے کبھی آپ سے ملنے کا خیال نہیں آیا۔“ ولید نے فوری ان کے کندھے کے گرد بازو حمائل کرتے ہوئے تسلی دی۔
سویرا کو یہ اچھا لگا کیونکہ اس نے اکثر اپنی ماں کو اس خدشے کے ساتھ پریشان دیکھا تھا کہ شاید ولید مجھ سے ناراض ہوگیا ہے۔ لیکن آج ولید نے آ کر پیار سے نفی کر دی تھی۔
”اب میں ہر ہفتے آپ سے ملنے آیا کروں گا اور آنے سے پہلے بتا بھی دوں گا کہ مجھے کیا کھانا ہے پھر آپ وہ تیار رکھیے گا، ٹھیک ہے ناں؟“ اس نے ماحول بدلنے کیلئے ہلکے پھلکے انداز میں یقین دہانی کرائی۔ اب وہ بھی قدرے بہتر تھیں۔
”ہاں بالکل آنا، اور آج بھی میں تمھیں اتنی جلدی جانے نہیں دوں گی، میں نے کھیر پکنے رکھی ہے وہ کھا کر جانا۔“ انہوں نے حکم سنایا۔
پھر تھوڑی دیر بعد وہ کھیر دیکھنے کچن میں چلی گئیں لیکن سویرا کو خاص ہدایت دے کر گئیں کہ اس پر نظر رکھے کہ وہ کھانے سے ہاتھ نہ روکے۔
”تھینکس ولید۔۔“ سویرا گویا ہوئی۔
”کس لیے؟“
”گھر آنے کیلئے۔۔۔۔امی کا خدشہ دور کرنے کیلئے۔۔۔۔۔کیونکہ میں نے ایک عرصہ انہیں اس فکر کے ساتھ پریشان دیکھا ہے کہ ولید مجھ سے ناراض ہوگیا ہے اب میں محشر کے روز بھائی کو کیا منہ دکھاؤں گی؟“ سویرا کی بات سن کر اسے بھی تھوڑی افسردگی ہوئی۔
”آئی ایم ویری سوری، غلطی میری ہے کہ مجھے اس بارے میں سوچ کر رابطہ رکھنا چاہئے تھا۔“ ولید کو بھی شرمندگی ہوئی۔
”چلو اب تمہارے دوست کے بہانے سے بہت سارے مسلے حل ہوگئے۔“ سویرا نے مسکرا کر ماحول کا تناؤ کم کیا۔
”ہاں، اور سب سے بڑھ کر اس کا اپنا مسلہ حل ہوا، اب وہ پہلے سے بہت بہتر ہوگیا ہے اینڈ آل کریڈیٹ گوز ٹو یو، تھینکس سویرا۔۔۔“ وہ دل سے مشکور تھا۔
”میں نے کوئی کمال یا احسان نہیں کیا، بس ہم سب ہی شاید ایک دوسرے کے مسائل حل کرنے کا ذریعہ بن گئے ہیں۔“ وہ مسکرائی۔
”رہی بات احتشام کے بہتر ہونے کی تو اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے بس اسے یہ محسوس کرایا ہے کہ کوئی ہے جو اسے سمجھ رہا ہے، جو اس کے غلط فیصلوں پر لعن طعن کرنے کے بجائے ان کے اثر سے نکل کر آگے بڑھنے کا راستہ دکھا رہا ہے جو چیز اسے گھر والوں اور دوستی کی طرف سے نہیں مل رہی تھی۔
تم لوگ اپنی فکر میں اسے ڈانٹ ڈپٹ رہے تھے، نصیحت کر رہے تھے، لیکن اس کے جوتے میں اتر کر اس کی حالت نہیں قبول کر رہے تھے کہ غلطیاں ہر انسان سے ہوجاتی ہیں پھر چاہے وہ غلط فیلڈ چننے کی غلطی ہو یا غلط انسان۔۔۔۔اور غلطی کے بعد ہی ہم اس سے سبق سیکھ کر میچیور ہوتے ہیں۔“ اس نے کافی رسان سے سب واضح کیا۔ وہ بغور سنتا رہا۔
”ہاں جیسے احتشام کے ساتھ ساتھ تم بھی میچور ہو رہی ہو، اور مجھے یقین ہے کہ اس آسائنمنٹ میں تم ہائی اسکور سے پاس ہوگی۔“ اس نے مسکراتے ہوئے نشان دہی کرکے پیشن گوئی بھی کر ڈالی۔
وہ بس دھیرے سے مسکرائی اور کچھ بتانے کیلئے لب کھولنے لگی تھی کہ رخشندہ واپس آگئیں۔ اور بات لبوں تک نہ آ سکی۔
٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭٭